عمران خان ایک اچھے سیاسی منیجر مگر۔۔۔


پاکستان کے سیاسی منیجمنٹ سٹینڈرڈ کو سامنے رکھ کر آسانی سے تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان ایک اچھے سیاسی منیجر ہیں۔ نواز شریف اور شہباز شریف کی ناقابل شکست شخصیت اور ان کی جماعت ن لیگ کے لیے طے شدہ شرمناک انجام کو منطقی سپورٹ دینے کے لیے عمران خان نے ن لیگ والوں پر اکتوبر 2011 ء میں لاہور سے جس مادرپدر آزاد گولہ باری کا سلسلہ شروع کیا تھا وہ بہت کامیاب رہا۔ یہ درست ہے کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے لیکن ایک حد کے بعد یہ جائز بھی ناجائز ہوجاتا ہے۔

عمران خان کی ن لیگ پر مادرپدر آزاد گولہ باری کی مثال 9 / 11 کے بعد اتحادی فوجوں کی افغانستان میں کارپٹ بمباری سے دی جاسکتی ہے جس میں یہ پروا نہیں کی گئی تھی کہ بم دشمن کی فوج پر گررہے ہیں یا معصوم بچوں کے سکولوں، ہسپتالوں، خواتین اور بوڑھوں وغیرہ پر۔ یہاں تک کہ درختوں پر بیٹھی بے زبان چڑیوں کو بھی B۔ 52 بمبار طیارے کے خوفناک بموں سے نشانہ بنایا گیا۔ بالکل ایسے ہی عمران خان نے نواز شریف اور شہباز شریف کی ناقابل شکست شخصیت اور ان کی جماعت ن لیگ کے لیے طے شدہ شرمناک انجام کو منطقی سپورٹ دینے کے لیے معاشرتی آداب، اخلاقیات اور جھوٹ کی تمام حدیں پار کردیں۔

انہوں نے جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہونے کا نیا مادرپدر آزاد سٹینڈرڈ قائم کیا۔ دیکھا جائے تو مندرجہ بالا باتیں عمران خان پر تنقید کے زمرے میں آتی ہیں لیکن بہت گہرائی سے تجزیہ کرنے پر پتا چلتا ہے کہ یہ عمران خان کے ایک اچھے سیاسی منیجر ہونے کی صلاحیت کا ثبوت ہے کیونکہ نواز شریف، شہباز شریف اور ن لیگ کے کریڈٹ میں اتنا کچھ جمع ہوچکا تھا کہ اسے نارمل انتخابی مہم اور ووٹوں سے شکست نہیں دی جاسکتی تھی۔

ن لیگ کی اِس کریڈٹ لسٹ میں ترقیاتی کام، ورلڈ گیم چینجر سی پیک، چین ترکی اور روس سے خصوصی تعلقات، ہمسایہ ممالک کے ساتھ نارمل تعلقات کی طرف بڑھتے قدم، انٹرنیشنل کمیونٹی میں اچھی ساکھ حاصل کرلینا، ملک کی معاشی صورتحال کا گراف اوپر جانا، جی ڈی پی میں ریکارڈ بہتری آنا، تمام انٹرنیشنل معاشی تجزیوں میں پاکستان کو شاباش ملنا وغیرہ شامل ہیں۔ اِن انڈی کیٹرز کے ہوتے ہوئے نواز شریف اور ن لیگ کا وجود دوسروں کے وجود کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔

مختصر یہ کہ نواز شریف اور ن لیگ سے غیرآئینی اقدام کے بغیر چھٹکارہ ممکن نہیں تھا جو اُس وقت کے حالات میں انٹرنیشنل سطح پر ایک ناپسندیدہ عمل تھا۔ دوسری طرف نارمل انتخابات کے ذریعے بھی شریف برادری سے جان نہیں چھوٹ سکتی تھی۔ لہٰذا ضروری تھا کہ اندر کا کام ایک نمبر طریقے سے کیا جائے۔ اس کے لیے فرنٹ مین کے طور پر کسی ایسی شخصیت کو استعمال کیا جانا ناگزیر تھا جو کسی ہچکچاہٹ کے بغیر معاشرتی آداب کی آخری لائن کو پار کرکے مضبوط سیاسی مخالفین پر مادرپدر آزاد کارپٹ گولہ باری کرے۔

اِن فرائض کی انجام دہی کے لیے جب عمران خان کا نام زیرغور آیا ہوگا تو ہوسکتا ہے سلیکٹ کرنے والوں کو عمران خان کی اِن صلاحیتوں پر کوئی شک ہو لیکن اب وہ سب عمران خان کے انتخاب پر فخر کرتے ہوں گے کیونکہ عمران خان کی مادرپدر آزاد کارپٹ گولہ باری نے نواز شریف، شہباز شریف اور ن لیگ جیسے سیاسی کوہ ہمالیہ کو روئی کے گولے بناکر اڑا دیا۔ جی ہاں یہ وہی نواز شریف اور ن لیگ ہے جو چوہدری نثار کی دانش مندانہ باتوں کابرا مانتی تھی اور اب وہی ن لیگ چوہدری نثار کے دیے ہوئے درسوں پر درپردہ عمل کرنا شروع ہوگئی ہے۔

ن لیگ کو یہ سب کچھ وقت نے نہیں سکھایا بلکہ یہ سب کچھ عمران خان کے اچھے سیاسی منیجر ہونے کا رزلٹ ہے جس کے باعث کوہ ہمالیائی ن لیگ ریت کی چھوٹی سی ڈھیری بن کر رہ گئی ہے۔ عمران خان کے اچھے سیاسی منیجر ہونے کی اِس صلاحیت کو پاکستان کی تاریخ میں فِٹ کرکے دیکھیں تو ہلکی سی چیخ کے ساتھ قہقہہ بھی نکلتا ہے۔ ایک زمانے میں فیلڈ مارشل ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بینظیر بھٹو اور نواز شریف وغیرہ بھی شروع میں اچھے سیاسی منیجر کے طور پر ابھرے تھے لیکن ڈوب گئے۔

پاکستان کی تاریخ میں اب تک صرف جنرل پرویز مشرف مقامی اور انٹرنیشنل طاقت کے سرچشموں کوساتھ لے کر چلے اسی لیے اب تک قائم دائم ہیں۔ عمران خان بھی فی الحال جنرل پرویز مشرف کے نقش قدم پر عمل کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے مقامی اور انٹرنیشنل طاقت کے سرچشموں کی انگلیاں پکڑے چلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس طرح ان کے دونوں ہاتھ دوسروں کی گرفت میں ہیں۔ جنرل پرویز مشرف مختلف صلاحیتوں کے مالک تھے جبکہ عمران خان کے پاس صرف مخالفین پر مادرپدر آزاد کارپٹ گولہ باری کی صلاحیت ہے جس کی شاید مستقبل میں اتنی ضرورت نہ رہے کیونکہ ن لیگ چوتھی مرتبہ اچھے سیاسی منیجر کا کردار ادا کرنے کی ابتداء کرچکی ہے۔

ایک پاگل شخص عمارت کی چھت پر چڑھ گیا اور چیخنے لگا ”میں چھلانگ لگانے لگا ہوں“۔ لوگ اکٹھے ہوگئے، پولیس والے آگئے، ایمبولینس بھی پہنچ گئی۔ پولیس والا سپیکر میں زور سے بولا ”نیچے آجاؤ، گر جاؤ گے“۔ پاگل بولا ”میں یہاں آم لینے نہیں آیا، چھلانگ لگانے آیا ہوں، پیچھے ہٹ جاؤ۔ میں چھلانگ لگانے لگا ہوں“۔ پولیس والے نے پوچھا ”مگر تم چھلانگ کیوں لگانا چاہتے ہو؟ “ پاگل نے کہا ”مجھے بادشاہ بنا دو ورنہ میں چھلانگ لگانے لگا ہوں“۔

پولیس والے نے لوگوں کی طرف اشارہ کیا اور بولا ”بادشاہ سلامت نیچے تشریف لے آئیے، رعایا استقبال کی منتظر ہے“۔ لوگ بھی شور مچانے لگے ”ساڈا بادشاہ زندہ باد، ساڈا بادشاہ زندہ باد“۔ پاگل پھر اَڑ گیا ”میں نیچے نہیں آسکتا، میں چھلانگ لگانے لگا ہوں“۔ پولیس والے نے پریشان ہوکر ادب سے پوچھا ”مگر کیوں حضور؟ اب تو آپ بادشاہ سلامت بھی بن گئے ہیں“۔ پاگل نے جواب دیا ”جو قوم پاگلوں کو بادشاہ بنا لے، میں ان میں نہیں رہ سکتا۔ میں چھلانگ لگانے لگا ہوں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments