کرونا وائرس اقدامات کی ضرورت!


ہمسایہ ملک چین اس وقت کرونا وائرس کے حملے کی زد میں ہے۔ چین کی ایک کروڑ کی آبادی پر مشتمل شہر ووہان اس خطرناک وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ایک ماہ کے دوران اس وائرس کے حملے سے سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ایک ہزار سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس وبائی وائرس کا شکار ہونیوالے تمام افراد میں اس وائرس کی علامات پائی گئی ہیں۔ چین میں اس وقت اس وائرس کے تدارک اور اس سے بچنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ جن علاقوں میں یہ وائرس اپنے پورے اثرات کے ساتھ حملہ آور ہوا ہے وہاں تقریبا پبلک ٹرانسپورٹ کو بند کر دیا گیا ہے اور اس سے متاثر ہونیوالے افراد کے علاج کے لئے نئے ہسپتال تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

چین کے علاؤہ دیگر بیشتر ممالک میں بھی اس وائرس کے مشتبہ کیسز سامنے آئے ہیں لیکن تشخیص کے دوران اس وائرس کی علامات کے نمونے منفی پائے گئے ہیں۔ اس وائرس کے بے قابو اثرات کے پیش نظر متعدد ممالک نے چین میں مقیم اپنے شہریوں کو واپس بلانا شروع کر دیا ہے۔  اس سے بچاؤ کے لئے احتیاطی اقدامات اٹھانا شروع کر دیے ہیں۔ چین میں اس وبائی وائرس کے پھوٹ پڑنے سے پوری دنیا چوکنا ہو گئی ہے۔ جاپان ’ہانگ کانگ‘ کینڈا ’اسپین‘ روس ’ڈچ اور برطانیہ کے علاؤہ کئی ممالک نے چین سے اپنے شہریوں کو واپس بلانے کے لئے عملی شروعات کا آغاز کر دیا ہے۔

چین کی حکومت اس وقت اس وائرس کے تدارک کے لئے حالت جنگ میں ہے۔ ووہان شہر میں ہی نہیں بلکہ پورے چین میں افراتفری کا عالم ہے۔ وہاں کے لوگوں نے اس کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ہسپتالوں کا رخ کر لیا ہے اور چین میں ایک نئی عمارت بھی زیر تعمیر ہے جہاں ایک ہزار بستر پر مشتمل ہسپتال قائم کیا جا رہا ہے۔ یہ خطرناک وائرس دوسرے علاقوں میں نہ پھیلے چین نے جہاں اپنے شہریوں کو گھروں سے نہ نکلنے کا کہا ہے وہیں دیگر شہروں سے آنے والے افراد کو بھی گھروں میں قیام کرنے کی ہدایات جاری کیں ہیں جس کی وجہ سے لوگ گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔

2011 ء میں بھی امریکہ میں کرونا وائرس حملہ آور ہوا تھا اور اس وقت اس وائرس کو ”میرس“ مڈل ایسٹ ریسپاریٹری سنڈ روم کا نام دیا گیا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے سال 2002 ء میں سارس نامی وائرس نے بھی کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ چین کے لئے یہ وائرس نئی وبائی مرض ہے اور اس سے نمٹنے کے لئے چین کے پاس کوئی دوا نہیں یہی بات چین کی انتظامیہ کے فکر میں اضافہ کا سبب بنی ہوئی ہے۔ کرونا وائرس بڑی تیزی کے ساتھ لوگوں میں سانس کے ذریعے پھیل رہا ہے اور اس وائرس کی وجہ سے بخار کے ساتھ زکام ہو جاتا ہے اور سانس لینے میں بڑی دقت ہوتی ہے اور یہ وائرس بڑی تیزی کے ساتھ ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہو رہا ہے۔

اس صورتحال میں یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ تمام تر حفاظتی و احتیاطی اقدامات کے باوجود چین اس وائرس پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دے رہا ہے اور یہی بات دیگر ممالک کے لئے پریشانی کا بھی باعث بن چکی ہے۔ اس وقت نیپال ’افغانستان‘ پاکستان ’بھوٹان‘ اروناچل پردیش ’میانمار‘ مقبوضہ جموں و کشمیر ’منگولیا‘ نارتھ کوریا ’تاجکستان‘ کرغزستان کی سرحدیں چین جیسے وسیع و عریض ملک سے منسلک ہیں 138 کروڑ کی آبادی پر مشتمل چین کا رقبہ 96 لاکھ اسکوائر کلو میٹر ہے۔ جو کہ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک میں شمار ہوتا ہے اور ایسے میں اس وبائی وائرس پر قابو پانا چین کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔

ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اپنے آپ کو اہم بنانے والے اس ملک کو انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے تاکہ کرونا وائرس سے بڑھتی اموات کے گراف کو قابو کیا جا سکے۔ چین میں پانچ ہزار 794 جو مشتبہ کیسز سامنے ٓائے ہیں وہ زیادہ تر ووہان شہرمیں ہیں چین اور ہانگ کانگ میں تیس صوبائی سطح کی ایجنسیوں نے کام کرنا شروع کر دیا ہے تاکہ اس وائرس کو ہنگامی سطح کے اقدامات کے ذریعے روکا جا سکے۔ ان حالات میں چین کی سال نو کی تقریبات بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ چین کے سرکاری حکام کے مطابق یہ کرونا وائرس بیجنگ میں تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اور اس سے متاثر ہونیوالے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ووہان شہر میں آئندہ پندرہ دن کے دوران تیرہ سو بستر پر مشتمل ہسپتال بنایا جا رہا ہے جو دس دن مین تعمیر کیے جانیوالے ایک ہزار بستر پر مشتمل ہسپتال کے علاؤہ ہے۔

چین میں جس تیزی کے ساتھ اس وائرس سے متاثرہ افراد کے لئے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مزید افراد کے متاثر ہونے کے خدشات ہیں۔ اس وائرس کی افزائش سے متعلق معلومات محدود ہونے کی وجہ سے دن بدن اس کے پھیلاؤ کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں چینی نیشنل ہیلتھ کمیشن کے نگران وزیر ماشیاؤوی نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے یہ اعتراف کیا ہے کہ طبی حکام کے پاس اس نئے وائرس سے متعلق بنیادی معلومات محدود تھی اور یہی بات اس وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ بنی کمیشن کے مطابق اس وائرس کے پھیلاؤ مین مزید اضافہ کا قوی امکان ہے۔

اس کرونا وائرس کی افزائش کی مدت ایک سے چودہ دن تک ہے اور یہ صورتحال سال 2002 ء میں پھلینے والے سارس وائرس سے مختلف ہے دنیا بھر میں اس کرونا وائرس سے متاثر ہونیوالوں کی تعداد دو ہزار سے زائد ہو چکی ہے جو کہ اس کرہ ارض پر آباد ممالک کے لئے بڑی تشویش ناک ہے۔ چین مین کرونا وائرس کے انسانی حملے کے بعد دنیا بھر میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہو چکی ہے پاکستان سمیت دنیا کے ممالک کو اس وبائی وائرس سے نمٹنے کے لئے چین کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے دنیا کو اس وبائی وائرس سے محفوظ بنانے کے ضروری اقدامات اٹھانے چاہیے۔

دو بیماریاں جو پچھلی دو دہائیوں میں دنیا کے لئے تشویش کا باعث بنی رہی اب کرونا وائرس نے پوری دنیا کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔ صرف ایک وائرس کو روکنے کے لئے چین اتنے سخت اقدامات اٹھا رہا ہے کہ اس ملک میں ٹرینوں ’سڑکوں اور پروازوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ جیسے جیسے پاکستان میں آبادی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے ویسے ہی نظام صحت کی سہولیات ہمارے لئے ناگزیر ہوتی جا رہی ہیں۔ کرونا وائرس نے جہاں دنیا کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے ایسے ہی پاکستان جیسے ملک کے لئے جہاں صحت کی سہولیات ناکافی سمجھی جاتی ہیں۔ یہ وائرس بہت بڑے خطرے کی گھنٹی ہے پاکستان میں اس وائرس کی تشخیص کے لئے کوئی سہولت موجود نہیں ہے جو کہ بہت پریشان کن بات ہے۔

اس صورتحال میں حکومت پاکستان کو چاہیے کہ دنیا پر منڈلاتے اس خطرے سے نمٹنے کے لئے خود کو تیار رکھے اور عوام کو اس وائرس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر کی طرف راغب کرنے کے لئے ضلعی سطح پر سیمینارز کا اہتمام کرے تاکہ لوگ اس جان لیوا وائرس سے نمٹنے کے لئے احتیاطی تدابیر اپنا سکیں اس کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات اٹھائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments