بچہ اس کا جس کے بستر پر پیدا ہو


جیسے جیسے میرے جانے کے دن قریب آ رہے ہیں دل پر پڑا بوجھ زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ میں اس کے ساتھ کیسے مدفون ہو جاؤں، یہ ممکن نظرنہیں آرہا۔ مرنے کے بعد میراسینہ پھٹ جائے گا یا پھر میری قبر اس کی تپش سے سلگے گی اور لاوا ابل پڑے گا۔ جس راز کو میں نے ساری زندگی اپنی چھاتی میں چھپائے رکھا اب میرے لئے مزید اسے دبانا ممکن نہیں رہا۔ اور پھر اس کے ساتھ میرے کئی دوسرے پیاروں کا حق بھی منسلک ہے۔ جب میرا کوئی گناہ نہیں تھا، میرا کوئی قصور نہیں تھا، تو سزا میں نے کیوں بھگتی؟ اب میر ی اولاد، میر ی مجبوریوں کا بوجھ کیوں اٹھائے پھرے؟ اپنی عزت کی خاطر، اپنی بچیوں کی خاطر میں نے سب برداشت کیا۔ گناہ گار کو سزا نہ ملی، اسے میرے دکھ کا احساس تک نہ ہوا۔ سب کچھ میں نے تن تنہا سہا۔

وہ اپنی خواہشات کی اسیر بنی۔ میں نے اسے بہت چاہا تھا۔ میرا دل، بدن، روح سب اس کی محبت میں مبحوس تھے۔ ہمارے درمیان کوئی رنجش نہیں تھی۔ تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ میں اللہ کی رحمت پر شاکر تھا لیکن اس کو اولاد ذکور کی شدید خواہش تھی وہ کہتی کہ سپرم کی کمزوری کی وجہ سے صرف لڑکیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ میں اس کا دل دکھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتا۔ وہ عقم میں معاونت اور آب پشت کی کثافت بڑھانے کے لئے مجھے تخم کثوث گھول گھول کر پلاتی رہی۔ یہی بیج پھر تمام عمر مجبوری کی آکاس بیل بن کر مجھ سے چمٹے رہے۔

محبت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں ذرا سی بے وفائی بھی چھپتی نہیں اور اس نے تو مجھے بہت بڑا دھوکا دیا تھا۔ اس چرشنی کو حمل ہوتے ہی مجھے شک ہو گیا تھا۔ میں کسی حسابی مغالطے کا شکار نہیں تھا، مجھے یاد تھا کہ میں تو اُس مہینے کے مخصوص دنوں میں شہر سے باہر تھا۔ لیکن میں نے اسے کبھی بھی یہ نہیں جتلایا۔ جب بچہ پیدا ہوا تو کئی سال تک میں اپنے دل کو بہلاتا رہا۔ لیکن یہ چبھن راتوں کو میرے سینے سے آہ و بکا بن کر ابھرتی رہی۔ گھر میں چراغ تو روشن ہو گیا لیکن میرے دل کے آنگن میں اس سے آگ بھڑک اٹھی۔ مجھے فیصلہ کرنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ اندیشوں کی دیوار دن بدن اونچی ہوتی جا رہی تھی۔

بچہ تین سال کا ہو گیا تھا۔ وہ جب بھی میرے ساتھ باہر جاتا، ماں اسے بہت سجا سنوار کر بھیجتی۔ ’میرے پاپا‘ کہہ کر پکارتا تو اس کی آواز کے ایک ایک لفظ کے ساتھ میرا دل بھی ڈوبتاجاتا۔ اولاد تو انسان کے مشام جان کو بہشت کی خوشبو سے معطر کرتی ہے۔ وہ مجھے بہت پیارا بھی لگتا تھا۔ بہنوں کی آنکھ کا تارا تھا۔ لیکن شک مجھے دکھی کر دیتا تھا۔ میں اس الجھن کو سلجھانا چاہتا تھا، لیکن خوفزدہ بھی تھا کہ اتنا پیارا بچہ کہیں کھو نہ دوں؟ اگر میرا شک سچ ہوا تو میں کیا کروں گا؟ میری بیٹیاں تو یہ سب برداشت نہیں کر سکیں گی۔ میں دنیا کو کیا بتاؤں گا؟ لیکن کہیں وہ نردوش ہی نہ ہو؟ میری روح تذبذب، تشکیک اور ابہام کی سولی پر لٹکی ہوئی تھی۔ میں اس سے نکلنا چاہتا تھا۔

ایک دن میں بچے کو لے کر لیبارٹری کی طرف چل نکلا۔ سارا راستہ وہ بہت خوش تھا۔ کبھی میری گود میں اور کبھی چلتے چلتے میری ٹانگوں سے لپٹ جاتا۔ اس کی پیار بھری حرکتیں دیکھ کر کئی مرتبہ میرے ذہن میں آیا کہ میں لوٹ چلوں۔ لیبارٹری میں جب میں نے نمونہ لینے کے لئے ا سے پکارا، ”میرے لال، چھوٹا سا، پیارا سا منہ کھولو۔ “ تو میری آنکھیں بھر آئیں۔ مجھے یوں لگا کہ میں اپنے ہی بیٹے کی عصمت دری کرنے لگا ہوں۔ نرم و نازک عارض کے اندر جب میں مو قلم رگڑ رہا تھا تو میں نے اپنی چیخ بڑی مشکل سے ضبط کی۔

تقریباً دس دن کے بعد نتیجہ موصول ہونا تھا۔ وہ دس دن میرے لئے حشر کے دن سے بھی لمبے تھے۔ اور جب ڈی این اے کی رپورٹ آئی تو وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔

دکھ اور غصہ مجھے پاگل کیے جا رہا تھا۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ اسے اور اس کی ماں کو چھوڑ دوں۔ ماں کاخیال آتا تو بچیاں سامنے آ جاتیں۔ خاندان کی بدنامی آڑے آ جاتی۔ اس کے بارے میں سوچتا کہ میں اسے کہیں لے جا کر زندہ در گور کردوں۔ پھر سوچتا کہ کیا میں زمانہ جاoلیت میں زندہ ہوں؟ اس کاقصور کیا ہے؟ مجھے یاد آ گیا کہ اللہ نے کہا تھا، ”اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔ اور جب نامہ اعمال کھولے جائیں گے۔ اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جب جہنم دہکائی جائے گی اور جب جنت قریب لے آئی جائے گی، اس وقت ہر شخص کو پتا چل جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔ “

کیا میں خدا کے پاس اِس قتل کو لے کر جاؤں گا؟ اُس معصوم کا قتل، ایک ایسے جرم میں جس کا اس نے ارتکاب ہی نہیں کیا۔

یہ بہت مشکل وقت تھا۔ زندگی کے اس اہم موڑ پر مجھے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا تھا۔ وہ ایک ناقابل تردید حقیقت تھا۔ سو میں نے اس حقیقت کو مجبوراً قبول کر لیا۔

اب کئی سال گزر چکے ہیں۔ میری تینوں بیٹیاں بیاہی جا چکی ہیں۔ وہ بھی پچیس سال کی حد پار کر چکا ہے۔ پچھلے سال اس کی ماں بھی چلی گئی اور اب میں بستر مرگ پر پڑا ہوں۔ جانے کب بلاوا آ جائے۔ میں سوچ رہا ہوں ”کیا اس راز کے ساتھ ہی دفن ہو جاؤں؟ “ اب اس کو دبانا میرے لئے ممکن نہیں رہا۔ کیا میں اپنی جائداد کا زیادہ تر حصہ اس بچے کو دے جاؤں جو میرا ہی نہیں؟ میری اولاد اُس گناہ کا اور میری مجبوریوں کا بوجھ کیوں اٹھائے؟ میں یہ بوجھ اتار پھینکنا چاہتا ہوں۔ اس بوجھ نے تمام عمر میرے کندھے جھکائے رکھے اور میرا سر اٹھنے نہیں دیا۔ لیکن اب میں تھک چکا ہوں۔ میں کیا کروں؟

اب ضرورت ہے کہ میں اپنی بیٹیوں کے مفاد کو زک نہ پہنچنے دوں۔

ایک دن وہ میرے بستر کے سرہانے بیٹھا تھا۔ میں نے بتانا شروع کیا تو وہ خاموش ہو گیا۔ میں نے اپنا درد بیان کیا۔ اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ وہ خامو شی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میرے سینے کا بوجھ ہلکا ہو گیا لیکن ساتھ ہی دل ڈوبنا بھی شروع ہوگیا۔ اس کے بعد وہ بجھا بجھا سا رہنے لگا۔ پھر ایک دن میں نے کہا،

” میں تمام جائداد تمہاری بہنوں کے نام کرنا چاہتا ہوں۔ “

وہ بولا ”مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ آپ نے جو مجھے دیا میرے لئے کافی ہے۔ آ پ کا نام میرے لئے دنیا جہاں میں سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ جب آپ مجھے اپنا نام دے چکے تو مجھے اور کسی چیز کی حاجت نہیں رہی۔ اگر آپ وہ بھی واپس لینا چاہتے ہیں تو مجھے پھر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ میں آپ پر حرف نہیں آنے دوں گا۔ میں خود ہی اس ملک کو چھوڑ جاؤں گا اور کسی ایسی جگہ پر چلا جاؤں گا جہاں والد کا نام پوچھا ہی نہیں جاتا۔ لیکن اگر کوئی پو چھے گا تو میں آپ کا نام ہی لوں گا۔ کیونکہ آپ اور صرف آپ میرے باپ ہیں۔ “

اس کے گلابی بھرے بھرے ہونٹ تھر تھرا رہے تھے۔ اس کچے ناریل سے بانکے لڑکے کی پرنم آنکھوں سے ٹپکتے ہوئے موتیوں کی لڑی نے میری مشکل حل کر دی۔ میں نے اسے گلے سے لگا لیا۔ اب میرے لئے مرنا آسان ہو گیا تھا۔ لیکن اب ہی تو میں مرنا بھی نہیں چاہتا۔ تمام عمر میں بھول بھلیوں میں الجھا رہا۔ اب ہی تو میں نے منزل پائی ہے۔ ابھی ابھی تو مجھے اللہ نے بیٹا دیا ہے۔ وہ میرا ہی بیٹا ہے۔ میں جائیداد کی وجہ سے اسے اپنے سے دور نہیں کرنا چاہتا۔ وہ میرے بستر پر پیدا ہوا، میرے گھر میں پلا بڑھا، وہ میرا ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments