عدالت عظمیٰ کے ریڈار پر شیخ رشید


اس وقت پوری دنیا، بالخصوص غیرترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں سفر کے لیے سب سے سستا ذریعہ ٹرین سروس کوہی سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھرمیں اس پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے، لیکن پاکستان میں ریلوے کو مختلف حکومتوں کی غفلت اور ریلوے کے اعلیٰ افسران کی نا اہلی اور بد عنوانی نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ریلوے میں موجود کرپٹ عناصر فنی طریقے سے منافع بخش ٹرینوں کو خسارے میں ڈالتے ہیں، اس کے بعد انہیں بند کردیا جاتا ہے۔

ٹرینوں کو خسارے میں ڈالنے کے لیے پہلے ان کی حالت خراب کی جاتی ہے، پھر ان کی بوگیاں کم کرکے کرایوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے مسافروں کی تعداد میں کمی ہونے کے باعث خسارہ یقینی ہے۔ دراصل ریلوے میں موجود بعض عناصر ادارے کو تباہ کر کے ٹرانسپورٹ مافیا کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں، کیونکہ ہزاروں مسافروں نے سفر کے لئے انٹرسٹی ٹرانسپورٹرز سے رابطہ کرنا شروع کر دیا ہے، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹرانسپورٹرز نے کرایوں میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ٹرین کا سفر ہمارے ہاں مقبول اور سستا ترین ذریعہ ہے، لیکن اس وقت ریلوے کاپہلے جیسا فعال نظام نہیں رہا ہے۔ تقسیمِ ہند کے وقت (پاکستان ویسٹرن ریلوے کو) مجموعی طور پر مین اور برانچ لائنوں کا جو وسیع جال بچھا ہوا ملا، حالات کی ستم ظریفی کہئے کہ 72 برسوں کے دوران مزید پھیلنے کے بجائے سکڑتا چلا گیا اور آج پشاور سے کراچی اور کوئٹہ تا کراچی مین لائن کے سوا برانچ لائنوں کے بہت کم سیکشن اپنی اصل حالت میں موجود ہوں گے، بعض مقامات سے تو لو گ ریل کی پٹڑیاں تک اکھاڑ کر لے گئے ہیں۔

اس 22 کروڑ آبادی کے ملک میں حکمرانوں کی نا اہلی کے سبب عوام ریل جیسیے کم خرچ سہولت سے محروم ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کے دوران پاکستان ریلوے کی آڈٹ رپورٹ پر برہمی کا اظہارکرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ریلوے کرپٹ ترین ادارہ ہے، پورا محکمہ سیاست کا شکار ہے، مسافر اور مال گاڑیاں چل رہی ہیں نہ ریلوے اسٹیشن ٹھیک ہیں، ریل کا ہر مسافر خطرے میں سفر کررہا ہے۔

اِس موقع پر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد محکمہ کی ناقص کارکردگی کے حوالے سے کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے، بلکہ سابقہ حکومت کو ریلوے کی ناقص کارکردگی کا ذمہ دا ر ٹھہراتے رہے، حالا نکہ وزیر ریلوے شیخ رشید کا شمار عمران خان کے انتہائی قریبی افراد میں ہوتا ہے، انہوں نے ریلوے کی وزارت اپنی خواہش پر لی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے جو ریمارکس ریلوے کی ناقص کارکرد گی بارے میں دیے ہیں، ان کی روشنی میں تحریک انصاف کی پوری کابینہ کی کارکردگی کو جانچا جاسکتا ہے۔

یہ امر حکومت کے لیے باعث شرم ہے کہ عدالت عظمیٰ میں ریلوے کی جو حالت زار بیان کی گئی، وہ کسی ایک ادارے کی کہانی نہیں، بلکہ پورے ملک کا نقشہ ہے، ہر جگہ ایک افراتفری کی صورتحال ہے۔ تحریک انصاف نے کرپشن کے خلاف نعرہ لگاتے ہوئے اقتدار حاصل کیا تھا، مگر حکومت کے تقریباً ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں ناقص کا ر کردگی کے سارے ریکارڈ ٹوٹتے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف کو چاہیے تھا کہ اقتدار میں آتے ہی کرپٹ نظام کو درست کرنے کی کوشش کرتی، تاکہ کرپشن کی کوئی گنجائش باقی نہ رہتی، مگر حکومت کی جو کارکردگی سامنے آئی ہے اتنی بری تو دوران جنگ بھی کسی حکومت کی نہیں ہوتی، پشاور کا بی آر ٹی منصوبہ تحریک انصاف کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اگر حکومت نے ڈیڑھ سال گزرنے کے بعد بھی ریلوے میں کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ریلوے وزیر سے لے کرمنصوبہ بندی تک سب کے سب حکومتی کابینہ کے اراکین ہیں، اب گزشتہ حکومتوں پر الزام تراشی کرکے وقت گزار نہیں جاسکتا۔ عمران خان وزرا ء کی کار کردگی کے حوالے سے مصلحتوں کا شکار رہے ہیں، وہ ان کی طرف سے تعریفوں کے چند بول سن کر خاموش ہو جاتے ہیں، حالانکہ انہیں شیخ رشید احمد جیسے وزراء سے باز پرس کرنی چاہیے کہ انہوں نے ریلوے کی بہتری کے لئے کیا کچھ کِیا ہے۔

اگر سپریم کورٹ میں ریلوے کو بند کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں تو یہ بات شیخ رشید کے لیے نہیں وزیراعظم عمران خان کے لئے ندامت کا باعث ہے۔ شیخ رشیدسمیت سب وزراء کو سمجھ لینا چاہیے کہ گزشتہ حکومتوں پر الزام لگا کر عوام کو بے وقوف بنانے کا زمانہ گزر گیاہے۔ عوا م کو مذید دلاسوں کے لالی پاپ سے نہیں بہلایا جاسکتا، حکومتی ٹیم کو کارکردگی دکھانا ہوگی، بصورت دیگر عوام بھی حکومت کو اسی طرح آئینہ دکھائے گی جس طرح خسارہ کیس کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے شیخ رشید کو آئینہ دکھایاہے۔

بد قسمتی سے بے شرمی حکمرانوں کا وتیرہ بن گیا ہے، اپوزیشن سے لے کر میڈیا تک حکومت کو ناقص کار کردگی کا آئینہ دکھانے میں مصروف عمل ہیں، مگر حکومت بڑی ڈھٹائی سے مانے کو تیار نہیں ہے۔ عوام بھی آئے روز حکومت کی ناقص کار کردگی پر بولتے ہیں، مگرعمران خان زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھنے کے بجائے اسے رقیبوں کی سازش سمجھتے ہیں۔ وزیر اعظم حکومت مخالف مافیاز کی بات کرتے ہیں، جبکہ تمام مافیاز کا سد باب کرنا حکو مت ہی کی ذمہ داری ہے۔

حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ عوام نے زرداری اور شریف خاندان کی سیاست سے تنگ آکر تحریک انصاف کو اقتدار سونپاتھا، مگرڈیڑھ سالہ ناقص کارکردگی ثابت کر رہی ہے کہ وہ زرداری اور شریف خاندان سے بھی بدتر انتخاب ثابت ہوئے ہیں۔ اگرتحریک انصاف اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنا چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ کوئی مخالف عوامی احتجاجی تحریک منظم ہو، تو انہیں اپنی ٹیم میں تبدیلی لانا ہو گی، انتظامی کار کردگی کو بہتر بنا ہوگا، اب ذاتی اَنا اور ذاتی تعلقات پر دی جانے والی تھپکیاں کا رگر ثابت نہیں ہوں گی، اس لیے وزیر اعظم میرٹ کی زبانی کلامی دہائی دینے کی بجائے با صلا حیت وزراء کاتقر ر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

شیخ رشید، عمران خان کی طرف سے تو بے فکر ہو کر زبانی جمع خرچ سے وزارت ریلوے چلارہے تھے، لیکن اب سپریم کورٹ کے ریڈار کی زد میں آ کر انہیں کچھ نہ کچھ کر کے دکھانا پڑے گا، ریلوے کے چند ملازمین کی سبک دوشیاں اورکاغذی منصوبے ریلوے کی بدحالی کو خوشحالی میں بدل نہیں سکتے، اداروں کو فعال بنانے کے لیے بلا امتیاز باصلاحیت لوگوں کو تقرر کرنا ہو گا، اگر عمران خان نے شیخ رشید اور جہانگیر ترین جیسے افراد کوحکومتی ذمہ داریوں سے سبک دوش کر کے بنی گالہ تک ہی محدود نہ کیا تو یہ اپنے ساتھ ساتھ حکومت کے حق میں بھی بہتر نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments