سکھ گرو حضرات پر مظالم: جیوری سے استدعا ہے اورنگ زیب کو بری کر دیا جائے


خاکسار نے گذشتہ کالم اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں کچھ باتیں عرض کی تھیں۔ آج ایک اور پہلو کے بارے میں کچھ حقائق پیش کروں گا۔ جب بھی میں بھارت کے پنجاب گیا تو اتنی آؤ بھگت کے باوجود ایک شکوہ ہے جو اکثر سننے کو ملتا ہے اور وہ یہ کہ اورنگ زیب عالمگیر نے مذہب کے نام پر ہمارے مقدس گروؤں پر بہت ظلم کیے۔ گرو تیغ بہادر صاحب کو قتل کردیا گیا اور گرو گوبند سنگھ صاحب کے سارے بیٹے قتل کرا دیے۔

حالانکہ خود سکھ احباب کی لکھی ہوئی کتب میں درج ہے کہ بابر، ہمایوں اور اکبر سکھ گرو صاحبان کی تعظیم کرتے رہے۔ انہیں قیمتی تحفے پیش کرتے اور کئی مرتبہ جاگیر کی پیشکش بھی کی۔ امرتسر کا گولڈن ٹمپل اکبر کی دی ہوئی زمین پر بنا ہوا ہے۔ ہر قوم اور مذہب کی کتب میں متضاد تفصیلات ملیں گی۔ لیکن انصاف کا تقاضا ہے کہ حقائق جاننے کے لئے کسی غیر جانبدار مورخ کی کتاب چنی جائے۔ میں نے اس غرض کے لئے جے ڈی کنگھم کی کتاب ہسٹری آف سکھس کا انتخاب کیا ہے۔ یہ کتاب 1849 میں مکمل ہو چکی تھی۔ اور مصنف نے پنجاب پر سکھوں کی حکومت کے دوران سکھ احباب کے درمیان کئی سال رہ کر تحقیق کی تھی۔

پہلی حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ مغل بادشاہوں کا سکھ مذہب کے مقدس گرو صاحبان سے پہلا اختلاف اورنگ زیب کے زمانے میں نہیں بلکہ جہانگیر کے زمانے میں ہوا تھا۔ جہانگیر کے دور کے آغاز میں ہی اُس کے بڑے بیٹے خسرو نے بغاوت کر دی اورلاہور پر قبضہ کر لیا۔ اس مرحلہ پر ایک گروہ کی ہمدردیاں خسرو کے ساتھ ہو گئیں۔ اُن میں سے ایک سکھ گرو ارجن جی بھی تھے۔ انہوں نے اس کو دعا دی [اور بعض کتب کے مطابق نیک شگون کے طور پر اس کے ماتھے پر زعفران کا قشقہ کھینچا اور اسے مالی مدد بھی دی]۔

بہرحال جہانگیر نے لاہور کا محاصرہ کر لیا اور خسرو کو شکست ہوئی۔ جہانگیر نے پہلے اپنے بیٹے کو اندھا کیا اور پھر اسے قتل کر دیا گیا۔ اس کے حامیوں کو جن کی زیادہ تر تعداد مسلمانوں کی تھی۔ ، دہلی کی سڑکوں پر خسرو کی نظروں کے سامنے ظالمانہ طور پر قتل کیا گیا۔ لاہور کے ایک ہندو عہدیدار چندو لال کا گرو ارجن جی سے ذاتی جھگڑا تھا۔ اس نے جہانگیر سے اُن کی شکایت کی تو اس بغاوت کی پاداش میں انہیں بھاری جرمانہ کیا گیا اور قلعہ میں قید کر دیا گیا۔

روایت ہے کہ وہ راوی میں نہاتے ہوئے غائب ہو گئے۔ جہانگیر نے ایک قلعہ میں حضرت مجدد الف ثانی کو بھی گرفتار رکھا تھا جو اُن صدیوں میں سب سے نمایاں مسلمان بزرگ تھے۔ یہ خیال کہ جہانگیر اسلام کی ترویج اور سر بلندی کے لئے یہ سب کچھ کر رہا تھا، کم از کم اس عاجز کے نزدیک کوئی سنجیدہ خیال نہیں کہلا سکتا۔ یہ سب سیاسی اقدامات تھے اور اُس بغاوت میں شریک مسلمانوں کے خلاف بھی کیے گئے تھے۔

جس کا ثبوت یہ ہے کہ اگلے گرو یعنی گرو ہر بند سنگھ جی جہانگیر بادشاہ کے دربار سے منسلک ہو گئے۔ اور اس کی فوج میں بھی شامل تھے۔ اُن پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے جو تنخواہ فوجیوں میں تقسیم کرنی تھی نہیں کی، ان کو بھی کچھ عرصہ گوالیار قلعے میں قید کیا گیا لیکن بعد میں جہانگیر نے انہیں رہا کر دیا۔

اختصار کے لئے اس کے بعد صرف اورنگ زیب کے زمانے کا ذکر کرتے ہیں۔ جب اورنگ زیب کی اپنے بھائیوں سے خانہ جنگی ہوئی تو اُس وقت گرو ہر رائے جی سکھوں کے مقدس گرو تھے۔ انہوں نے اور ان کی فوج نے اس خانہ جنگی میں داراشکوہ کا ساتھ دیا۔ جب داراشکوہ کو شکست ہو گئی تو اورنگزیب نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ جب گرو ہر رائے جی کا انتقال ہوا تو دو بیٹوں کے درمیان جانشینی کے مسئلہ پر سکھ احباب میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا۔

مسئلہ یہ تھا کہ اب فیصلہ کون کرے گا؟ ذرا تصور کریں کہ سکھ احباب نے خود اورنگ زیب سے فیصلہ کرنے کی درخواست کی۔ یہ صرف اس صورت میں ہو سکتا تھا جب انہیں اورنگ زیب کی دیانت پر مکمل اعتماد ہو۔ اورنگ زیب نے ہر کشن کے حق میں فیصلہ دیا۔ ان کے انتقال کے بعد گرو تیغ بہادر گرو مقرر ہوئے۔ انہوں نے ہانسی اور ستلج کے درمیان ڈیرے ڈالے۔ اور ایک مسلمان شخصیت آدم حافظ کے ساتھ مل کر اس علاقے میں اس طرح لوٹ مار کی کہ صرف امراء کو نشانہ بناتے۔ علاقے کا امن ختم ہوگیا۔ شاہی فوجوں نے ان کی طرف کوچ کیا اور جنگ میں آدم حافظ اور گرو تیغ بہادر کی افواج کو شکست ہوئی۔ آدم حافظ کو جلا وطن کیا گیا اور گرو تیغ بہادر کو بھرے دربار میں سزائے موت دی گئی۔

گرو تیغ بہادر کے بعد ان کے بیٹے گرو گوبند سنگھ جی سکھوں کے مذہبی راہنما بنے۔ گرو گوبند سنگھ جی نے بیس سال کوئی فوجی مہم جوئی نہیں کی تو اورنگ زیب نے بھی ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔ لیکن اس دوران گرو گوبند سنگھ جی اپنے مریدوں کی فوجی تربیت کر تے رہے۔ پھر مقامی رئیسوں اور راجوں سے ان کی جنگیں شروع ہو گئیں۔ ان میں ہندو راجے بھی شامل تھے۔ اس علاقے میں جس نے انہیں خراج ادا کرنے سے انکار کیا اس سے جنگ کی گئی اور کئی حکمرانوں کو شکست ہو گئی۔

یہ سب کچھ اورنگ زیب کی سلطنت میں ہو رہا تھا۔ 1701 میں اورنگ زیب نے لاہور اور سرہند کے گورنروں کو گرو گوبند سنگھ کے خلاف فوج کشی کا حکم دیا۔ گرو جی اور ان کے بیٹوں نے بہت بہادری دکھائی مگر ان کے ارد گرد موجود اکثر سکھ آخر میں فرار ہو گئے اور گرو جی نے ان پر لعنت بھی کی۔ آخر ان کے سارے بیٹے ان جنگوں میں بہادری سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ اور جمع شدہ قوت ختم ہوگئی۔ انہوں نے جنگ ختم کر کے ہانسی اور فیروز پور کے درمیان دم دما کے مقام پر خاموشی سے سکونت اختیار کر لی لیکن گرو گوبند صاحب اور ان کے ساتھیوں نے اپنی مذہبی سرگرمیاں پوری طرح جاری رکھیں۔

جب اورنگ زیب نے دیکھا کہ ان کی بغاوت ختم ہو چکی ہے تو ان پر مزید فوج کشی ترک کر دی گئی۔ اس کے بعد اورنگ زیب نے ان کی طرف خط بھجوائے کہ وہ دربار میں آئیں۔ پہلے گرو گوبند سنگھ جی انکار کرتے رہے۔ آخر وہ اورنگ زیب سے ملاقات کے لئے تیار ہوئے لیکن اورنگ زیب کا انتقال ہو گیا۔ حسب ِ دستور اورنگ زیب کے بیٹوں کے درمیان تخت کے لئے جنگ شروع ہوئی۔ گرو گوبند سنگھ اورنگ زیب کے بیٹے بہادر شاہ کی فوج میں شامل ہو گئے اور وہ تخت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور گرو جی سے بہت عزت و اکرام سے پیش آیا۔

یہ تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ اورنگ زیب نے جب سکھ گرو حضرات کے خلاف فوج کشی کی تو وہ اس کے نزدیک ’بغاوت‘ کے جرم کی وجہ سے تھی۔ اور آج بھی کسی حکومت میں کوئی گروہ ایسی کارروائیاں کرے تو اُس پر فوج کشی ہو گی۔ جس طرح اندرا گاندھی صاحبہ کے عہد میں گولڈن ٹمپل پر حملہ کیا گیا تھا حالانکہ اُس وقت ایک سکھ بھارت کے صدر تھے۔ لیکن اس کے باوجود صدیوں سے اورنگ زیب پر یہ الزام لگ رہا ہے کہ اُس نے سکھ مذہب کو ختم کرنے کے لئے یہ حملے کیے تھے۔ ایسے مقدمات تاریخ کی عدالت میں پیش کیے جاتے ہیں۔ تاریخ کی جیوری سے میری استدعا ہے کہ استغاثہ تین صدیوں سے الزامات ثابت نہیں کر سکا ہے لہذاٰ اورنگ زیب عالمگیر کو باعزت طور پر بری کر دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments