ہم اپنے ملکوں میں ہی بیگانے کیوں؟


آج ہم اسلامسٹس اپنے ہی ملکوں اور سرزمینوں میں جہاں صدیوں سے ہم رہتے آ رہے ہیں پچھلے تین سو سال سے عموماً اور پچھلے ایک سو سال سے خصوصاً اپنے دشمنوں سے پے در پے شکستیں کھا رہے ہیں۔ اگر بالفرض کوئی فتوحات ملی بھی ہیں تو اس کے لیے قربانیاں دینے والے تو اسلام پسند تھے لیکن ثمر انگریزوں کے تیار کردہ کٹھ پتلیوں کی جھولی میں بالواسطہ یا بلا واسطہ ڈال دیا گیا۔

یوں بیسویں صدی کی نام نہاد آزادیوں کے بعد بھی عرب، مصر، ترکی، تیونس، الجزائر، ملائشیا اور انڈونیشیا سے لے کر ہندوستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں حقیقتاً اسلامسٹس ملکی سیاست سے عملاً دور ہیں اور اگر کہیں وہ کوشش کریں بھی تو ان کے سامنے ایسی ایسی رکاوٹیں آجاتی ہیں کہ موجودہ دور میں انھیں عبور کرنا ناممکن حد تک مشکل ہوجاتا ہے۔ عالم اسلام پہ آج بھی اصل حکمرانی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یونائیٹڈ نیشن اور سلامتی کونسل کے ذریعے یہودیوں کی ہی ہے۔

داخلی سطح پر تمام تر مسلمان ملکوں کا بیانیہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ عوام الناس کے اندر دین کی بنیادیں اور جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں خصوصاً یونیورسٹیوں میں شعائر اسلام داڑھی، برقع اور حجاب کا مذاق اڑایا جانا ایک عام چلن ہو چکا ہے۔ فلموں اور ڈراموں میں میٹھا زہر بھربھر کر نسل ِنو کو ٹیکے لگائے جارہے ہیں۔ لڑکی اور لڑکے کے منہ سے دوستی کے الفاظ ایسے ادا کرواے جارہے ہیں جیسے اسلام میں اس کی ممانعت ہی نہیں ہے اور اسلام نکاح سے قبل تعلق کو کچھ بھی نہیں کہتا۔

نمازیوں اور روزہ داروں کی تعداد دن بدن کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں کے پورے پورے ڈیپارٹمنٹس میں صرف چند ایک لوگ نمازی نظر آئیں گے۔ ہمارے مخلوط تعلیمی اداروں میں کلچر ڈے، بون فائر اور ویلکم پارٹیز کے نام پر شرم و حیا کے باجماعت جنازے ادا کیے جاتے ہیں۔ اسلام کے نام پر بننے والے مسلمان ملکوں کے ریاستی بیانیے تبدیل ہو چکے ہیں۔ ہیومن ازم اور ایتھزم (الحاد) کا بھوت ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔

حکومتیں دین بیزار اخلاقی کرپٹ اور لبرل افراد کے ہاتھوں میں ہیں۔ امت کا تصور دم توڑتا چلا جا رہا ہے بلکہ کسی حد تک دم توڑ چکا ہے۔ وطنیت پرستی کا بت جڑیں مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ آج انڈیا میں تیس کروڑ کے قریب مسلمانوں کی شہریت منسوخ کرنے کا بل پاس ہو رہا ہے اور وہ پچھلے دو مہینے سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن کسی مسلمان ملک کی حکومت کو ان کی پروا نہیں۔

دو کروڑ کشمیری مسلمان پچھلے چار مہینے سے اذیت ناک کرفیو میں ہیں، شام میں سنی مسلمان جل رہے ہیں، برما اراکان میں مسلمان بھسم ہو رہے ہیں، چائنا نے ایک پورے صوبے کے ایغور مسلمانوں کو جیل خانوں میں ڈال رکھا ہے، فلسطین پر ٹرمپ ”ڈیل آف دی سینچری“ کر رہا ہے اور افغانستان ایک لمبے عرصے سے قربانیاں پیش کر رہا ہے۔

اگر بات کی جاے پاکستان کی تو اسے ایک ایسی لمبی اور انوکھی جنگ میں مصروف کیا ہوا ہے کہ وہ چاہ کر بھی اس سے نکل نہیں سکتا اور اگر نکلنے کی سعی کرے بھی تو پاکستان کے اندر کا امن و سکون برباد کردیا جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف نامی عفریت نے پاکستان کو شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اور پاکستان اس شکنجے سے نکلنے کی خاطر ہاتھ پاؤں ماررہا ہے۔

اس ساری صورت حال میں پولیٹکل اسلامک سپرمیسی کے ایجنڈے پر بننے والی اور کام کرنے والی ہماری مذہبی جمہوری جماعتیں بھی ناکام ہوئی ہیں۔ تبلیغی جماعتیں بھی ناکام ہوئی ہیں اور جہادی جماعتیں بھی۔ یہ سب تحریکیں بے پناہ وسائل اور افرادی قوت ہونے کے باوجود اصل ہدف حاصل کرنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ ہم اسلامسٹس ہر میدان میں بری طرح پٹ رہے ہیں۔ اس پہ مزید یہ کہ ہمیں قیادتوں کی طرف سے ”سب اچھا ہے“ کی گردان سنائی جاتی ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ ہماری ڈیڑھ سو سالہ، سو سالہ اور ستر سالہ عمریں رکھنے والی مذہبی جماعتوں اور تحریکوں کے کام کے طریقہ کار، حکمت عملی و منصوبہ بندی میں کوئی بہت بڑا شگاف موجود ہے جسے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر فیلڈ، بزنس، انڈسٹری اور ادارہ کے اپنے ڈائنامکس ہوتے ہیں، حریف سے مقابلہ کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے۔ ڈائنامکس کے تقاضے پورا نہ کرنے والے بری طرح شکست کھاتے اور رفتہ رفتہ میدان سے مکمل آؤٹ ہو جاتے ہیں۔

جبکہ ہم ہیں کہ تسلسل سے ناکام ہونے پر بھی اپنے کام کے طریقہ کار پر نہ صرف ڈٹے ہوے ہیں بلکہ کارکنان و محبین کو سمجھا رہے ہیں کہ بس تھوڑے دن صبر کریں کہ خوشخبریاں دستک دینے والی ہیں۔ کوئی چند ایک خوش نما نعروں اور کوئی چھوٹی موٹی بظاہر کامیابیوں پر اپنے لوگوں کی ساری قوت غلط جگہ پر، غلط وقت میں اورغلط انداز سے کھپاتے چلے آ رہے ہیں۔ معذرت کے ساتھ یہ سب ہماری ذہنی صلاحیتوں کی کمی، سطحی سوچ، بصیرت اور فہم اور نئے پیش آمدہ چیلنجر کے ادراک کی کمی کے دیوالیہ پن کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

ہمیں اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ دردِ امت رکھنے والے یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، گرم خون اور منہج سلف کا فہم رکھنے والے یونیورسٹی گریجویٹس، علمائے کرام، بزنس مین اور عالم اسلام کے انتہائی انٹیلیکچولز دماغ اپنی تاریخ کو دوبارہ کھنگالیں، اس سے سبق سیکھیں اور اپنی غلطیوں کا ازالہ کر کے نئی حکمت عملی کے ساتھ نئے سرے سے منظم ہوں۔ ورنہ اس قوم اور امت کا مستقبل تاریک سے تاریک ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے افکار، افعال اور کردار کی اصلاح فرمائے اور ہمیں اس کے لیے اپنا عملی کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments