مار نہیں پیار


بھارت لگاتار مختلف ٹِیبوز اور سوشل مسائل پر فلم سازی کررہا ہے پھر چاہے وہ دینی ہوں یا دنیاوی۔

ابھی ایک فلم جو جسمانی نقصان پہنچانے پر بنائی گئی جو انتہائی خوبصورتی سے عوام کو اس مسئلے پر نفسیاتی، معاشرتی و قانونی طور پر شعور مہیا کررہی ہے۔ پاکستان میں کچھ سال قبل ہر سرکاری و غیر سرکاری سکول کے باہر ایک تختی نمایاں کی گئی جس پر لکھا ہوتا ہے ”مار نہیں پیار“

یہ سلوگن بچوں پر بڑھتا خوف، جسمان ٹارچر اور ان کی صلاحتیوں کو پسماندہ کرنے کے خلاف حکومت کی طرف سے اٹھایا گیا قدم تھا۔ یہ مناسب بات ہے کہ حکومت نے نجی مسائل بارے بہتری اقدام اٹھائے لیکن یہ وہ قانون ہیں جن کی انفرادی طور پر مشق لازم ہے۔ جسمانی تشدد میں سب سے بڑے ذمہ دار والدین ہیں جو اپنی زبان سے زیادہ اپنے ہاتھوں پر انحصار کرتے ہیں اور کسی بھی معاملے کو وقت دینے کے بجائے فورا ایک دو تھپڑوں سے انجام پانا چاہتے ہیں۔ یہی والدین فورا سکول انتظامیہ کے پاس شکایت لے کر پہنچ جاتے ہیں کہ ہمارے بچے کو مارا کیوں گیا۔

یہ ایک فطرتی عمل ہے کہ اپنی عزیز شے کو اگر کوئی برا بھلا کہے تو یہ فعل ناقابل برداشت محسوس ہوتا ہے حتی کہ ماں بھی اپنے نالائق بچے کی برائی کسی پڑوسی سے سننے پر واویلا مچاتی ہے۔ لیکن دوبارہ اسی بچے کو ذہنی و جمسانی تشدد کا نشانہ بنادیتی ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے مشرقی ممالک میں فنکاروں کا قحط پڑگیا ہے۔ سرپرست بچوں کو ایسی ریس میں دوڑاتے ہیں جس میں وہ خود ہار چکے ہوتے ہیں اور پھر یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے۔ معاشرے میں ایسے کئی وکٹم آپ کو ملیں گے اور عمر رسیدہ ہونے پر باقاعدہ یہ تسلیم کرتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ سننے والا بات سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ سمجھانے والا بات سمجھانے میں قابل نہیں ہے یا سرے سے ہی کوشاں نہیں ہے۔ جب بولنے والے کا اپنی اس کمی کا احساس ہوتا ہے تب وہ اپنے سے کمتر پر اپنی چھاپ اور خوف چھوڑنے کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہے۔ بھاری جسم، بھاری آواز، اونچا قد یا سخت لہجہ ہمارے معاشرے میں سمبل آف پاور سمجھا جاتا ہے اور باقاعدہ اس کو روایت بنادیا گیا ہے۔ عام صحت رکھنے والے پر جملے کسے جاتے ہیں اور بے جا طنز و تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جسمانی تشدد کا کوئی بھی فرد کسی بھی عمر اور کہیں بھی نشانہ بن سکتا ہے۔ بیشتر سکول میں سینئیر طلبا سے مار کھاتے ہیں۔ کئی گلی محلوں میں۔ کسی بچے کو کرکٹ کیلتے ہوئے محض فیلڈنگ کے لئے کھڑا کردیا جاتا ہے۔ کوئی بچہ سکول میں کسی اور بچے کا ہوم ورک کرنے میں مجبور ہے، حتی کہ گھر میں ایک ہی بچے پر بہن بھائیوں کا بے دریغ اپنے نجی کام مسلط کرنا بھی جسمانی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ دروازہ کھولنا، پانی پلانا، کوڑا پھینکنے جیسے کام کرنا کہیں بھی بڑوں کا احترام کرنے میں شمار نہیں ہوتا۔ اگر ایسے کام آپ پر مسلط کیے جارہے ہیں یا آپ کررہے ہیں تو یہ جسمانی تشدد ہے۔

مغربی ممالک میں پندرہ سے سولہ سال کا بچہ میچیور اور اپنے حقوق و فرائض سے بخوبی واقف ہوتا ہے اور اس کی انفرادی رائے اور آزادی ہی اس کے عظیم فنکار، بزنس مین، یا کھلاڑی بننے کی ذمہ دار ہے۔ ہمارے معاشرے میں بچے کو ذہنی، جسمانی حتی کہ فطرتی طور پر بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے ہر گھر میں کوئی نا کوئی معذور ضرور ہے۔ یہاں معذور کو بس لنگڑا یا اندھا مت سمجھئے گ۔ ذہنی صلاحتوں کا ممکن استمعال نہ کرنے بھِی معذوری ہی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ سکول کے دنوں میں مجھے ہینگروں سے مارا جاتا تھا اور والدین کے گھر سے نکلتے ہی یہ غصہ مجھے ایک حکمرانہ شخصیت میں مبتلا کردیتا تھا اور یہی غصہ میں اپنے چھوٹے بھائیوں پر اتارا کرتا تھا۔ لیکن وقت نے ایک مار سے میری شخصیت پر کافی بدلاؤ برپا کیا۔

جسمانی تشدد میں خوف کی دو قسمیں ہیں۔

پہلی قسم وہ خوف ہے جو آپ اس کو مارنے کی دھمکی دے کر اس میں پیدا کرتے ہیں تب وہ اس خوف کو ناپ نہیں سکتا۔ وہ نہیں جانتا کہ آپ اس کو کتنا ماریں گے اور وہ کس اذیت میں مبتلا ہوگا۔

دوسری قسم وہ خوف ہے جب آپ اس کو پہلی بار مارتے ہیں۔ اب دونوں کے بیچ ایک جھجک جاچکی ہوتی ہے اور بچے کے اندر خوف ایک مشق بن جاتا ہے۔ وہ آپ کے غصے کو ناپ سکتا ہے اور اس کی حدود جانتا ہے۔ وہ اس اذیت کو بھی جان چکا ہے جو مار کے عوض اس کو ملتی ہے۔ لہذا اس کی ذہنی معذوری یہاں خوف کی جگہ لے چکی ہوتی ہے۔ جو آنے والے وقت میں کسی بھِی ڈس آرڈر میں بدل سکتی ہے۔

مارنے کا حق کوئی نہیں رکھتا۔ نہ باپ نہ ماں۔ نہ اساتذہ۔ نہ شوہر۔

مذہبی رو سے دیکھا جائے تو خود کو نقصان پہنچانا بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے اور یہی اگر کوئی اور آپ کے ساتھ کرے تو آپ اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ جب آپ اپنے بچے پر ذہنی و جسمانی دباؤ ڈالتے ہیں تو بچہ تب بھی آپ سے پہلے جتنا ہی پیار کرتا ہے لیکن وہ خود سے پیار کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

شارون شہزاد
Latest posts by شارون شہزاد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments