کورونا وائرس، جنگل آپ کے تعاقب میں ہے


چین میں کورونا وائرس پھیلنے سے ہونے والی اموات روز بڑھتی جا رہی ہیں۔ ہزاروں پاکستانی چین میں پھنس چکے ہیں اور پوری دنیا دم سادھے اس موت کو دیکھ رہی ہے۔ موت جو ہر طرف ہے مگر نظر نہیں آ رہی۔

کہا یہ جا رہا ہے کہ کورونا وائرس جنگلی چمگادڑوں اور دیگر جنگلی جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا اور پھر پھیل گیا۔ اس مرض کے ابتدائی متاثرین ایک ہی بازار میں کام کرتے تھے یا کسی وجہ سے وہاں گئے تھے، جس میں مختلف جنگلی جانور خوراک کے طور پر فروخت کیے جاتے ہیں۔

طاعون کا مرض جب بھی پھیلا، چوہوں سے پھیلا اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک بحری جہازوں کے ذریعے گیا۔ آج بھی چین سے آئے جہاز ہمارے ساحلوں پر لنگر انداز ہیں۔

وبا کے دنوں میں انسان کو بہت سختی اور سفاکی سے فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ کچھ اسی سختی سے جیسی سختی سے وہ عام حالات میں جانوروں کے لیے فیصلے کرتا ہے۔

چین میں جنگلی جانور کھانا ایک عیاشی تصور کی جاتی ہے۔ چین ہی میں کیا پاکستان میں بھی یہ عیاشی ہی مانی جاتی ہے۔ ہمارے ابا کے ایک دوست بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ میں نے آج تک پھٹے سے گوشت نہیں خریدا۔ ان کا خانہ زاد شکاری تیتر، بٹیر، مرغابی، تلیر، چکور، جنگلی خرگوش اور ہریل لا کر انھیں پیش کرتا تھا۔

یہ وہ زمانے تھے جب اندھیرے سویرے سڑک سے گزرتے سرمئی جنگلی خرگوش آپ کا راستہ کاٹ کے بھاگ جاتا تھا اور پھر جھاڑیوں میں بیٹھ کر مونچھیں ہلا ہلا کر دیکھا کرتا تھا۔

جنگل اجاڑ ہوئے، جنگلی جانور ناپید ہوئے اور چڑیا گھر، سفاری پارک، لائسنس یافتہ شکار اور سی ورلڈ کا زمانہ آیا۔ چڑیا گھر اور سرکس تو اس سے کافی پہلے آ چکے تھے مگر چونکہ انگریز کی لائی ہوئی ہر شے اچھی ہے اس لیے چڑیا گھر بھی بچوں کی تفریح کے لیے ضروری ٹھہرے۔

بچوں کو چڑیا گھر لے جا کر ہم کیا سکھاتے آئے ہیں؟ لاہور چڑیا گھر کا بوڑھا کچھوا، میلے پانی میں پڑے اپنی جان سے بے زار مگر مچھ، سانپ گھر میں ہماری جان کو روتے مریل سانپ، اپنے پنجرے میں بے کلی کے عالم میں چکر لگاتا بھیڑیا، بے بس شیر، اکتائے ہوئے ریچھ، اداس کینگرو، پریشان زرافے، ہونق بندر جو بچوں کو دیکھ کر زور زور سے ہوو ہوو کرتے تھے صاف لگتا تھا اپنی زبان میں گالیاں دے رہے ہیں۔

دریائی گھوڑا، گینڈا، لاما، چیتے، سارس، طوطے، مور اور ہاتھی سب کینہ توز آنکھوں سے انسانوں کو دیکھتے تھے۔ خدا گواہ ہے کہ ہر جمعے چڑیا گھر جانے پر بھی مجھے کبھی خوشی نہیں ہوئی۔ جی چاہتا تھا کہ ان سب بے چاروں کو ان کے جنگل واپس چھوڑ آؤں۔

مگر اس وقت میری بات کون سنتا؟ کیونکہ یہ فرض کر لیا جاتا تھا کہ بچے پنجروں میں بند جانور دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ کم سے کم میں وہ بچہ نہیں تھی۔ مجھے پلے گروپ میں اونگھتے سہمے ہوئے بچے اور چڑیا گھر کے جانور دیکھ کر ہمیشہ یہ ہی خیال آیا کہ یہ ظلم ہے، انھیں یہاں نہیں ہونا چاہیے۔

دنیا بھر میں ڈالفن اور وہیلز کو سدھا کر تماشے دکھائے جاتے ہیں، چیتوں کے بچوں کو دودھ پلا پلا کر ادھ موا کر کے ان کے ساتھ تصویریں بنائی جاتی ہیں۔ ہاتھیوں پر جو مظالم کیے جاتے ہیں ان کی تو مثال ہی نہیں۔ سفاری پارکس میں پہلے وہی جانور انسانوں سے مانوس کیے جاتے ہیں اور جب وہ ذرا بڑے ہو جاتے ہیں تو ان ہی کی ٹرافی ہنٹنگ کرائی جاتی ہے۔

لاہور چڑیا گھر

جنگل اجاڑ ہوئے، جنگلی جانور ناپید ہوئے اور چڑیا گھر، سفاری پارک، لائسنس یافتہ شکار اور سی ورلڈ کا زمانہ آیا

ان جانوروں کے کٹے ہوئے سر نہایت بے شرمی سے سجائے جاتے ہیں۔ عذر یہ کہ ہم نے اس کے لیے پیسے ادا کیے اور فلاں فلاں ادارے نے ہمیں اس کا لائسنس دیا اور یہ سب قانونی ہے۔

جانور ناپید ہو رہے ہیں اور ہمارے ہاں ڈالفن شو، سفاری اور لائسنس یافتہ شکار ہو رہے ہیں۔ کچھ نہیں ملتا تو جنگلی بلوں اور گیدڑوں کا شکار کیا جا رہا ہے۔ سانڈے اور پینگولن پکڑ پکڑ کر بیچے جا رہے ہیں اور ہم بے خبر ہیں کہ قدرت کا اپنا نظام ہے۔

کورونا وائرس اگر بے قابو ہو گیا تو طاعون، ہیضے اور انفلوئنزا کی وباؤں کی طرح انسانی آبادیوں کو چاٹ جائے گا۔ بے شک انسانی جان بہت قیمتی ہے لیکن جب انسان اپنی آبادیوں سے نکل کر جنگلی جانوروں کا صفایا کرنا ایک عیاشی تصور کرنے لگے گا تو عناصر اپنا انتقام ضرور لیں گے۔

امریکہ اور کینیڈا میں جنگلی حیات ابھی اس طرح غائب نہیں ہوئی۔ وہاں شکار کے موسم میں خاص جانوروں کے شکار کی اجازت ہوتی ہے۔ گو میرے نزدیک یہ بھی فطرت سے سینگ اڑانے جیسا ہے لیکن انھیں تو یوں بھی سات خون معاف ہیں۔

مسئلہ ہمارا ہے۔ یہاں اگر ایک مارخور کے شکار کا لائسنس ملے گا تو دس مار خور یوں ہی مار لیے جائیں گے۔ پاکستان میں گیم وارڈن عام طور پر وہ شکاری ہوتا ہے جو جانوروں کو اس لیے بچانا چاہتا ہے کہ اس کے بچے اور پوتے بھی آنے والے وقت میں شکار سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اسے جانوروں سے ہمدردی نہیں ہوتی۔

چرنوبیل پلانٹ کاحادثہ ہوا تو بار بار کہا گیا کہ روس سے آنے والے پرندے نہ شکار کیے جائیں نہ ہی کھائے جائیں کیونکہ ان میں تابکاری اثرات ہوں گے مگر کبھی یہ سوچ کر ان پرندوں کی جاں بخشی نہیں کی گئی کہ یہ ناپید نہ ہو جائیں۔

شکار نوابوں، بادشاہوں اور راجوں مہاراجوں کا شوق تھا، راجے مہاراجے ہوتے ہی کتنے تھے اور جو تھے ان کو اس قدر فرصت ہی کہاں تھی؟ دیگر وجوہات بھی ہوں گی کہ جنگل ویران نہ ہوئے۔

پھر انگریز ہمارے جانوروں پر بھی پل پڑا اور صنعتی ترقی کی بدولت دنیا بھر میں جو متوسط طبقہ پیدا ہوا اس نے الل ٹپ شکار کیے۔ یہ نو دولتیے کہیں تیل کے خمار میں بھی تھے۔ کالے ہرنوں کی ڈاریں کچھ عرصے پہلے تک چولستان میں چوکڑیاں بھرتی تھیں اور مہمان پرندے ستلج پر قطار اندر قطار اترتے تھے۔ آج بہاولپور کینٹ میں پیلی کین میس تو ہے لیکن تلور غائب ہوتے جا رہے ہیں۔

بہت طویل داستان ہے اور اس میں بہت سے پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں اس لیے اتنا ہی سن کر سمجھ لیجیے تو بہت ہے۔

جنگلی جانوروں سے فاصلے پر رہنا چاہیے، جو جانور انسان سے مانوس ہونا تھے وہ ہزارہا سال پہلے ہو چکے۔ اگر جنگلی جانوروں کو گوشت کے لیے ہلاک کرنا اب انسان کی طرف سے فطرت کو دعوت مبارزت دینا ہے تو کورونا وائرس ایک وارننگ ہے۔ فطرت کا اپنا نظام ہے اور فطرت بھی بہت ظالم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).