اعداد و شمار کا گورکھ دھندا اور ہمارا کپتان خان


پاکستان میں ڈالر کے ذخائر کیسے بڑھ رہے ہیں۔ یہ معجزہ کیسے ہو رہا ہے۔ کیونکہ ہمارے معاشی و اقتصادی حالات جوں کے توں ہیں۔ دوسرا بڑا ذریعہ خاص طور پر مشرقی وسطی میں اپنا خون پسینہ ایک کرنے والے بے نوا لاکھوں پاکستانی مزدور ہیں۔ ان کے ترسیل زر میں بھی کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔

ہماری برآمدات میں اضافے کی بجائے کمی ہو رہی ہے۔ البتہ لگژری اشیائے صرف کی درآمد میں بظاہر خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے تجارتی خسارے میں 73 % کمی دکھائی دیتی ہے۔ جو تاریخی ریکارڈ ہے۔ لیکن یہ سب ہاتھی کے دانت ہیں۔ کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔

معاشیات میں یہ کالم نگار ہمیشہ نالائق طالب علم رہا ہے۔ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا آج تک سمجھ نہیں آتا لیکن راولپنڈی میں اشیائے تعیش (Luxury Items) کے تھوک کے تاجر ہمارے پیارے ببلی شیخ نے یہ لاینحل بجھارت لمحوں میں حل کردی۔

ببلی شیخ بتاتے ہیں کہ تجارتی خسارہ اسی طرح قائم دائم ہے۔ یہ سب نظر کا دھوکہ ہے۔ اعداد و شمار کی جادوگری ہے۔ معاشی مسمریزم کا کمال ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ قانونی طور پر لگژری درآمدات بند ہوچکی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ، راہداری کی تجارت کر نے والے ہمارے افغان بھائیوں کے فون آنے لگے اور مال کی سپلائی شروع ہوگئی۔ اب کسٹم اہلکاروں نے ہمارے گوداموں پر چھاپے مارنے شروع کردیے ہیں۔ رشوت کے ریٹ بڑھ گئے ہیں۔ چند دن میں یہ جوش و خروش مدہم پڑ جائے گا اور زندگی معمول پر آجائے گی لیکن پاکستان قانونی درآمدات سے ملنے والے کروڑوں کے ٹیکسوں اور محصولات سے محروم ہو چکا ہے۔

رہے لگژری سامان کے خریدار تو انہیں ہر قیمت پر اپنی پسندیدہ اشیا ملنی چاہئیں مہنگائی ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ ببلی شیخ نے انکشاف کیا ہے۔ یہاں بہت سے ایسے پاکستانی رئیس زادے بھی ہیں جو صرف فرانس کا پانی پیتے ہیں۔ انہیں پاکستانی پانی کا ذائقہ تک معلوم نہیں ہے۔

دوسری پہیلی یہ کہ حالات جوں کے توں ہیں اور ڈالر کے ذخائر کیسے بڑھ رہے ہیں۔ تو اس کے لئے شاطر اور مکار سرمایہ کاروں نے بڑا آسان فارمولا بنایا ہے۔ امریکہ میں اس وقت قرض پر شرح سود دو سے تین فیصد سالانہ ہے۔ جبکہ پاکستان میں باہر سے ڈالر لا کر جمع کرانے پر شرح سود ساڑھے 13 فیصد سالانہ ہے۔ اب بدمعاش معاشی کھلاڑی غارت گر امریکی بنکوں سے قرض لے کر پاکستان کے بنکوں میں ڈال رہے ہیں اور اپنا 10 فیصد خالص منافع واپس لے جارہے ہیں اور کپتان خوش ہیں کہ ان کی اپیل پر دھڑا دھڑ ڈالر باہر پاکستان آرہے ہیں اور قوم نے پیٹ پر پتھر باندھ کر لگژری اشیا کا استعمال بند کردیا ہے۔

یہ کام ضیا دور میں مقامی سطح پر بھی ہوا تھا۔ جب بنکوں سے بہت کم شرح سود قرض لے کر قومی بچت کی طویل المدتی سکیموں میں لگا کر گھر بیٹھے لمبی کمائیاں کی گئیں تھیں بے رحم قصائیوں کی طرح قوم کی کھال ادھیڑ ی گئی تھی یہ شارٹ کٹ ان دنوں ککی بینڈا سرمایہ کاری کے نام سے مشہور ہوا تھا۔

ویسے بھی سرمایہ کاری کی عالمی منڈی میں floating money کا اربوں ڈالر زیادہ شرح سود کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے۔ جس کی راہ واحد رکاوٹ رسک فیکٹر ہوتا ہے۔ لاہور چیمبر آف کامرس کے سابق صدرممتاز صنعت کار اور کاروباری علوم کے نامور استاد، عالمی شہرت یافتہ درس گاہ ہاورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل جناب الماس حیدر مختلف اداروں میں کاروباری علوم پڑھاتے ہیں، (LUMS) یونیورسٹی کے داؤد بزنس سکول میں اس کالم نگار کو بھی ان کی شاگردی کا شرف حاصل رہا ہے۔

الماس حیدر بڑے عام فہم انداز میں بتا تے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے خطرات اور اس کے عوامل (Risk factor ) کا تجزیہ کرکے شرح سود کا فیصلہ کرتے ہیں۔ جن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک وہ ادارہ جس کے لیے قرض مانگا جارہا ہے اور دوسرے وہ ملک جہاں پر یہ کاروبار ہو رہا ہے، اگر کوئی چینی صنعت کار قرض کا خواہاں ہو گا تو اسے صرف 3 فیصد شرح سود دینا ہو گی لیکن اگر کوئی پاکستانی قرض چاہے گا تو 3 فیصد کے ساتھ پاکستان کے حالات کی وجہ سے 5 فیصد ( Risk factor) کے اضافی ادا کرنا ہوں گے

جناب الماس حیدر اقتصادی و معاشی اصلاح احوال کے لئے بنائی جانے والی وزیراعظمْ عمران خان کی کاروباری کمیٹی کے رکن یا سربراہ بھی ہیں۔ لیکن منہ زور افسر شاہی کان بند کر چکی ہے اور کپتان خان کی آنکھوں پر پردہ ڈال چکی ہے۔

ہماری معیشت بھی غالب کی قرض کی مے کی طرح ہے، زمانے پر نظررکھنے والے منفرد شاعر نے قرض پر چلنے والی اس معیشت کو اپنی فاقہ مستی اور پھر اس کے رنگ لانے کی پھبتی کس کر خوب نمایاں کیاتھا۔ پاکستان میں حکومت منتخب ہو یا غیر منتخب معیشت ٹھیک کرنے کا فارمولا ایک ہے اور ایک ہی جگہ سے آتا ہے۔ حکومت ’مسلم‘ کی ہو یا پھر ’پیپلز‘ کی یا ’انصاف کی تحریک‘ ہو یا کہ کسی اور حروف تہجی سے جڑے حکومتی انتظام کی، ’عطار کا لونڈا‘ مزے میں ہی رہتا ہے۔ اس کی ’ہٹی‘ چمکتی جاتی ہے۔ قرض پر چلنے والا نظام بدلتا ہے۔ نہ عوام کا مقدر، ان کی روٹی ’حیاتی‘ کی طرح ہر آن ’بہت دبلی، بہت پتلی‘ ہوتی جارہی ہے۔ حکومتیں بدلیں لیکن معیشت کی تاریخ وہی ہے، پھر سے خود کو دہرارہی ہے۔

ادھار ڈالر لے کر پاکستان میں رکھنے سے معیشت تو ٹھیک نہیں ہوسکتی البتہ امریکہ اور دیگر ممالک سے غیروں کے ڈالر پاکستان میں رکھ کر اس پر سود کھانے والوں کی ’چاندی‘ ضرور ہوگئی ہے۔ معاشی ماہرین ڈالروں کی اس ’ادھارآمدنی‘ کو مذاق قرار دیتے ہیں اور ان کی سوچی سمجھی رائے میں کتے اور بلیوں کے کھانے اور شیمپو درآمد کرنے والے ملک میں غریبوں کی روٹی روزی ناپید ہونا خطرے کی سنگین گھنٹی ہے۔ اس ’ٹن ٹن‘ کرتے گھنٹے سے آنکھ اب بھی نہ کھلی تو ’غدر‘ ہمارا دروازہ دیکھ لے گا۔

2008 سے اب تک تینوں منتخب حکومتوں کو عالمی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف کی چوکھٹ چومنا پڑی۔ ڈر تھا کہ معیشت کو دھڑن تختہ نہ ہوجائے۔ آئی ایم ایف کی ایک طرح کی شرائط پر تینوں حکومت کو معاشی منصوبہ ایک جیسے نین نقش والا تھا۔ مشرف حکومت نے ’یک نہ شد، دو شد‘ والا کام کیا، دو پروگرام حاصل کیے۔ پہلے معاہدے پر جون 2000 میں دستخط ہوئے جبکہ دوسرا غربت کے خاتمے اور شرح ترقی کی سہولت کے نام پر لیاگیا جس پر 2004 ءمیں دستخط ہوئے۔

غربت میں کمی اور ترقی کی رفتار بڑھانے کے لئے تین سالہ قرض میں تخمینہ تھا کہ سرمائے کا بہاؤ 2.7 ارب ڈالر ہوگا۔ اُن دس سال میں یہ بہت بڑا ریلیف مل گیا کیونکہ قرض کی واپسی کے لئے دباؤ اتر گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور فائدہ پیرس کلب کے غیرمعمولی فیصلے سے مل گیا۔ ’سٹاک ری پروفائلنگ‘ کے عنوان سے اڑتیس سال کے لئے بارہ ارب ڈالر کا قرض اسی سال عطا ہوا جس کی قرض کی قسط کی ادائیگی کا آغاز پندرہ سال بعد ہونا تھا۔ 30 قرض کی معافی، کینیڈا، برطانیہ، اٹلی اور جرمنی سے قرض مبادلہ بھی اس غیرمعمولی پیکج کا حصہ تھا۔ یہ حکومت کے معاشی ایجنڈے میں ایک بڑا سنگ میل تھا۔

اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے پیرس کلب کے اس معرکہ پر اس وقت بعض بڑے بڑے دعوے کیے تھے۔ جن میں ایک یہ تھا کہ ”آج کے معاہدے سے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے بیرون قرض کے مسئلے سے نکلنے کی ٹھوس راہ ہمیں مل گئی ہے۔ “ اس وقت جتنا سرمایہ دستیاب تھا۔ اس میں اتنی گنجائش میسرآگئی تھی کہ غربت کے خاتمے اور سماجی شعبے کی بہتری کے لئے زیادہ وسائل مہیا ہو سکیں۔

بینکر سے وزیرخزانہ بننے والے شوکت عزیز نے قوم کو خرچ پر لگادیا جس سے تیل کا درآمدی خرچ کئی گنا بڑھ گیا اور ہمیں سعودی عرب اور ادائیگیوں کی دیگر سہولتوں سے اس سے نمٹنا پڑا۔ غیرملکی براہ راست سرمایہ کاری کے ذریعے ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے نبردآزما ہوا گیا۔ اس مقصد کے لئے سرکاری شعبے میں ٹیلی کام، بجلی، توانائی، بینک کے اثاثے نجکاری کے نام پر فروخت کردیے گئے۔ ظاہر ہے کہ سرکاری اثاثوں کی فروخت کی بھی ایک حد ہے۔ جو جلد ہی ختم ہوجاتی ہے۔

موجودہ مالیاتی منتظمین پھر چاہتے ہیں کہ قومی معیشت کی بحالی کے لئے تین سال کا ویسا ہی پروگرام اور انتظام طے پائے جو پہلے ہمیں ملا تھا۔ تاکہ معیشت جس گہری کھائی میں جاگری ہے، اس کی واپسی کا سامان ہوسکے۔ تجزیہ کاروں کے خیال میں ہماری معیشت جس ابتری کا شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں ٹیکنالوجی کے استعمال میں ہماری کمزوری کے علاوہ تربیت یافتہ افراد کی قلت اور روایتی صنعتوں سمیت ہمارے ہاں مسابقت یا مقابلے کا رجحان نہ ہونا ہے۔ ان امور کو درست راہ پر لانے کے لئے طویل المدتی حکومتی عرق ریزی درکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بہترین خطوط پر تیار ہونے والی صنعتی پالیسی چاہیے۔ فری مارکیٹ اکانومی پر یقین رکھنے والے نئے ابھرتے سرکاری شعبہ جات میں سرمایہ کاری کے حامی نہی جس سے نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہے۔

1970 ءمیں جدید ہیوی انڈسٹری کے قیام کی حکمت عملی سے ہماری راہ فرار نے پیداواری ڈھانچے کی معمولی معیار کی اشیاءکے بجائے اعلی معیار کی اشیاءبنانے کی اہلیت کو ہی مجروح کرکے رکھ دیا ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی 35 فیصد کمی جس آس امید پر کی گئی تھی، وہ آکاس بیل ثابت ہوئی۔ الٹا ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی جیسے ماہرمعاشیات اور استاد نے تو اس حد تک سخت تبصرہ بھی کر دیا کہ ”وزیراعظم جس چیز پر شیخی بگھاررہے ہیں، انہیں اس کا کوئی اندازہ ہی نہیں۔ “ بیروزگاری اور عوامی تکالیف۔

سوال یہ ہے کہ جب برآمدات نہیں ہورہیں جس کے پرکشش سنہری خیال میں روپے کو ڈالر کے مقابلے میں ’خوار‘ کردیاگیا اور ڈالر جس کھونٹے سے بندھا تھا، اسے بدمست ہاتھی کی طرح کھول دیاگیا۔ جب برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا تو پھر ڈالر کہاں سے آرہا ہے؟ یہ ہے کہ وہ سوال جو معاشی ماہرین کررہے ہیں۔ یہ ڈالر ادھار کے ہیں۔ امریکہ سے اٹھائے اور پاکستان میں چونکہ شرح سود اس وقت 13.25 فیصد کی انتہائی بلند سطح پرہے، یہاں لاکر بنک میں جمع کرادیے۔ اس سرمائے پر جو منافع ہوگا، وہ پاکستان سے باہر چلاجائے گا توپھر اس سارے کھیل میں پاکستان کا کیا ملے گا؟ یہ ہے۔ اصل سوال۔

ماہرین سوال اٹھارہے ہیں کہ پاکستان کو فائدہ تب ہے جب باہر سے آنے والے سرمائے سے پاکستان کے معاشی اثاثوں میں اضافہ ہوا، کارخانہ، پاور سٹیشن، نہریں، ڈیم یا اس نوعیت کے منصوبے لگیں، فیکڑیاں یا صنعتیں قائم ہوں۔ 2003 تک ہم سو ڈالر کی برآمد پر تقریبا 125 ڈالر کی درآمد کرتے تھے۔ یہ 25 فیصد خسارہ تھا۔ جسے قرض اور بیرون ملک سے پاکستانی جو پیسہ بھجواتے ہیں، اس کے ذریعے سے پورا کرکے کام چلالیاجاتا تھا۔ اب ہر سو ڈالر کی برآمد پر 230 ڈالر کی درآمد ہے۔ وہ خسارہ جو پہلے اس عمل میں 25 فیصد تھا۔ وہ اب بڑھ کر 125 اور 130 ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ جسے قرض یا بیرونی ملک سے آنے والے محاصل کی صورت میں پورا کرنا ممکن ہے۔ لہذا مجبوراً مزید قرض لینا پڑے گا۔

سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کے مطابق ”موجودہ حکومت کی پالیسیوں کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر بس ٹھیک نظرآئیں باقی معیشت جائے بھاڑ میں۔ “ آئی ایم ایف پروگرام کی جزئیات کسی اور نے طے کیں اور اس پر دستخط کسی اور نے کیے۔ شبررضازیدی اس وقت موجود نہیں تھے۔ اتنے دقت طلب اور نازک ٹیکس معاملات آئی ایم ایف کے ساتھ کس نے طے کیے؟ اتنا مشکل آئی ایم ایف پروگرام طے کرلیاگیا جس کے مضمرات اب تک سمجھ میں نہیں آرہے۔ یہاں تک کہاں جارہا ہے کہ یہ آئی ایم ایف پروگرام آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔ یہ سال 2.4 اور اگلے سال 3 فیصد شرح ترقی ہوگی، اس حقیقت پر آئی ایم ایف پروگرام میں ہم نے دستخط کیے ہوئے ہیں۔

مطالبہ ہورہا ہے کہ ڈیوٹی بڑھانے سے کام نہیں چلے گا، ہر طرح کا کھانا پینا بیرون ملک سے منگوانے پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ نیوزی لینڈ سے سیب، سویٹزرلینڈ سے چاکلیٹ منگوانے کی ضرورت نہیں۔ 17 فیصد جی ایس ٹی ہوگا تو صنعت فیکڑی نہیں چل سکتی۔ اسے کم کرکے پانچ فیصد پر لایاجائے تاکہ صنعت، فیکٹریاں چلیں۔ نئے کارخانے لگیں۔ روزگار پیدا ہو اور کاروبار چلے۔ اس عمل کے نتیجے میں ریونیو کم ہوگا جسے پوراکرنے کے لئے غیرترقیاتی اخراجات کم کرنا ہوں گے۔

بھینس بیچنے کی حماقت سے اخراجات کم نہیں ہوں گے بلکہ ٹھوس اقدامات کرناہوں گے۔ مثال دی جارہی ہے کہ وزارتوں کے 42 ڈویژن ہیں۔ جن میں قومی ہم آہنگی کا ڈویژن، نیشنل ریگولیشن، قومی ورثہ کا ڈویژن ہے۔ جس کا کوئی کام نہیں۔ پوسٹ آفس مواصلات کا حصہ تھا۔ الگ وزارت ہے۔ ماضی میں اس کا ایک ڈی جی اور ایک ایڈیشنل ڈی جی ہوتا تھا۔ اب ایک ڈی جی اور نو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ تو ان کو ختم کرنا ہوگا۔

ساتھ ساتھ ہی اب بات ہورہی ہے کہ پاکستان کی معیشت بیٹھ چکی ہے۔ اس لئے اب دفاعی اخراجات میں بھی کمی کرنا ہوگا۔ دفاع کے ان اخراجات کو کم کرنا ہوگا جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔

کہتے ہیں کہ جس دن ہمیں قرض ملنا بند ہوگیا تو ہماری معیشت اسی دن دیوالیہ ہوجائے گی۔ معیشت ٹھیک کرنے کے لئے سخت فیصلے اب بھی نہ کیے گئے تو یہ جرم ہوگا۔ ہر حکومت اور نظام قوم سے وعدہ کرکے آتا ہے اور پھر اقتدار میں آخر وہی معاشی پالیسی اور طریقہ اختیار کرلیتا ہے۔ جس کے خلاف تقریریں کرکے ووٹ لئے تھے۔ تاریخ خود کو دہرارہی ہے۔ لیکن تبدیل کچھ نہیں ہورہا۔ آمدن بڑھ نہیں رہی، صرف قرض بڑھ رہا ہے۔ قوم کی روٹی پتلی اور پتلی ہوتی جارہی ہے۔

حرف آخر یہ کہ ماہر معاشیات اور ساتھی کالم نگار وقار مسعود خان، قیصر بنگالی، ڈاکٹر شاید حسن صدیقی، انتظامی امور کے ماہر موسی رضا آفندی، پاکستان کے واحد زرعی فلاسفر اور دیہی ترقی کے بزرگ ماہر انور عزیز چودھری، رموز آشنا نوکر شاہی اور قطعی غیر جانبدار ارشاد کلیمی ابلاغیاتی امور کے ماہر دلیر اور شاہ زور سابق وفاقی سکریڑی اطلاعات و چیرمین پیمرا رشید چودھری کراچی کو الطاف حسین کے درندوں کو جبڑوں چھین لینے والے ڈاکٹر شعیب سڈل اور پاکستان کو مواصلاتی انقلاب سے روشناس کرانے والے میاں جاوید جو تین اداروں پی ٹی سی ایل، پی ٹی اے اور پیمرا کے بانی سربراہ رہے قوم کے ان قابل فخر فرزندوں سے وزیر اعظم عمران خان مسلسل مشاورت کریں کور گروپ بنائیں ایک پیسہ خرچ کیے بغیر ان کامیاب بزرگوں گر سیکھیں اور قوم کی ڈگمکاتی نیا کو پار اتار دیں۔

جہاں مظہر برلاس جیسا ’جانثار‘ ادھر ادھر سر چھپا رہا ہو، قطرینہ حسین 10 لاکھ ماہانہ پر کچھ نہ کرنے کے لئے پی ٹی وی میں تین سال کے لئے بھرتی کرلی جاتی ہے اور وزیراعظم پیسہ پیسہ بچاتا پھر رہا ہے۔ بچت کی مہم کا عالم یہ ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے کوارٹر میں غیر پیداواری اخراجات میں سرکاری اے پی پی کے مطابق 12 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments