”میٹرک فیل“ عین حیدر کے لئے ”عین نوازش“ کے ساتھ


یہ حالیہ دنوں کی بات ہے، ہم گاؤں میں دوپہر کے کھانے کے بعد کوئلوں پر پکی گڑ والی چائے سے حظ اٹھا رہے تھے کہ واقعتا موبائل فون کی مترنم گھنٹی بج اٹھی۔ کوئی انجان سا نمبر سکرین پر جگمگا رہا تھا۔ دل ہی دل میں موبائل فون کے خالق ”مارٹن کوپر“ کو کوستے ہوئے ہم نے کال ریسیو کی تو دوسری طرف سے ایک صاحب گویا ہوئے ”نعیم صاحب! کہاں ہیں آپ؟ میں آپ کا ہم نام بول رہا ہوں، لاہور سے ایک صاحب نے آپ کے لئے خصوصی طور پر ایک کتاب بھیجی ہے اور تاکید کی ہے کہ ہم خود جا کر یہ کتاب آپ کے ہاتھوں میں دیں، اسی لئے ہم حاضر ہوئے ہیں“۔

انہوں نے اتنے رسان سے یہ سب کچھ کہا کہ ہمیں ان کے بارے میں کچھ جاننے، سمجھنے اور بولنے کا موقع ہی نہ ملا، محض یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ ہم گاؤں میں ہیں اور شام تک آ جاویں گے۔ اوچ شریف واپسی پر شام کو نہ ان صاحب کی کال آئی اور نہ ہم نے واپسی کال کی۔ دوسری صبح گورنمنٹ بوائز ہائی سکول اوچ شریف کے شگفتہ مزاج اور ”منفرد“ لب و لہجے کے استادِ طرحدار محمد اکمل صاحب اپنی بغل میں زرد سرورق والی ایک کتاب دابے ”کتاب سرائے“ تشریف لائے۔

چھوٹتے ہی کہنے لگے کہ اجی حضرت! کل بندہ بقلم خود، نعیم خان، ملک ندیم اقبال گھلو اور محمد ماجد خان افغانی، ہم سب اکٹھے آپ کے پاس آئے تھے لیکن آپ سے ملاقات نہ ہو پائی۔ ہمارے ایک ہم جماعت و ہم مکتب دوست لاہور میں بستے ہیں۔ انہوں نے ایک کتاب آپ کے لئے بھیجی ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے زرد جلد والی کتاب ہمارے ہاتھ پر دھری اور فورا ہی اپنے موبائل کے کیمرے سے ہماری تصویر بنا کر اسی وقت ہی کسی کو واٹس ایپ کر دی۔

ہم نے کتاب پر نظر دوڑائی۔ موضوع سرورق پر انکل چارلی کی تصویر تھی اور کتاب کا نام لکھا تھا ”عین نوازش“ اور اسے لکھنے والے موصوف عین حیدر صاحب تھے۔ پہلی دفعہ یہ نام سامنے آیا تھا، ہم نے یہ سوچ کر کتاب میز پر رکھ دی کہ عزیزم حفیظ خان کے شاہکار ناول ”انواسی“ کے مطالعہ سے فراغت ملے گی تو اسے پڑھیں گے۔

ماسٹر اکمل صاحب اب واٹس ایپ پر کسی کو صوتی پیغام بھیجنے میں مصروف تھے۔ ”یار! میں نے کتاب نعیم احمد ناز کے ہاتھ میں دے دی ہے اور اس کی تصویر بھی“ 80 ”گروپ میں ڈال دی ہے“۔ موبائل فون کی مراسلت سے فارغ ہو کر وہ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ کہنے لگے کہ آپ عین حیدر کو جانتے ہیں؟ ہمارے اظہارلاعلمی پر گویا ہوئے کہ یہ ہمارے دوست اور گورنمنٹ بوائز ہائی سکول اوچ شریف میں ہمارے ہم جماعت تھے، اب داتا کی پوتر نگری میں عمر رواں کی بے اعتبار سانسوں کی مالا جپتے ہیں۔

اکمل صاحب نے ہماری ناقص معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ 1980 ء کی دہائی میں گورنمنٹ بوائز ہائی سکول اوچ شریف سے ایک ساتھ میٹرک کرنے والے ہم کلاس فیلوز نے واٹس ایپ پر ”80“ کے نام سے ایک گروپ بنایا ہوا ہے۔ عین حیدر، نعیم خان، ملک ندیم اقبال گھلو، صابر حسین شیرازی، محمد ماجد خان افغانی اور دیگر کلاس فیلوز اسی گروپ میں شامل ہیں۔

اکمل صاحب کی بات پر ہمارا ذہن اپنے کلاس فیلوز کی طرف چلا گیا۔ کیسے کیسے روشن چہرے تھے، وقت کی بے رحم لہروں نے جنہیں ہماری نظروں سے اوجھل کر دیا۔ اکمل صاحب کے واپسی کی اجازت طلب کرنے پر خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ ان کو دروازے تک چھوڑنے کے لئے جاتے ہوئے ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا عین حیدر صاحب اوچ شریف کے رہائشی ہیں؟ وہ یک دم رک گئے اور کہنے لگے کہ ہائی سکول میں آپ کس دور میں پڑھتے رہے؟

” 1995 ء سے 2000 ء کے دور میں“۔

”کیا آپ نے ہائی سکول میں زمانہ طالب علمی کے دوران ماسٹر منور نعیم صاحب سے اکتساب فیض حاصل کیا تھا؟ “ انہوں نے سوال کیا۔

”جی ہاں! منور نعیم صاحب ہمیں ریاضی پڑھاتے رہے“۔ ہم نے جواب دیا۔

”تو یہ عین حیدر انہی منور نعیم صاحب کے صاحب زادے ہیں، ان کے بارے میں باقی تفصیلات کتاب پڑھ کر آپ کو حاصل ہو جائیں گی۔ یہ کہہ کر اکمل صاحب یہ جا وہ جا۔

شاید منور نعیم صاحب کی نسبت کی کارفرمائی تھی یا اتنے عرصے بعد ان کی خیال آرائی کہ ”کتاب سرائے“ سے گھر واپسی پر ہم اپنے فضیلت مآب ”استاد زادے“ کی ”عین نوازش“ ساتھ لیتے آئے۔ اس رات سوتے وقت ہم نے ”انواسی“ کو رکھ کر ”عین نوازش“ اٹھا لی اور پھر اس کے مطالعہ میں ایسے کھوئے کہ سمے بیت جانے کا پتہ ہی نہ چلا۔

”عین نوازش“ دراصل سماجی روابط کی ویب سائٹس کے لئے لکھے گئے 50 فکاہیہ مضامین کا خوبصورت مجموعہ انتخاب ہے۔ جسے اس کتاب کے مصنف یعنی منور نعیم صاحب کے صاحبزادے فیصل نعیم کرمانی نے ”عین حیدر“ کے قلمی نام سے تحریر کیا ہے۔ ان مضامین میں پیش کیے گئے حالات و واقعات کا مرکزی کردار بھی ”عین حیدر“ ہے جو ایک میٹرک فیل اور کھلنڈرا سا بے روز گار نوجوان ہے۔ جبکہ دیگر کرداروں میں سیفو، شوکی اور مٹھو شاہ شامل ہیں جو عین حیدر کے ہم نوالہ و ہم پیالہ دوست اور اسی کی طرح معاشرے پر بوجھ ہیں۔

ان شگفتہ و برجستہ کرداروں کی اچھی بات یہ ہے کہ وہ شرارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ معاشرے میں پھیلی سماجی برائیوں کو بھی نظر میں رکھتے ہیں اور اپنے تئیں ان کی بیخ کنی کر کے سماجی ذمہ داریوں سے عہدہ بر ہونے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ ان کرداروں کے ذریعے معاشرے کے مصائب، مسائل، نا انصافیوں، ناہمواریوں، محرومیوں، استیصال، اضمحلال اور ابتذال کو ”عین نوازش“ میں اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ طبیعت مکدر ہونے کی بجائے معطر ہو کر رہ جاتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں جہاں ریا کاری، منافقت، قبضہ گیری، چمچہ گیری، جھوٹ، نا انصافی، ظلم، لاقانونیت، رشوت، عصبیت، کفرسازی، منشیات، گدی نشینی اور جہالت سے لے کر گندہ پانی، جعلی دودھ، غلیظ خوراک، گدھوں کے گو شت کی ترسیل تک ”ہاتھ کی صفائی“ کوہی مکمل ایمان کا درجہ حاصل ہے۔ زندگی کے تمام شعبے اور تمام پہلو عین حیدر کی شگفتہ نگاری میں اس طرح یک جان ہو گئے ہیں جیسے روشنی کے سات رنگ یک رنگی سنہری دھوپ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ مصنف نے اپنے مزاح میں طنز کی تلخی شامل کر کے اسے بامقصد اور معنی خیز بنایا ہے۔

”عین نوازش“ کو سامنے رکھتے ہوئے اگر مزاح نگاری کی روایت کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اردو کے مزاحیہ ادب نے وقت کی آواز بن کر ہمیشہ ہی سچا کردار ادا کیا ہے۔ ہر عہد پر ”غالب“ مرزا اسداللہ غالب، فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، مجید لاہوری، کرنل محمد خان، شفیق الرحمن، ابن انشاء، عطاء الحق قاسمی، ڈاکٹر یونس بٹ اور گل نوخیزاختر وغیرہ کی تخلیقات میں معاشرے کی ناہمواریوں کا پہلو کبھی نظر انداز نہیں ہوا۔ اس صف میں نیا نام ”عین حیدر“ کا ہے جن کی ”عین نوازش“ کو اردو مزاح کی پیش قدمی کی روشن علامت قرار دیا جا سکتا ہے۔

مزاح نگاری میں عین حیدر تمام گر آزماتے ہیں مثلا لطائف، پرلطف حکایات، تاریخی حوالے، تجاہل عارفانہ، ذومعنویت، خاکساری، کم مائیگی، کنایہ، شوخ بیانی، رعایت لفظی اور برجستگی، اگر کوئی چیز ان کے ہاں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی تو وہ ہے پھکڑ پن۔ ان کے ہاں موضوعاتی مزاح بھی ملتا ہے، مکالماتی بھی اور کیفیات بھی۔ چنانچہ ”عین نوازش“ کے مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اپنے قلم کے کمال سے انہوں نے جہاں ہر قسم کے مزاح کا حق ادا کر دیا ہے، وہاں اپنی اس پہلی کتاب میں اسلوب کی تازگی اور مواد کی قدرت کی بدولت قاری اور نقاد کے دلوں میں بھی گھر کر لیا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ وطن عزیز میں جہاں حکیم محمد سعید، صلاح الدین یوسف، حسن ناصر، غلام حیدر وائیں، سلمان تاثیر، مشعل خان اور قطب رند جیسے لوگ تاریک راہوں میں مر جایا کرتے ہیں۔ جہاں ساحر لدھیانوی، جوگندر ناتھ منڈل، ڈاکٹر حمیداللہ، قرۃ العین حیدر، استاد بڑے غلام علی خان، جگن ناتھ آزاد، ڈاکٹر عبدالسلام اور عاطف میاں جیسے لوگ ملک چھوڑ جایا کرتے ہیں۔ جہاں جی ایم سیداور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے لوگوں کو نظربند رکھا جاتا ہے۔

جہاں فیض احمد فیض، سید سجاد ظہیر، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، ولی خان، حسن ناصر، نذیر عباسی، حمید بلوچ، نواب نوروز خان، باچا خان، اکبر بگٹی جیسے لوگوں کو ”غدار“ سمجھا جاتا ہے۔ جہاں سید سبط حسن، علی عباس جلالپوری، شوکت صدیقی، سعادت حسن منٹو، ساغر صدیقی، حبیب جالب، شہاب دہلوی، استاد حسین بخش ڈھڈی، جاذب انصاری، پٹھانے خان، ساغر نقوی، ڈاکٹر اخترتاتاری، خاک اوچوی، جانباز جتوئی اور منظور حسین منظر اوچوی جیسے فلسفی، شاعر اور آرٹسٹ کسمپرسی، خستہ حالی اور ”قحط دوا“ کے ہاتھوں خاموشی سے موت کے گھاٹیوں میں اتر جاتے ہیں اور جہاں سلمیٰ فیصل، تاج محمد راجپوت، ہمراز سیال اوچوی، موسیٰ سعید اوراستاد سخاوت حسین خان جیسے نابغہ روزگارگم نامی کے صحرا میں جیتے جی مر جاتے ہیں۔ ہمارے لئے افتخار، وقار اور اعتبار کی بات ہے کہ دل زدگاں کے ان قافلوں میں عین حیدر جیسا ایک خوبصورت شخص اپنی پوری تمکنت کے ساتھ ہم جیسے دل سوختگاں کے پژمردہ چہروں پر اپنی شگفتہ تحاریر سے مسکراہٹیں بکھیر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments