ابن آدم کی ہوس اور بنت آدم کی فریاد


بنت آدم کے ساتھ جنسی زیادتی تو ایک قسط وار سلسلہ بن چکا ہے۔ ایک واقعہ کے درد، کرب الم کی کیفیت سے یہ قوم باہر نہیں نکلتی کہ دوسرا واقعہ منظر عام پر آ جاتا ہے۔ اِس پر جتنا لکھا اور بولا جائے اتنا کم ہے۔ ابنِ آدم نے ہر دور میں بنت حوا کو خواہشات کی صلیب پر چڑھایا ہے۔

کوئی دیہات کوئی شہر ایسا نہیں جہاں معصوم بچے انسان نما درندوں کے ہاتھوں جنسی ہوس کا شکار نہ ہوں۔ واضع رہے کہ میڈیا پر وہی کیس نمایا ہوتا ہے جو رپورٹ کیا جاتا ہے ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق چند پس پردہ حقائق سامنے آئے ہیں بہت سے علاقوں میں والدین اپنے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملے کو منظر عام پر لانے سے گھبراتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر روز 9 بچے شیطان صفت انسانوں کے ہاتھوں جنسی زیادتی کا شکار ہوتے، بچے سے لے کر بچی تک، لڑکے سے لے کر لڑکی تک جنسی زیادتی کے لاتعداد واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ ہمارا سماج کا حلیہ اِس قدر بگڑ چکا ہےکہ سکول و یونیورسٹی میں پڑھنے والی طلبات اپنے استاد سے ہراساں کی جاتیں ہیں اسی طرح پڑھانے والی معلمہ اپنے شاگردوں سے محفوظ نہیں۔

مدرسے میں پڑھنے والے طلباء اپنے استاد سے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے۔ ‏‎‎‎روح کانپ جاتی ہے کیسے کیسے وحشی درندے مذہب کا لبادہ اوڑھے معتبر بنے بیٹھے ہیں۔

اس ضمن میں غیر سرکاری تنظمیں ملک کے مختلف شہروں میں آگاہی مہم پر کام کر رہیں ہیں۔ والدین کو اُن کے شانہ بشانہ بچوں میں آگاہی فراہم کرنے میں تسلسل کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اب گھر میں بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول پیدا کرنا ہو گا جس سے وہ اپنے بچوں کی جنسی تربیت کر سکیں۔

تربیت بالغان یعنی جیسے ہی بچے بالغوت کو پہنچے انہیں جنسی تعلیم دی جائے۔ یہاں جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دینا بھی بہت بڑا اور سنجیدہ مسئلہ ہے، کیا 10 سال کی عمر میں شادی کر دینا لڑکیوں کے ساتھ نا انصافی نہیں ہے۔

کیا ہمارے سماج میں لڑکے اور لڑکیوں کو جنسی آزادی حاصل ہے؟

اپنی پسند کی شادی براہ راست جنسی خودمختاری کا معاملہ ہے، ہر لڑکے لڑکی کو اپنی پسند کی شادی کا مکمل حق ہونا چاہیے کب اور کس سے شادی کرنی ہے۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک جملہ میری نظر سے گزرا جس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا وہ جملہ تھا ”لڑکی 18 سال کی عمر میں مر جاتی ہے لیکن دفنائی 60 سال کی عمر میں جاتی ہے“۔

جنسی زیادتی کے واقعات صرف پاکستان میں ہی نہیں انڈیا میں بہت بڑی تعداد میں ریپ کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن سوال یہ ہے ایک ملک جس کی % 97 آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہو وہاں ایسے واقعات میں اضافہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔

ہمارا نظام عدل اس قدر بوسیدہ ہے کہ یہاں ملزم کے لئے نئے راستے بنا دیے جاتے ہیں۔ قانون میں سزا واضع کر دی گئی ہے اُس کے باوجود ایسے واقعات میں تسلسل دیکھنے میں آیا ہے اِن واقعات کی روک تھام کے لئے موثر اقدامات اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔

بچے ملک کا مستقبل اور ملک کا اثاثہ ہیں۔ بحثیت شہری ہمارا فرض ہے کہ ہم بچوں کی حفاظت کے لئے ٹھوس کردار ادا کریں۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں زیادہ تر قریبی رشتہ دار اور پڑوس کے لوگوں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ہماری غفلت اور بے حسی کی وجہ سے یہ انسان نما درندے ہمارے سماج میں پلتے اور پھولتے ہیں۔

کیا بنت آدم کی یہ فریاد کسی کو سنائی نہیں دیتی؟

اے ابن آدم کیا میں بنت آدم نہیں؟

ابنِ آدم کیا تم جانتے ہو تمہاری اور میری تخلیق ایک ہی خمیر سے ہوئی؟ پھر درجات کی معراج ابنِ آدم کو کس نے سونپ دی؟ کہ وہ بنت حوا کی زندگی کے فیصلے کرے؟

میری خودمختاری کو خاندان کے چہرے پر داغ کا رنگ دے کر مجھے مارڈالا، بدکاری کے نام پرمجھے کاری کر ڈالا، چہرا تیزاب پھینک کر مسخ کر ڈالا، تو کہیں عزت دار مردوں کی عزت سوالیہ نشان تھی مجھے جلا ڈالا۔

مجھے ہوس کا نشانہ بنایا تم نے۔

مجھے کاری کیا تم نے۔

اے ابنِ آدم تمہاری ہر شام، ہر رات مے خانوں میں، تمہارے ہاتھوں سے ہر روز معصوم ننھے پھول جنسی ہوس کا شکار ہوتے لیکن تم ان سب کے باوجود معتبر ٹھہرے اور میں گنہگار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments