وزرائے اعلیٰ کو چیلنجز کا سامنا


پنجاب و بلوچستا ن میں وزرائے اعلیٰ کی تبدیلی کی لہر میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے تو عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں ہمیشہ غیر مستحکم حکومت رہی، کسی بھی اتحادی جماعت کا روٹھ جانا، دراصل صوبائی حکومت کے لئے مشکلات کا سبب بن جاتا ہے۔ روٹھے، منانے کے عمل میں عوام کے ”وسیع تر مفاد“ کو دیکھ کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی پی ٹی آئی کے سنیئرز کے درمیان اختلافات ڈھکے چھپے نہیں، خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ کے خلاف ناراض اراکین کا گروپ بن چکا اور وزیراعظم سے ملاقات میں تحفظات کے اظہار کے لئے مختلف میٹنگ و رابطوں کا باقاعدہ آغاز بھی شروع ہوچکاہے۔

(گروپ بندی میں سنیئر وزراء کی برطرفی اپوزیشن سیاسی حلقوں کے لئے متوقع و حکمران طبقے کے لئے حیران کن ثابت ہوئی) ۔ لیکن اِن ہاؤس تبدیلی کا موقع وہاں کسی بھی شخصیت کے لئے آئیڈیل نہیں ہوگا، کیونکہ پی ٹی آئی حکومت کے لئے رول ماڈل کا درجہ رکھنے والی صوبائی حکومت میں اعلیٰ سطح کی تبدیلی سے پی ٹی آئی کے بیانئے کو نقصان پہنچے گا۔

پنجاب عملی طور پر غیر اعلانیہ تقسیم کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے، اختیارات کی تقسیم نے وسیم اکرم پلس حکومت کو شکایت کرنے پر مجبور کردیا ہے، پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کو منانے کا ٹاسک فی الوقت موثر نظر نہیں آرہا، (وزیر اعلیٰ بزدار گروپ کی کوششیں جاری ہیں ) خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ ق، پنجاب کے انتظامی معاملات پر اپنا اثر رسوخ بڑھاتے نظر آرہی ہے۔ گو کہ چودھری بردران، بالخصوص مونس الہی صراحت کے ساتھ اعلان کرچکے ہیں کہ جب تک پی ٹی آئی انہیں دھکے کر نہیں نکالے گی، اُس وقت تک ق لیگ، تحریک انصاف کا ساتھ دے گی۔

لیکن یہاں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ ق لیگ یا تحریک انصاف کے ناراض اراکین کا بیانیہ اتفاق سے یکساں نظر آرہا ہے کہ اُن کا اتحاد یا حمایت عمران خان سے ہے، بزدار حکومت کے پابند نہیں۔ خاص طور پر ق لیگ کے سنیئر رہنما ء تو واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ بزدار حکومت کے نہیں بلکہ عمران خان کی سپورٹ کے لئے اتحادی بنے۔ پنجاب میں تیزی سے کئی سنیئر بیورو کریٹس کی تبدیلیاں، پنجاب میں عوام کو متاثر کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرپا ئیں، وزیراعلیٰ پنجاب تو خود بھی اظہار کرچکے تھے کہ وہ ”ابھی سیکھ رہے ہیں“۔

اس لئے کہا نہیں جاسکتا کہ اُن کے سیکھنے کا عمل کب مکمل ہو گا۔ حکومتی وزرا ئئی کے درمیان لفظی گولہ باری و اختلافات اب کھل کر سامنے آچکے ہیں، اسی طرح پنجاب میں گیڈر سینکھی رکھنے والی شخصیت (علیم خان) جس طرح پنجاب (اقتدار) کی سیاست سے کنارہ کرائی گئی، اُس پر سیاسی پنڈتوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے، کیونکہ وفاق حکومت کی جان پنجاب میں ہے۔ اگر پنجاب میں تبدیلی کا عمل ہوا تو وفاق بھی اُس کے مُضر اثرات سے نہیں بچ سکے گا۔

بلوچستان میں حکمراں جماعت کے درمیان جس طرح کھل کر اختلافات سامنے آئے، اس سے خدشات جنم لے رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہلچل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ صوبہ بلوچستان جب تک سیاسی طور پر باشعور نہیں ہوتا اور کسی ایک ایسی جماعت کو عوامی مینڈیٹ نہیں ملتا جو حقیقی نمائندگی رکھتی ہو، بلوچستان میں سیاسی گھمبیر مسائل جنم لیتے رہیں گے۔ سیاسی انتشار کی وجہ سے صوبے میں دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی جنگ بھی متاثر ہو رہی ہے اور انتہا پسندوں کے سہولت کاروں کی سیکورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں سے ملک وقوم کے محافظوں کو قیمتی جانی نقصان پہنچ رہا ہے۔

بلوچستان میں سیاسی ناہمواری کے سبب عوام میں بے چینی کو نمایاں طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے بار بار بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ڈیٹ لائن دی جا رہی ہے۔ بلوچستا ن اس وقت حساس ترین صوبہ ہے کیونکہ عالمی قوتوں کی جانب سے ون بیلٹ ون روڈ کے ابتدائی روٹ کے آپریشنل ہونے کے بعد عالمی تجارتی جنگ میں اضافے کا رجحان دیکھنے میں ملے گا۔ امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے ایک مرتبہ پھر جس طرح سی پیک منصوبے کو نشانہ بنایا، وہ نہ صرف پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے بلکہ امریکی عزائم کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ سی پیک منصوبے کو رول بیک کرنے کے لئے پاکستان پر دباؤ ڈالاجا رہا ہے۔

سی پیک منصوبے کا دوسرا مرحلہ شروع ہوچکا ہے اور اس منصوبے ثمرات سے فائدہ اٹھانے کے لئے افغانستان میں امن ناگزیر ہے کیونکہ جب تک افغانستان میں امن نہیں ہوتا، ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ تیزی سے کامیابی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا۔ افغانستان میں افغان مفاہمتی عمل پاکستان میں سیاسی استحکام کے لئے ضروری ہے کیونکہ جب تک مملکت میں سیاسی استحکام نہیں آتا، اُس وقت تک وطن عزیز کو درپیش مسائل سے نبر الزما ہونے میں دقت کا سامنا رہے گا۔ پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا میں حکمراں جماعتوں کو اپنے رہنماؤں اور اتحادیوں کی وجہ سے طویل المدتی منصوبوں پر عمل پیرا ہونے میں دشواری کا سامنا ہے۔

صوبہ سندھ کو سیاسی طور پر غیر مستحکم کرنے کی سال بھر کی تمام کوششیں ناکام نظر آتی ہیں۔ پی ٹی آئی، سندھ میں ڈیلیور کرنے میں کامیاب نظر نہیں آتی، گورنر راج لگانے کی تمام کوششوں کو بھی ناکامی کا سامنا ہوا۔ اپوزیشن کی جانب سے سندھ میں انتظامی تبدیلی کے لئے پی پی پی فاروڈ بلاک بنانے کی کوششوں کو بھی ناکام رہی، بلکہ پی پی پی نے ایم کیو ایم پاکستان کو ساتھ ملانے کے لئے جس طرح آگے بڑھ کر اسٹروک کھیلا، وہ گیند باؤنڈری سے باہر گری، اُس کے بعد پی ٹی آئی و حلیف جماعتوں کو سندھ میں کسی سیاسی تبدیلی کے مشن سے پیچھے ہٹنے میں مجبور کردیا۔

اس وقت سیاسی صورتحال میں عدم استحکام کی شکار پی ٹی آئی حکومت کو اندرون ِ خانہ دشواریوں کا سامنا ہے، لیکن یہ پریشان کن اس لئے قرار نہیں دی جاسکتی کیونکہ تمام ریاستی ادارے ایک صفحے پر ہیں اور اس وقت عالمی سیاست میں وزیراعظم کی ذاتی شخصیت نے کئی عالمی رہنماؤں کی بھرپور توجہ حاصل کی ہوئی ہے۔

وزیراعظم ملک میں سیاسی بحران کو حل کرنے میں عجلت یا پریشانی کا شکار نظر نہیں آتے، کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس اتحادی کو کس طرح ”مطمئن“ کرنا ہے، اس وقت وزیراعظم نے کئی نامور عالمی رہنماؤں کی صف میں اپنی جگہ بنانے میں قدرے کامیابی حاصل کرچکے ہیں، ان کی بات انٹرنیشنل فورم پر سنی اور عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل ہوتی ہے، لیکن پاکستان کے دیرینہ مسائل کو حل کرانے کے لئے انہیں ملکی داخلی سیاسی عدم استحکام کو دور کرنا ہوگا۔ ملکی سیاسی ڈھانچے کی کمزوری کے سبب پاکستان فعال کردار ادا میں کافی پیچھے نظر آرہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments