کرپشن تو ختم نہیں ہوئی مہنگائی پر ہی قابو پالیں


کسی جگہ چوری ہو گئی۔ چوری کے شبہے میں چند افراد کو قاضی کے سامنے پیش کیا گیا۔ تفصیلات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ چور پیش کردہ افراد میں سے ہی ہے لیکن کوئی اپنا جرم تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ قاضی صاحب نہایت زیرک اور معاملہ فہم تھے۔ صورتحال دیکھ کر انہوں نے اعلان کیا کہ میرے پاس ایک ایسا ورد ہے جسے پڑھنے کے بعد جس شخص نے چوری کی ہو گی اس کی داڑھی میں تنکا نمودار ہو جائے گا۔ قاضی کا یہ کہنا تھا کہ حاضرین میں سے ایک شخص اپنی داڑھی میں تنکا نمودار ہونے کے خدشے کے پیش نظر ہاتھ پھیرنے لگا اور یوں اصل چور گرفتار ہو گیا۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ آنے کے بعد حکومت کا رویہ بھی یہی تھا۔ رپورٹ کے مندرجات اور میرٹ پر غور و تدبر کے بجائے دہائی مچادی کہ یہ تعصب پر مبنی ہے اور اس طرح کی رپورٹس کی اہمیت کچھ نہیں ہوتی۔ حالانکہ پچھلے ادوار میں اسی ادارے کی کرپشن کے بارے رپورٹس کا ہمارے وزیراعظم صاحب صبح شام حوالہ دے کر مخالفین کو لعن طعن کا نشانہ بنایا کرتے تھے۔ حکومت کے پرجوش ترجمان اور حمایتی ایک بار پھر یہ فراموش کر گئے آج کے دور میں کسی کے ماضی و حال کے خیالات کا تضاد پوشیدہ نہیں رکھا جا سکتا۔

اسی وجہ سے جب ریگولر اور سوشل میڈیا پر عمران خان صاحب کے ایسے بیانات وائرل ہوئے تو پھر سبکی اٹھانا پڑی۔ مشیر اطلاعات تو روزگار کی مجبوری کے تحت یہاں تک چلی گئیں کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے پاکستان میں نمائندے کا لنک ہی ن لیگ سے انہوں نے جوڑ دیا۔ اب جبکہ مذکورہ رپورٹ کے بارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی وضاحت آ گئی ہے تو وہی زبانیں جو اس ادارے کی ساکھ پر الزام تراشی کر رہی تھیں، مخالفین کو ڈوب مرنے کا کہہ رہی ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ ادارے کی رپورٹ کے متعلق دو دن پہلے کے حکومتی خیالات درست سمجھے جائیں یا حالیہ خیالات۔ حکومت اگر سمجھتی ہے کہ اس کا دامن صاف ہے تو داڑھی کھجانے کی کیا ضرورت تھی؟ بہتر نہ تھا کہ حکومتی ذمہ دار رپورٹ پر ردعمل دینے سے قبل مندرجات پر سکون سے اچھی طرح غور کر لیتے۔ اس طرح محظ دو دن میں پہلے وضاحتیں دینے اور پھر وضاحتیں مانگنے کی نوبت نہ آتی۔

کسی ٹیکنیکل بحث میں الجھے اور رپورٹ کی صداقت یا جھوٹ سے قطع نظر کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں اور اس بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ پچھلے ڈیڑھ سال کے اندر سرکاری دفاتر میں رشوت کے ریٹ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات نہ تو جھوٹ ہے اور نا محظ الزام تراشی۔ ق لیگ کے کامل علی آغا درست کہہ رہے ہیں کہ پہلے سرکاری دفاتر میں جو کام پانچ سو یا ہزار میں با آسانی ہو جاتا تھا وہی اب پچاس ہزار سے کم میں نہیں ہوتا۔ ریوینیو آفسز میں میرا اکثر واسطہ پڑتا ہے لہذا پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں اس ڈپارٹمنٹ کا حال پہلے سے بہت ابتر ہے۔

حالیہ دنوں میں جسے اس کام کا تجربہ ہوا ہو وہ بخوبی جانتا ہے کہ خواری کتنی بڑھ گئی ہے ورنہ کسی آفس جاکر انتقال ملکیت کے کاغذات کے لیے دھکے کھاتے لوگوں سے تصدیق کی جا سکتی ہے۔ اس کا یہ مطلب بالکل نہیں باقی اداروں میں بہتری ہو گی، وہاں کی جو خبریں ملتی ہیں، امید نہیں کہ ان کے حالات اس سے مختلف ہوں گے علی ہذا القیاس۔ یہ حالت کیوں ہوئی؟ مشاہدے کی بات ہے کہ کسی چیز کا جتنا ڈراوا دیا جائے اتنا ہی اس کا خوف ذہن سے نکل جاتا ہے۔

پچھلے ڈیڑھ سال میں نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کی طرف سے اندھا دھند لٹھ گھمائے جانے، تمام قبل ذکر اپوزیشن لیڈران کو جیلوں میں ڈالنے بلکہ بقول اپوزیشن لیڈر شہباز شریف دیوار میں چنوا دینے کے باوجود کرپشن کی شکایت بڑھ رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ احتساب کا خوف لوگوں کے دل سے نکل چکا ہے۔ یا پھر وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ احتساب سے متعلقہ ادارے خود بھی مال بنانے میں مصروف ہو چکے ہیں۔

اس سے تو انکار نہیں کہ کرپشن کسی بھی دور میں کہیں سے بھی مکمل ختم کی نہیں جا سکتی۔ دنیا کا کوئی ترقی یافتہ یا مہذب ترین ملک بھی کرپشن سے بالکل پاک نہیں۔ ہاں اگر سنجیدگی سے اور بلا امتیاز سعی کی جاتی تو قابل ذکر حد تک کرپشن میں کمی ضرور لائی جا سکتی تھی۔ لیکن حالیہ حکومت نے جب کرپشن کے خلاف علم اٹھایا تو اس کی توپوں کا تمام رخ مخالف سیاستدانوں یا ان کے قریب تصور ہوتے بیوروکریٹس تک محدود رہا۔ جب چند افسران کی گرفتاری کے بعد بیوروکریسی کام چھوڑ کر بیٹھ گئی تو باقی بیوروکریٹس بھی پھر احتساب سے آزاد کر دیے گئے۔

اس تمام عرصے میں نچلے درجے کے سرکاری اہلکاروں کو کسی قاعدے میں لانے پر کسی نے توجہ نہ دی اسی وجہ سے انہیں کھلی چھوٹ مل گئی۔ اس وقت تک کرپشن کے خلاف کارروائی کامیاب کس طرح قرار دی جا سکتی جب تک نچلے درجے سے اس کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ یہ بالکل غلط تصور تھا کہ اوپر بندہ درست بیٹھا ہوگا تو نیچے معاملات ازخود بہتر ہو جائیں گے۔ ویسے تو اس تاثر میں بھی زیادہ جان نہیں۔ کچھ دیر کے لیے مگر یہ تصور کر بھی لیا جائے کہ عمران خان بذات خود کرپٹ نہیں اور ان کی دیانت پر کوئی سوالیہ نشان نہیں۔

ان کی کابینہ کی اکثریت مگر دوسری جماعتوں سے آئے افراد پر مشتمل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ماضی میں کرپشن کے سنگین الزامات لگتے رہے ہیں جبکہ بیشتر کے تو ابھی بھی کرپشن کیسز پینڈنگ پڑے ہیں لیکن حکمران جماعت میں ہونے کی وجہ سے ان پر کارروائی نہیں ہو رہی۔ یہ لوگ بڑی صنعتوں، کاروباری اداروں اور بے پناہ زرعی جاگیروں کے یا تو خود ملک ہیں یا پھر ان کے عزیزو اقارب۔ یہ بات کسی حد تک درست ہو گی کہ موجودہ دور میں کوئی میگا کرپشن اسکینڈل سامنے نہیں آیا، لیکن اس کا سبب حکومت کی دیانتداری نہیں بلکہ یہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے ترقیاتی کام ہی بالکل بند پڑے ہیں، ورنہ پشاور بی آر ٹی کی شفافیت پر اتنے سوالیہ نشان نہ ہوتے۔

آج کے دور میں کک بیکس اور کمیشن جیسے فرسودہ طریقوں سے کرپشن نہیں ہوتی بلکہ یہ کام اب نہایت سائنٹیفک طریقے سے ہو رہا ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری بھی کرپشن کے جو کیس بھگتا رہے ہیں وہ آج کے دور کے نہیں بلکہ نوے کی دہائی کے ہیں۔ جبکہ شاہد خاقان عباسی اور سعد رفیق پر الزام بھی مالی غبن کا نہیں غلط پالیسیز کی وجہ سے مبینہ طور پر قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصان کا ہے۔ جب اعلی عہدوں پر ایسے لوگ بیٹھے ہوں جن کے کاروباری مفادات کا ٹکراؤ ملکی مفاد سے ہو اور جی آئی ڈی سی کے سینکڑوں ارب خدا کی راہ میں معاف کیے جا رہے ہوں اور کبھی آٹے و چینی جیسی اشیاء کو پہلے سستے داموں ایکسپورٹ کرکے پہلے بحران پیدا کیا جائے بعدازاں وہی چیز مہنگے داموں درآمد کی جائے تو کرپشن کے سوا اسے کیا نام دیا جائے۔

حکمران صرف اپنی ذات نہیں بلکہ اپنے اردگرد کھڑے لوگوں کا بھی ذمہ دار ہوا کرتا ہے۔ اب تو حکومت کے اتحادی بھی بلیک میلنگ پر اتر چکے ہیں، اولین دنوں میں عمران خان اپنے کرپٹ ساتھیوں کا محاسبہ نہیں کر سکے تو اب کہاں انہیں کامیابی ملے گی۔ کرپشن کا خاتمہ لہذا ان کے لیے ممکن نہیں حکومت کی باقی مدت میں وہ مہنگائی کی تہہ در تہہ آتی لہروں پر ہی قابو پا لیں تو بڑا کارنامہ ہو گا۔ سوال لیکن یہ ہے کہ موجودہ ٹیم کے ساتھ کیا وہ یہ بھی کر پائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments