کیا بھول بھلیوں کی زبان لکھنے والے صحافت کا حق ادا کر رہے ہیں؟


ملک عزیز کی صحافت میں یہ عام عادت ہے۔ اگر کسی ادارے (بلکہ درست کہا جائے تو ایک ہی ادارہ) کا نام نہ لیا جا سکتا ہو یا نام لینے کی ہمت نہ ہو تو لفظ حساس ادارے کا استعمال کر لیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب کسی شخصیت کا نام نہ لیا جا سکتا ہو یا لینے کی ہمت نہ ہو تو لفظ اہم شخصیت استعمال کر دیا جاتا ہے۔ ایسا کیے جانے کی بظاہر دو وجوہ ہو سکتی ہیں، پہلی یہ کہ دی گئی خبر ہی درست نہ ہو یا یہ کہ خبر خود اس صحافی کے لیے مشکوک ہو جس نے خبر دی ہو۔

ایسی صورت میں متعلقہ ادارہ یا شخص کسی بھی طرح آشکار ہونے سے بیشتر صحافی کی صحافیانہ اہلیت کا بھانڈا پھوڑ سکتا ہے۔ اگر چاہے تو ایسے صحافی کے خلاف قانونی تادیبی کارروائی بھی کر سکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مذکور ادارہ یا مذکور شخصیت اس قدر بارعب و پر جبروت ہو کہ خود کو قانون سے بالاتر تصور کرے، ایسی صورت میں درست یا غلط کسی بھی نوع کی خبر دیے جانے پر صحافی غیظ کا نشانہ بن سکتا ہے۔ اسے جسمانی یا ذہنی اذیت رسانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا اور ممکن ہے جان کے ہی لالے پڑ جائیں۔

اس طرح کا ”خود پہچانو“ قسم کا انداز ان ملکوں میں تو اختیار کیا ہی نہیں جا سکتا جہاں بہت جابر حکومتیں ہوں چاہے عسکری آمر کی شکل میں، فسطائی سیاستدان حاکم کی شکل میں یا نظریاتی کہلائے جانے کے دھوکے تلے ایک ہی پارٹی کی حکومت کی شکل میں۔ ایسی حکومتوں کے دوران ویسے تو کوئی سر اٹھانے کی ہمت نہیں سکتا لیکن جو بولنے والے انقلابی ہوتے ہیں وہ جان ہتھیلی پر رکھ کے سچ کہتے ہیں جن میں سے کچھ کو ملک چھوڑ کے بھاگنا پڑتا ہے، کچھ پر اگر تھوڑا سا رحم آ جائے یا کسی حوالے سے بین الاقوامی دباؤ یا ملامت کا خدشہ ہو تو زبردستی ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ باقیوں کو بے خبر زنداں میں محبوس کر دیا جاتا ہے یا پھر عیاں یا خفیہ طریقے سے مار یا مروا دیا جاتا ہے۔

مگر ایسے ملکوں میں جہاں جبر کا خوف بھی ہو اور بچ جانے کا گمان بھی، صحافتی فریضہ ادا کرنے کی لگن بھی ہو اور صحافت سے بے دخل کر دیے جانے کا خدشہ بھی وہاں حساس ادارہ اور اہم شخصیت لکھ کر کچھ لوگوں کو ان کے اندازے کے مطابق خبر پہنچا کر اپنی صحافتی اہلیت اور فرض شناسی پر داد کی توقع رکھی جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کا عناد مول لیا جاتا ہے کیونکہ ایسے ملکوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان مبینہ حساس اداروں یا ادارے اور اہم شخصیات یا شخصیت کے ہی حق میں ہوا کرتے ہیں۔ فی الواقعی محبت اور حب الوطنی کے تحت، غلط خبر دیے جانے کے یقین کے تحت، متعلقہ ادارے یا شخص کی جانب سے خود سے متعلق کی گئی وضاحت اور صفائی پہ من و عن اعتبار کیے جانے کی روش کے تحت اور کسی حد تک خوف یا احتیاط کے سبب بھی۔

جنہیں یا جسے حساس ادارہ/ادارے، کہا جاتا ہے وہ کسی کے خلاف اگر کوئی کارروائی کرتے ہیں چاہے وہ قانونی ہو یا ماورائے قانون وہ بالعموم قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کے افسران و اہلکاران کے ساتھ مل کر کے کی جاتی ہے۔ بالعموم تو ایسی کارروائیوں کے بارے میں علم ہی نہیں ہوتا یا اگر علم ہو بھی جائے تو ایک دوسرے پر ڈالنے اور معاملے سے متعلق مشکوک کیے جانے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔ ایسا صرف انتہائی معروف مگر ضروری نہیں کہ وہ معاشی یا سیاسی طور پر اہم بھی ہو، شخصیت کے بارے میں ممکن ہوتا ہے کہ کسی حساس ادارے کا عجیب بات ہے کہ غیر حساس عیاں حصہ تسلیم کرلے کہ ایسا ہم نے کیا ہے، جیسے معروف وکیل انعام الرحیم سے متعلق وزارت دفاع نے تسلیم کیا کہ وہ ان کی حراست میں ہیں وہ بھی شاید اس لیے کہ وہ سابق لیفٹیننٹ کرنل ہیں اور اپنے عسکری کیریر کے دوران فوج کے قانون سے متعلق شعبہ میں کام کرتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس ادریس خٹک بھی کچھ کم معروف نہیں تھے مگر ان کے متعلق دوماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہیں کس نے اغوا کیا ہے اور وہ کہاں ہیں اور اب کس کے پاس ہیں۔

استعاروں، اشاروں یا علامتوں میں بات کہے جانے کا ایک اور واضح مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ جس ملک میں اس طرح کی صحافت سے کام لیا جا رہا ہو وہاں نہ تو سچ کہنے کی آزادی ہے اور نہ ہی آزادی اظہار۔ نیم آزاد اور نیم پابند طرز حکمرانی مبنی بر منافقت ہوا کرتی ہے۔ منافقت کسی مذہبی معانی میں نہیں بلکہ اپنے کھردرے معانی میں کہ کہنا کچھ اور کرنا کچھ۔ آج ہمارے ملک میں اس نوع کی حکمرانی عروج پر ہے۔ جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں مذہب کا استعمال کر لیا جاتا ہے اور جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں اپنے چہیتے وزراء کو بھی اس لیے فارغ کر دیا جاتا ہے کہ کسی نے سازش کی تو کوئی کسی اہم شخصیت سے ملا۔ اور تو اور خود نمائی اس قدر زیادہ ہے کہ ہاتھ کی انگلیوں میں سرخی مائل گلابی تسبیح پھنسا کے رکھی جاتی ہے۔

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد جب مجھے بطور ڈاکٹر وہاں جانا پڑا تو مجھے تعجب بھی ہوا اور مجھ پر خوف بھی طاری ہوا کہ پاسداروں کے پاس رائفل کے ساتھ ساتھ تسبیح بھی ہوا کرتی تھی مگر کچھ عرصہ گزارنے کے بعد معلوم ہوا کہ ہاتھوں میں تسبیح اسی معانی میں ہے جسے انگریزی زبان میں Worry beads کہا جاتا ہے یعنی اضطراب سے نجات کی خاطر پکڑی گئی تسبیح جس سے کھیلا جا سکتا ہو۔ میں نے بھی ایک تسبیح پکڑنا شروع کر دی تھی اور باوجود خاصے غیر مذہبی ہونے کے یہ کھیلنے والی تسبیح میری انگلیوں میں پھنستی نکلتی رہی تھی۔

بات حساس اداروں اور اہم شخصیات کی ہو رہی ہے۔ صحافت کو اسی طرح جرات مندانہ ہونا چاہیے جس طرح انقلابی سر اٹھائے مقتل کی جانب جاتا ہے یا جس طرح فائرنگ سکواڈ کی نالیاں سیدھی کی گئیں رائفلوں کے سامنے سپین کا شاعر لورکا اپنی بلند آواز میں خوف کی ہلکی سی بھی لرزش کے بغیر تب تک آمریت مخالف نظم پڑھتا رہا تھا جب تک گولیوں کی باڑھ نے اسے خاموش کرکے زمیں بوس نہیں کیا۔

لیکن ہمارے ہاں صحافی کہتے ہیں کہ بات کسی نہ کسی طرح تو لوگوں تک پہنچانی چاہیے مگر میرے خیال میں بات پہنچتی نہیں بات مشکوک ہو جاتی ہے جس پر مستند اور مشترکہ رائے نہیں بن پاتی۔ اگر ایسا کیا جانا درست ہوتا تو ہم نے دوسری زبانوں میں کی جانے والی صحافت میں حساس ادارے اور اہم شخصیت کا ذکر ضرور پڑھا ہوتا لیکن خیر ان سب ملکوں میں اب جمہوریت مستحکم ہے، وہاں چھپ چھپ کے کھیلنے جانے یا ڈر ڈر کے بولے جانے کی ضرورت ہی نہیں رہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments