آپ دنیا کا مرکز نہیں ہیں


تحریر : یووال نوح ہراری

مترجم : صادق صبا

زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ وہ دنیا کی مرکزی قوم ہیں اور ان کا کلچر، ان کا تہذیب ہی انسانی تاریخ کا محور ہے۔ بہت سے یونانی یہ خیال کرتے ہیں کہ تاریخ کی شروعات ہومر، سوفوکلیس اور افلاطون سے ہوئی، اور تمام روشن خیالات اور ایجادات کی پیدائش ایتھینز، اسپارٹا، سکندریہ اور قسطنطنیہ میں ہوئی۔

چین کے قوم پرست تو یہ دعوی کرتے ہیں کہ تاریخ کی ابتداء تو زرد، ژی اور شانگ بادشاہت سے ہوئی اور جو کچھ ہندوؤں، مسلمانوں اور مغرب نے ایجادات و حاصلات کی ہیں یہ فقط چینی دریافتوں کی معمولی سی نقالی ہے۔

دوسری طرف ہندو مذہب کے لوگ چنیوں کی ان خیالات کو محض خام خیالی قرار دے کر یہ دعوی کرتے ہیں کہ کنفیوشش اور افلاطون سے بھی بہت پہلے برصغیر میں قدیم رشیوں نے جہاز اور حتی کہ ایٹم بم ایجاد کیے۔ آئن اسٹائن اور رائٹ برادرز تو خارج از بیان ہیں۔

کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ مہارشی بردواج ہی وہ رشی تھا جس نے راکٹ اور جہاز ایجاد کیں، جبکہ وشوا متر نے ناصرف میزائل ایجاد کئیے بلکہ استعمال بھی کئیے ہیں۔ اور اچاریہ کنڈ ایٹمی تھیوری کا بانی تھا جبکہ نیوکلئیر ہتھیار مہابھارت میں ہی اچھی طرح سے بیان کیے گئے ہیں۔

مسلمانوں کا خیال ہے کہ عرب میں اسلام آنے سے تاریخ غیر ضروری اور جہل ذدہ تھا۔ اور خیال کرتے ہیں کہ تاریخ تو یہی ہے جو نزول قرآن پاک کے بعد مسلم امہ کے گرد گھومتی ہے۔ علاوہ ازیں ترکی، ایران اور مصر والے تو یہ کہتے ہیں کہ اسلام سے پہلے بھی جتنی اچھی چیزیں تھی انہی کی قوم اس کا مسبب ہے۔ اور ظہور اسلام کے بعد انھی کی قوم نے اسلام کے اصل روح اور شان کو برقرار رکھا ہے۔ (ہم پاکستانی بھی یہی سوچتے ہیں۔ مترجم)

برطانیہ، فرانس، جرمنی، امریکہ، روس، جاپان اور بہت سے دوسرے ممالک کے اقوام بھی اس بات پہ قائل ہیں کہ اگر وہ اور ان کی شاندار ایجادات نہ ہوتیں تو انسانیت آج تاریکی اور جہالت میں زندگی بسر کررہی ہوتی۔

یہ سب دعوے مغالطعے اور خام خیالیاں ہیں۔ جو صرف اور صرف تاریخ کے بارے میں خودپسندی، جہالت اور نسلی عصبیت کا ثبوت دیتی ہیں۔ جب انسان نے زمین کو آباد کیا، درخت اگائے، جانوروں کو سدھایا، پہلا شہر تعمیر کیا، پیسہ اور لکھائی ایجاد کی تو آج کا کوئی بھی مذہب، کوئی بھی قوم وجود نہیں رکھتا تھا۔ اخلاقیات، فنون، روحانیت اور تخلیقی سرگرمی کائناتی انسانی قابلیتیں ہیں جو ہمارے ڈی این اے میں ودیعت کردی گئی ہیں۔

ذاتی طور پر میں خود اس طرح کی بے جا اناپرستی سے شناسا ہوں، کیونکہ میرے اپنے لوگ، یہودی بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں سب سے اہم لوگ ہے۔ کسی بھی انسانی ایجاد کا نام لیں وہ آپ کو اس کا سہرا اپنے سر باندھتے ملیں گے۔

ایک مرتبہ میں اسرائیل میں ایک یوگا کے استاد کے ہاں یوگا سیکھنے گیا اس نے تعارفی کلاس میں ہی کہا کہ یوگا حضرت ابراھیم نے ایجاد کی تھی اور یوگا کی سبھی صورتیں عبریوں کے حروف جیسی ہیں۔

ابراھیم نے یہ پوسچر اپنے کسی کنیز کے بیٹے کو سکھائے تھے جو انڈیا گیا اور اس نے انڈیا میں یوگا پھیلایا۔

جب میں نے ثبوت کا پوچھا تو اس نے بائبل کے ایک سطر کا حوالہ دیا کہ ”اور اپنے کنیزوں کے بیٹوں کو اس نے دیے تحفے، جب وہ زندہ تھا، اور بھیج دیا انھیں اسحاق سے دور مشرق میں مشرقی ممالک کی طرف۔ ( کتاب جنیسس 25 : 6 ) اور وہ مجھ سے مخاطب ہوا کہ کیا تھے یہ تحفے آپ کے خیال میں؟ تو آپ نے دیکھا کہ یوگا بھی یہودیوں نے ایجاد کی۔

میں کہتا ہوں کہ سب اپنے آپ کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن یہ محض انا پرستی اور نسلی عصبیت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments