ہم ایک قوم ہیں یا چوروں کا ہجوم؟


آج میں ایک مشاعرہ میں شرکت کے لیے مغلپورہ جا رہا تھا کہ مال روڈ والے انڈر پاس کے بعد لاہور کی نہر پر کچھ زیادہ ہی رش تھا۔ بہر حال میں جیسے آگے بڑھا کیا دیکھتا ہوں کہ کاروں موٹر سائیکلوں کا سیل رواں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے۔ جیسا ایک دوسرے کے اوپر سے گزر جانا چاہتا ہو۔ میرے ہم سفر کہنے لگے کہ جناب بہتری کی کوئی صورت ہو ہی نہیں سکتی۔ کیونکہ ہم ایک ایسا معاشرہ بن چکے ہیں۔ جس پر ایک بے وجہ کا جنون طاری ہے۔

ضرورت ہی نہیں ہے ہارن پر ہارن دینا ضروری ہے۔ اِسی دوران میں نے دیکھا کہ ٹریفک کی روانی میں خلل پڑنا شروع ہو گیا ہے۔ ذرا آگے گیا تو دیکھا کہ سروس لین میں سے آنے والے آگے سے مین روڈ پر داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور پہلے سے اس لائن میں موجود ان کا راستہ روک رہے ہیں۔ اس سب میں بھی آہستہ آہستہ میں بھی آگے بڑھتا رہا۔ جہاں پر سروس لائن والی ٹریفک مین راستہ پر آ رہی تھی۔ وہاں pepsi کمپنی کی سپلائی والے ٹرک نے ایک گاڑی کو ٹکر دے ماری کیونکہ ساتھ کی پوش آبادی سے نکلنے والی سڑک کے مکین بہر حال سڑک پر اپنا حق فائق سمجھتے ہیں۔

لوجی! جیسے ہی ٹکر ہوئی کار میں سے ڈرائیور صاحب باہر آئے اور ٹرک کے ڈرائیور سے الجھنے لگے۔ اسی دوران میں سامنے لڑائی جا رہی تھی۔ پیچھے سے ایک موٹر سائیکل سوار نے pepsi کا پورا ڈبہ ہی ٹرک میں سے نکال لیا اور ساتھ قہقہہ لگایا اور یہ جا وہ جا۔ اس کی دیکھا دیکھی دو اور موٹر سائیکل سواروں نے بھی ایسی ہی کارروائی کر ڈالی۔

جب تک کار والے سے بات کر کے ٹرک والا آیا۔ اس کے تین بڑے pepsi بوتلوں کے مختلف لوگ فاتحانہ قہقہوں کے ساتھ لے جا چکے تھے۔ اس دوران ٹریفک چل پڑی لیکن میں یہ سوچنے لگ پڑا کہ کیا یہ ہمارا قومی (اگر یہ ہجوم کوئی قوم ہے تو) رویہ یہ ہے کہ جیسے ہی مالک کی ذرا آنکھ ہٹی ہم نے اس کا مال لوٹ لیا ہے۔ ابھی پچھلے سال ہی پنجاب کے جنوبی اضلاع میں ایسے ہی حالات میں ایک تیل کے کنٹینر کا حادثہ ہوا تھا۔ جس میں غالباً 100 سے زیادہ لوگ جان سے گئے کیونکہ تیل کی لیکیج کے بعد مختلف لوگ تیل جمع کرنے کے عمل میں جوق در جوق مصروف تھے کہ کسی وجہ سے آگ لگ گئی۔ دنیا بھر میں انسانی رویوں پر تحقیق کرنے والے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ مسئلہ ہے کیا؟

یہ قوم باز کیوں نہیں آتی۔ تیل کے آگ سے مرنے والوں کے بعد یہ جواز بھی آیا کہ جناب جنوب میں غربت زیادہ ہے۔ اس لئے لوگوں نے یہ حرکت کی۔ چلیں درست ہے لیکن میں نے خود اپنے گاؤں آتے جاتے دیکھا کہ وسطی پنجاب کے ”امیر کبیر“ اضلاع میں گنے کی ٹرالی کے ساتھ جو حشر نشر ہوتا ہے وہ از خود ایک Case study ہے کہ چند روپے کے گنے کے لیے لوگ اپنی جان کی بازی لگاتے ہیں۔

اب شاید یہ جواز آئے کہ جی! وہ جاہل لوگ ہیں ان پڑھ تمیز و تہذیب ان کے پاس سے نہیں گزری۔ اب کیا ان کی بنیاد پر قومی رویہ کا فیصلہ ہو گا۔ یہ بھی درست اب ذرا ایک اور زاویہ سے اس سب کو دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

شہر میں بلکہ جوہر ٹاؤن میں قائم ہونے والے ایک میگا مال میں دیکھتے ہیں کہ وہاں کیا رواج ہے۔ یہاں آپ جب کسی بھی شرٹ یا پینٹ کو ٹرائی روم میں چیک کرنے جاتے ہیں تو لاشعوری طور پر ایک سیلز مین آپ پر نظر رکھتا ہے۔ بعض جگہوں پر تو کوئی تکلف نہیں صاف آپ پر نظر رکھی جا رہی ہوتی ہے کیوں؟ کیونکہ بھائی امیر لوگوں کے اس مال میں لوگ ٹرائی کے بہانے کپڑے چوری کر لیتے ہیں۔ جی ہاں مسلسل واقعات کے بعد اب یہ ناگوار حل نکالا گیا ہے۔

سمجھ سے بات بالاتر ہے کہ کیا گھر پر تمیز و تربیت نہیں ہوتی؟ کیا تعلیمی نظام میں اخلاقیات کا مضمون مس ہو گیا۔ کیا اساتذہ کی اپنی اخلاقی حالت ہی خراب ہے۔ کیا با اثر طبقات جن کی اندھی تلقین کی جاتی ہے جی ہاں! افسران بالا، بڑے مل مالکان، فیشن سٹارز وغیرہ وغیرہ کیا وہ سب کرپٹ ہیں۔ اس لئے قومی رویہ بھی کرپشن نواز ہو گیا ہے کہاں کمی ہے؟ کیا غلطی ہوئی جس کی سزا اس معاشرہ کو اس جنون کی صورت میں مل رہی ہے۔ کہ سڑک پر ٹریفک دیکھئے۔ عام ریڑھی سے فروٹ لئے یا کسی اعلیٰ افسر سے ڈیل کریں۔

معافی نام کی چیز ہے ہی نہیں، اجتماعی بھوک اور بدنیتی ہر معاملہ میں چیخ چیخ کر سامنے آتی ہے۔ عالم یہ ہے کہ دم گھٹتا ہے۔ اس سب کو دیکھ کر لیکن معاملہ ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے کیونکہ ہر کوئی یہ چاہتا ہے اور کہتا بھی ہے کہ وہ سب سے آخر میں بالکل ٹھیک ہو جائے گا جی ہاں! بالکل ٹھیک۔ بس اسی ضد سے چھٹکارا پانا ہے۔ جس دن اپنے حصہ کی شمع ہم روشن کر دیے گئے۔ اس دن سے یہ سب ٹھیک ہونا شروع ہو جائے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments