ناکام سیاسی تجربے کو کیسے درست کیا جائے؟


ملک میں اس بارے میں بمشکل دو رائے پائی جاتی ہیں کہ عمران خان کو وزیر اعظم بنوا کر ملکی سیاست میں ڈرامائی اور خوشگوار تبدیلی لانے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ یہ خواہش دو سطح پر ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔ ایک تو جن لوگوں نے عمران خان کو سیاسی مسیحا سمجھ کر یہ خواب دیکھا تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی ملک کی تقدیر بدل دیں گے، وہ اب اپنے اس اندازے پر پشیمان ہیں۔ تاہم سب سے بڑی پریشانی ملک کی اسٹبلشمنٹ کو لاحق ہوئی ہے جو عمران خان کی صورت میں ایک مضبوط اور دیانت دار لیڈر سامنے لانے میں معاون ہوئی تھی۔ یہ سوچ لیا گیا تھا کہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں بدعنوان لوگوں کا مسکن بن چکی ہیں۔ ان کی لیڈر شپ اقتدار کی باریاں لینا چاہتی ہے اور انہیں ملکی مسائل اور ترقی و استحکام سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اس سوچ نے کسی تیسری سیاسی قوت کو اقتدار تک پہنچنے میں مدد کا راستہ ہموار کیا۔

مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی گزشتہ دہائی میں ایک ایک مدت تک حکومت کرتی رہی تھیں۔ ان دونوں ادوار میں اسٹبلشمنٹ ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھی۔ اس کے علاوہ ذاتی بنیادوں پر بھی اختلاف اور تصادم کی کیفیت دیکھنے میں آئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے دور میں میمو گیٹ اسکینڈل اور نواز شریف کے دور میں ڈان لیکس اس اختلاف کی نمایاں مثالیں ہیں۔ پیپلز پارٹی تو کبھی اسٹبلشمنٹ کے قریب نہیں رہی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جنرل ضیا کی بغاوت کے بعد سے اس پارٹی کو کبھی بھی مقتدر حلقوں کی مکمل تائید حاصل نہیں رہی تھی لیکن اس کے باوجود 2007 کی عدلیہ بحالی تحریک کی وجہ سے شکست خوردہ پرویز مشرف کو اپنا اقتدار بچانے کے لئے بے نظیر بھٹو کے ساتھ سیاسی معاہدہ کرنا پڑا جس کے نتیجے میں این آار او بھی جاری کیا گیا جو بعد میں سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا۔ اس کے علاوہ آصف علی زرداری نے 2008 میں اقتدار کے دوران اسٹبلشمنٹ سے ہر ممکن تعاون کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن اٹھارویں ترمیم کے تحت پارلیمنٹ کو بااختیار کرنے اور صوبوں کو مالی خودمختاری دینے کی وجہ سے آصف زرادری کی مفاہمانہ اور ٹکراؤ سے بچنے کی پالیسی کے باوجود، ان کے بارے میں اچھی رائے قائم نہیں ہوئی۔

اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد جون 2015 میں پشاور کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر نے فوج کو براہ راست مخاطب کیا اور کہا کہ ’آپ نے ایک خاص مدت کے بعد چلے جانا ہوتا ہے لیکن ہم نے یہیں رہنا ہے‘۔ یہ تقریر بظاہر سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف رینجرز کے اقدامات کے پس منظر میں کی گئی تھی لیکن اس کی وجہ سے فوج کے ساتھ پیپلز پارٹی اور خاص طور سے آصف زرادری کی دوری اس قدر بڑھ گئی کہ انہیں ملک سے باہر جانا پڑا اور نومبر 2016 میں جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی وہ ملک واپس آسکے تھے۔ اس تقریر کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اختلاف اور بداعتمادی کے ایک نئے دور کا آغاز بھی ہؤا تھا۔ کیوں کہ اس وقت وزارت عظمی پر فائز نواز شریف نے اس تقریر کے بعد فوج کو مطمئن رکھنے کے لئے آصف زرداری کے ساتھ طے شدہ ملاقات منسوخ کردی تھی۔

اس کے برعکس مسلم لیگ (ن) کو اگرچہ نوے کی دہائی میں اسٹبلشمنٹ نے ہی مستحکم کیا تھا لیکن ہر بار اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف کا فوج کے سربراہ سے اختیارات کی تقسیم کے سوال پر جھگڑا رہا۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) اور اسٹبلشمنٹ میں دوریاں بڑھتی رہیں۔ ڈان لیکس کے معاملہ پر فوج نے نواز شریف کی حکومت کو بے بس کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور نواز شریف نے راحیل شریف کی شدید خواہش اور کوشش کے باوجود انہیں توسیع نہ دے کر اس کا ’انتقام ‘ لینے اور وزیر اعظم کے طور پر اپنا اختیار ثابت کرنے کی اپنی سی کوشش کی۔ اسی چپقلش کا نتیجہ تھا کہ پہلے 2014 کے دھرنوں کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو دباؤ میں لایا گیا اور جب پانامہ پیپرز کے انکشافات سامنے آئے تو اس کی بنیاد پر بالآخر نواز شریف کو نااہل قرار دے کر اقتدار سے علیحدہ کیا گیا۔ اس کے جواب میں نواز شریف جی ٹی روڈ شو اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کے ذریعے عوامی لیڈر بننے اور سیاسی معاملات پر اسٹبلشمنٹ کی دسترس ختم کرنے کی مہم شروع کی۔ البتہ مسلم لیگ (ن) 2018 کا انتخاب نہ جیت سکی اور عمران خان کی صورت میں ملکی بہتری اور سول فوجی تعلقات میں ہم آہنگی کی ساری امیدیں تحریک انصاف کی حکومت سے وابستہ کر لی گئیں۔

عمران خان اور تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے بعد عسکری اداروں کے ساتھ ’ایک پیج‘ پر ہونے کا نعرہ بلند کیا اور سخت احتساب کی بنیاد پر کرپشن ختم کرنے اور مدینہ ریاست کے ماڈل پر استوار ’نیا پاکستان‘ تعمیر کرنے کا وعدہ کیا۔ اگرچہ شروع سے ہی یہ واضح ہوگیا تھا کہ عمران خان نے دو دہائی تک سیاسی جد و جہد ضرور کی تھی لیکن وہ کوئی ایسی ٹیم تیار نہ کر سکے جس کے پاس پاکستان کو درپیش مسائل حل کرنے اور حکومت کو کامیاب بنانے کی صلاحیت ہوتی۔ اس ناکامی کی دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کے لالچ میں عمران خان اپنے ان پرانے ساتھیوں سے سے محروم ہوگئے تھے جو معاشرے کی سیاسی بدعنوانی اور سیاست پر اسٹبلشمنٹ کے تسلط کے خلاف جد و جہد میں ان کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔

اقتدار تک پہنچنے کے لئے عمران خان کو صرف فوج کے سامنے زانوئے ادب ہی طے نہیں کرنا پڑا بلکہ ان گھسے پٹے مہروں کو بھی ساتھ ملانا پڑا جنہیں عرف عام میں الیکٹ ایبلز کہا جاتا ہے اور ہر منتخب حکومت کے ساتھ مل کر بظاہر اسے اقتدار میں لانے کا سبب بنتے ہیں لیکن دراصل اس کی کارکردگی میں مشکلات پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔ ان کا قومی مسائل یا حکومت کی پالیسیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے ذاتی یا علاقائی مفادات کے لئے کام کرتے ہوئے ہر حکومت کو مفاہمت و مصالحت پر مجبور کردیتے ہیں۔

اقتدار میں تحریک انصاف کا پہلا سال نعرے لگانے، اپوزیشن لیڈروں کو جیل بھیجنے اور مدینہ ریاست قائم کرنے کے وعدوں اور اس جذباتی کیفیت میں گزر گیا کہ ایک نیا اور دیانت دار لیڈر معاملات کا ذمہ دار ہے اور فوج کو اس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس لئے یہ امید کی جا رہی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت لازمی کارکردگی دکھانے اور عوام کی توقعات پوری کرنے میں کامیاب ہوگی۔ جوں جوں اقتدار میں عمران خان کا وقت گزر رہا ہے، یہ امیدیں باطل ہوتی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ یکے بعد دیگرے بعض ایسے معاملات بھی رونما ہوئے ہیں کہ فوج بھی اپنے چنیدہ وزیر اعظم سے مکمل طور سے مطمئن دکھائی نہیں دیتی۔ یہ حکومت ملک کو کوئی ٹھوس معاشی پالیسی دینے، عام لوگوں کو مطمئن رکھنے، مہنگائی پا قابو پانے اور سیاسی مفاہمت کا ماحول پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ عمران خان اپنے جارحانہ طریقہ کو تبدیل کرنے کے لئے کوئی بھی اشارہ سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ عمران خان کی سرکردگی میں حکومت کسی بھی شعبہ میں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی۔ انہوں نے پنجاب جیسے اہم صوبے میں ایک کمزور اور ناتجربہ کار عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ بنا کر نظم و نسق کے حوالے سے مشکلات میں اضافہ کیا اور اب یہ صورت حال ہو چکی ہے کہ عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ پر قائم رکھنا عمران خان کے اپنے اقتدار کے لئے ضروری ہو چکا ہے۔ تاہم اس طرح حلیف جماعتیں، پارٹی کے ارکان اور مقتدر حلقے یکساں طور سے پریشانی اور بے چینی کا اظہارکررہے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں بھی صورت حال اتنی ہی خراب ہے لیکن وہاں تحریک انصاف کی سیاسی پوزیشن مستحکم ہے لہذا تین وزرا کو برطرف کر کے بظاہر پنجاب کے ناراض عناصر کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر عمران خان کے خلاف جانے کی کوشش کی گئی تو ان کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ عمران خان البتہ یہ بات سمجھنے سے بدستور قاصر ہیں کہ سیاسی طاقت بنائے رکھنے کے لئے خود کو بہتر سیاست دان اور اعلیٰ پائے کا منتظم ثابت کرنا پڑتا ہے۔ عمران خان ان دونوں صلاحیتوں سے محروم ہیں۔

اسی پس منظر میں کبھی پنجاب میں بغاوت یا تبدیلی کی باتیں کی جاتی ہیں اور کبھی قومی حکومت بنانے کی خبر گرم ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اپنے طور پر اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کشیدہ تعلقات کو بہتر کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ نواز شریف کی جیل سے بیرون ملک روانگی اسی مفاہمت کا شاخسانہ سمجھی جا رہی ہے۔ عمران خان اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے مفاہمت اور سیاسی تدبر کی بجائے دھمکیوں سے کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اپوزیشن لیڈروں کو مقدمات میں پھنسانے کے علاوہ میڈیا کو کنٹرول کرنا اس وقت حکومت کے محبوب ہتھکنڈے ہیں۔ یا اسمبلیاں توڑنے کی دھمکیاں سامنے لائی جا رہی ہیں۔ حالانکہ اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ عمران خان سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ نئے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔

اس سیاسی ماحول میں ہر سطح پر عدم اعتماد اور رابطہ کی کمی محسوس کی جاسکتی ہے۔ اپوزیشن کو حکومت اور حکومت کو اپوزیشن پر اعتبار نہیں ہے۔ حکومتی جماعت اور حلیف جماعتوں میں بے چینی کئی سطح پر سامنے آچکی ہے۔ یہ خبریں تواتر سے سامنے آرہی ہیں کہ عسکری حلقے کسی متبادل پر غور کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ تحریک انصاف کی ناکامی سے ملکی معیشت اور نظام کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے متعدد سیاسی حلقے بھی یہی امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں کردار ادا کرے گی۔

اس قسم کا کوئی اقدام دو لحاظ سے ناقابل قبول اور ناقابل عمل ہونا چاہئے۔ ایک تو ملکی اسٹبلشمنٹ کو کسی قیمت پر سیاسی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ دوسرے کسی بھی سیاسی پارٹی کے پاس کوئی ایسا پروگرام نہیں جو ملک اور اس کے عوام کو درپیش مسائل حل کر سکے۔

اس کی وجہ بھی سادہ اور آسان ہے۔ سیاسی جماعتیں صرف اقتدار کے لئے گٹھ جوڑ کو سیاست کہتی ہیں۔ اس طریقہ کار میں ملک و عوام کو درپیش مسائل کا کوئی حال موجود نہیں ہوتا۔ حکمران جماعت سمیت کوئی بھی سیاسی پارٹی ملکی مسائل کو سمجھنے اور ان کی حقیقت سے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے تیار نہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اس رویہ کی وجہ سے ہی معاملات میں اسٹبلشمنٹ کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوتا ہے اور اہم امور میں بیورو کریسی فیصلہ کن حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔

 اس پس منظر میں کسی بھی طریقہ سے موجودہ حکومت کی تبدیلی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ نام نہاد جمہوری طریقہ سے ان ہاؤس تبدیلی یا اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات موجودہ تعطل کو ختم نہیں کرسکتے۔ اس لئے تمام تر ناکامیوں کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کو کام کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ عمران خان اگر سیاسی شعبدہ بازی کی بجائے حکومتی امور پر توجہ دینے اور سیاسی تصادم سے گریز کرنے کا اہتمام کرسکیں تو شاید حالات میں بہتری کا امکان بھی پیدا ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments