جعلی شعور اور دولے شاہ کے چوہے


زندہ دلان اسلو۔ ارے حیران مت ہوں زندہ دلان لاہور ہی مشہور ہوا کرتا تھا لیکن موسمیاتی، ماحولیاتی اور سیاسی تبدیلیوں کی اس فضا میں بہت کچھ جڑوں سے اکھڑ چکا ہے۔ جی تو بات زندہ دلان اسلو (اسلام آباد) والوں کی ہو رہی تھی کہ حالات جیسے بھی ہوں بس بارش اور پہاڑوں پر منڈلاتے بادل ان کے ہر غم کو غلط کرنے کے لیے کافی ہیں۔

ایسی ہی ایک دلفریب شام تھی جب تندوری چائے کے چکر میں ڈھابے کی کرسی پر براجمان منہ سے دھواں نکالتے کھلے آسمان میں ذرا صوفی بننے کی کوشش ہی کر رہی تھی کہ اچانک شہر اقتدار کے اس ایلیٹ بازار میں ایک محترمہ کی چیختی آوازیں بلند ہوئیں۔

تجسس اور صحافت کا تعلق بھی اتنا ہی گہرا ہے جتنا جیل او ر سیاستدان کا۔ آواز کا تعاقب کرتے جائے وقوعہ پر پہنچی تو منظر حیران کن بھی تھا اور دلچسپ بھی۔

حیران کن یوں کہ محترمہ کے ہاتھوں پٹھان بھائی کی شامت آئی تھی جو کہ اس وقت اپنے حواس بحال کر کے سر پہ بالوں کو سیدھا کر تے ہوئے گویا یہ پیغام دینے کی کوشش میں تھا کہ سب اچھا ہے۔

اور دلچسپ اس لیے کہ محترمہ جانی پہچانیں تھیں اور اب باقاعدہ ایک مجمعے سے خطاب فرما رہیں تھیں۔

ارے آپ تو وہی ہیں نہ جنہوں نے دو سال پہلے شعور کے قطرے پیے تھے؟ شدید برہم تیزی سے آگے بڑھتی ان خاتون کے قدم رک گئے، پلٹ کر مجھے دیکھا اور ایک جانب لے گئیں۔

آپ کی تعاقب کرنے کی عادت دو سال بعد بھی نہیں بدلی؟ برجستہ کہے جملے نے اچانک شرمندہ ہونے کا احساس دلایا مگر پھر صحافی ہونے کے احساس نے بہت اعتماد دیا۔ تعاقب نہیں میڈم اپنی ذمہ داری نبھا رہی ہوں۔

پوچھیں پھر۔ ہتھیار ڈالتے ہوئے کہے اس جملے نے بتا دیا کہ وہ بات کرنے کو تیار ہیں۔
وہ شعور کے قطرے۔ جعلی تھے۔ سوال مکمل ہونے سے پہلے ہی جواب آیا۔

شعور ہی جعلی تھا۔ جیسے پولیو ویکسین جعلی ہوتی ہے۔ اتنے سالوں سے مسلسل پلا نے کے بعد بھی کنٹرول نہیں ہو سکا پولیو بالکل ویسے ہی۔

لیکن تبدیلی کی تمنا تو سب نے مل کر کی تھی اور۔ ۔ ۔

دیکھو بہن! کیا بنا صحافی کا؟ یہ سوال مجھ سے تھا اور میں ابھی کچھ کہتی وہ پھر گویا ہوئیں،

بڑے بڑے اخبار بند کر دیے گئے جبکہ میڈیا وہ راستہ تھا جسے اس شعور کو پھیلانے میں پوری طرح استعمال کیا گیا تھا۔ قلم کی طاقت، ظلم کے خلاف آواز اٹھانا وغیرہ وغیرہ۔

پہلا گلا تو آپ کا گھونٹ دیا گیا۔ یعنی قلم کو بھوکا کر دیا۔ اب آپ پیٹ بھرنے کا سوچیں گے یا حکومت وقت کی پالیسیز کے خلاف علم بغاوت اٹھائیں گے؟

ایک بات ہے ویسے!

مجھے بازوں سے پکڑ کر قریب کر کے انتہائی رازداری سے وہ بولیں۔ آپ کی برادری کے کچھ انتہائی مطمئن آج بھی پہلے جیسا بلکہ اس سے بھی اچھا کما رہے ہیں۔ پیسہ بولتا ہے مگر۔۔۔

دیکھیے محترمہ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتی وہ مسکرانے لگیں۔ آپ کو نہیں کہا یہ۔۔۔

ہم روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے سے تنگ آئے، بارش میں ڈوبتے لاہور شہر میں لمبے بوٹوں کے ساتھ شہر کا جائزہ لیتے لیڈر سے جان چھڑانے کے چکر میں ہمار ا حال، آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا والا ہو گیا ہے۔

آپ کچھ زیادہ ہی د لگرفتہ ہیں۔ معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی کچھ شرائط ماننا مجبوری تھی۔

قہقہ بلند ہوا۔ معیشت تو ہمارے ہمسایہ ملک کی بھی مضبوط ہے بلکہ وہ پاکستان کے جدا ہوئے حصے کی بھی مگر ذرا یہ بتائیے کہ غربت ختم ہوئی؟ غریب ختم نہیں کرنا غربت کرنی ہے ختم۔

معیار زندگی بہتر بنانا ہے۔ ہمارا مضبوط معیشت والا ہمسایہ ملک ابھی تک بیت الخلاء ہی کی سہولت نہیں دے پایا اپنے سب شہریوں کو، یہ تو وہی ہوا نا کہ بچے پیدا کرتے جاؤ اس یقین کے ساتھ کہ آنے والی روح اپنا رزق ساتھ لاتی ہے۔ سنو! یہ رزق والی بات تو چلو کچھ سمجھ آتی ہے لیکن باتھ روم بھی تو چاہیے ہوتا ہے نہ۔

دیکھیں وقت تو لگتا ہے نہ حالات کو بہتر ہونے میں۔ کرپشن، بدعنوانی، استحصال معاشرتی برائیاں ہیں۔ ا تنی آسانی سے تو نہیں جائیں گی۔

پیاری بہن جن قوانین کی اہمیت ہوتی ہے نہ وہ چھٹی کے دن بھی اکثریت سے منظور کر لیے جاتے ہیں۔ جو فیصلے ہوتے ہیں ان کے لئے چھٹی کے دن بھی دفاتر کھل جاتے ہیں۔ کہیے ایسا کچھ عام فرد کے لیے ہوا؟

مساوی تعلیم ہو، بچوں کے ساتھ زیادتی کی سزا کا قانون ہو، خواتین کے استحصال کی بات ہو، تنخواہوں کی ادائیگی کا معاملہ ہو یا عوام کو باعزت روٹی کھلانی ہو، کوئی قانون، کوئی فیصلہ۔

کتنی زینب سو گئیں زمین میں! کتنے معصوم بچوں کے بچپن کو نوچ ڈالا گیا، کتنے اساتذہ تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے احتجاج کرتے رہے۔

سانحہ ساہیوال ہو یا کشمیر میں مرتے معصوم لوگ۔ زندگی سستی ہے ان کی۔
دکھاؤ کوئی راتوں رات بنتا قانون، نوٹیفکیشن، ترمیم یا فیصلہ؟

اب لگتا ہے آگہی واقعی عذاب ہے۔ اس ملک میں دولے شاہ کے چوہے عوام کے طور پر ہونے چاہیں۔ ہم ڈینگی سے مریں یا برف میں دب کر ہمارے لیے نہ تو آواز بلند کرنے والا ہے کوئی اور نا ہی قانون بنانے والا۔

ایک مشورہ دوں!
میں جو نہ جانے خیال کی کس دنیا میں تھی اچانک چونک گئی۔ مشورہ؟ ہاں مشورہ۔

صحافت چھوڑ دو۔ جو تم لکھو گی وہ کوئی چھاپے گا نہیں اور جو وہ کہیں گے وہ تم لکھو گی نہیں۔ برادرانہ نہیں بہنوانہ مشورہ ہے۔ نہیں بلکہ ایسا کرو، ملک چھوڑ دو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments