ششی تھرور کی مہربانی


بہاؤ کے خلاف تیرنے والے بڑے لوگ ہوتے ہیں لیکن جو لوگ ٹریفک کے بہاؤ کے خلاف چلتے ہیں، زیادہ بڑے ہوتے ہیں کیونکہ یہ لوگ آسانی کے ساتھ کسی کے ہاتھ پاؤں توڑ سکتے ہیں، دل چاہے تو جان بھی لے سکتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر خوبی یہ ہے کہ اپنی جان کی فکر بھی انھیں کچھ کم ہی ہوتی ہے چونکہ یہ بڑے لوگ ہیں، اس لیے انھیں مفت کے وکیل بھی مل جاتے ہیں۔ کراچی والے ان ہی بانکوں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کہنا ان فرزانوں کا یہ ہے کہ ٹریفک قوانین کے برعکس بہاؤ کے خلاف گاڑی چلانے والوں کا چالان ظلم عظیم ہے۔ اس منطق کے حق میں آواز اٹھانے والوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو ایسے لوگوں، خاص طور پر نوجوانوں کا بیرونِ ملک جانا اور تعلیمی اداروں میں وظیفے پر تعلیم حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان میں ان دنوں بحث کے موضوعات ایسے ہوتے ہیں۔

چلیے سیاست دانوں کو تو معاف کر دیجیے، ان کے لیے ضروری ہے کہ کوئی ایسی بات کہہ دی جائے جسے توجہ مل سکے اور اس کے صدقے ووٹ لیکن اس دیس کے دانش وروں کو کیا ہوا ہے؟ کیا استاذ الا ساتذہ پروفیسر شریف المجاہد دنیا سے اُٹھ گئے تو، ان کے ساتھ دانش بھی گئیَ؟ کیسی عجب بات ہے کہ ہم ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کے لیے سختی کو بھی علاقائی تناظر میں دیکھتے ہیں کہ ہاں ہاں، اوّل تو اس قانون شکنی پر پابندی کا سوچا ہی کیوں گیا اور اگر سوچا ہی گیا تو کراچی کے لیے کیوں سوچا گیا، اس شہر کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں؟ کاش کوئی ایسا بھی سوچتا کہ کراچی میں ایسا کیا اچھا کیا، اب یہ قانون پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کو دیکھیے، ان کے ہاں کیسے کیسے موضوعات زیر بحث ہیں؟ دور جانے کی ضرورت نہیں، یہ سمجھنے کے لیے بھارت ہی کافی ہے۔

ہمیں توقع تھی کہ نریندر مودی ایک بار پھر اقتدار میں آ گیا تو سارے دکھ دور ہو جائیں گے اور کشمیر میں تو راوی چین ہی چین ہی لکھے گا لیکن مودی تو بنا بنایا راکشش تھا، اس نے قدم جماتے ہی وہی کچھ کیا جس کے لیے اُس کے تنگ نظر بزرگ صدیوں سے پیچ و تاب کھایا کرتے تھے۔ کشمیر کی گردن پر چھری اس نے پھیر دی اور شہریت کے قانون کے تحت اس نے لمحے بھر میں کروڑوں مسلمانوں کو اپنے گھروں میں ہی اجنبی بنا دیا۔ اب یہ اجنبی شاہین باغ میں بیٹھے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہیں۔ اس ظلم کے خلاف بھارت ہی سے ایک منفرد آواز بلند ہوئی اور وہ بھی اپنی تنگ نظری کی وجہ سے تقسیم برصغیر کو یقینی بنا دینے والی کانگریس کی صفوں سے۔ ششی تھرور نے ہمت کی اور کہا کہ مودی کا قانونِ شہریت تو صاف جناحؒ کی کامیابی ہے۔ اب بھارت میں اس بیان پر لے دے ہو رہی ہے اور جنھیں اپنے نظریے کی سرخروئی پر شاداں ہونا چاہیے تھا، وہ فروعات میں الجھ رہے ہیں۔

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ کانگریس کے پڑھے لکھے اور نسبتاً نوجوان سیاست دان کے سخن سے ثابت ہو گیا کہ پاکستان ایک ایسا ہی جادو ہے اور قائد اعظمؒ نیز اقبالؒ اتنے بڑے لوگ تھے جن کی عظمت کو اُس عہد کے کوتاہ قامت سیاست داں اور نام نہاد مفکرین سمجھ ہی نہ پائے۔ آج اسی نظریے کی صداقت کی گواہی اس نظریے کے مخالفین صرف اپنی زبان سے نہیں، عمل سے بھی دے رہے ہیں۔ صورت حال جب یوں پلٹا کھانے لگے اور کعبے کو صنم خانے سے پاسباں ملنے لگیں، اس گھڑی خود اہلِ معاملہ کے کرنے کا کام کیا یہی ہے کہ وہ پانی پینے پلانے اور گھوڑا آگے بڑھانے بلکہ الٹا دوڑانے پر جھگڑا کیا کریں؟

ہرگز نہیں، ِ کیوں یہی وقت ہوتا ہے جب دانشمند قومیں علمی مباحثے برپا کر کے تاریخ کے قرض چکاتی ہیں اور اپنی صفوں کو علمی، فکری، تاریخی نیز عملی اعتبار سے آراستہ کرتی ہیں۔ ’’پاکستان نوشتۂ فطرت ہے‘‘۔ قائد اعظمؒ نے یہ فرمایا اور ایسا ہو گیا لیکن یہ ایک بدقسمتی تھی کہ وہ لوگ جنھیں اقبالؒ کے نظریے اور قائد اعظمؒ کی دور اندیشی نے شکست دی، وہ آنے والے برسوں میں بھی اپنی باطل فکر کا پرچار کرتے رہے جس کے زہریلے اثرات کا سامنا ہمیں آج بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

یہ ایک اور بدقسمتی ہے کہ ایک ایسے عہد میں جب دنیا اقتصادی راہداری اور ایک خطہ ایک شاہراہ جیسے منصبوبوں کے ذریعے ایک نئی دنیا کے تصور کو حقیقت بنانے کے لیے پرعزم ہے اور اس میں پاکستان کا قائدانہ کردار تسلیم کر رہی ہے، ہمارے ہاں آج بھی کچھ لوگ پاکستان کے وجود، اس کے تصور اور بانیان پاکستان کے فہم ہی نہیں، ان کی دیانت اور اثابت پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔ یہ قصہ اگر بانیان پاکستان کے ہم عصر مخالفین کا ہوتا تو کوئی فرق نہ پڑتا ۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ یہ مسموم پروپیگنڈا اب بھی جاری ہے اور نوجوانوں کے ذہن اس سے پراگندہ کیے جا رہے ہیں۔ اس تناظر میں یہ بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ہمارے اہل دانش ان موضوعات پر نہایت جامع اور بھرپور مکالمہ شروع کریں تا کہ نئی نسل اس ملک کے خلاف سرگرم عمل عناصر کے پروپیگنڈے کے منفی اثرات سے بچ کر نئی دنیا کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکے۔

قائد اعظمؒ اکادمی، اکادمی ادبیات اور ان جیسے علمی اور فکری ادارے ایسے ہی مقاصد کے لیے ہی قائم کیے جاتے ہیں لیکن یہ اور ان ہی کی طرح کے دیگر کئی ادارے بدقسمتی سے گزشتہ کافی عرصے سے غیر فعال اور قیادت سے محروم چلے آتے ہیں۔ گزشتہ دنوں اکادمی ادبیات سے بابائے قوم کی سال گرہ کے موقع پر کچھ سرگرمیوں کی خبریں آئی تھیں لیکن ان سرمیوںکا بھرم محترم جبار مرزا نے یہ کہہ کر کھول دیا کہ یہ انتہائی بچگانہ قسم کے یعنی Ill Conceived  پروگرام تھے  جن میں بات کر نے کے لیے نہ مہمان پورے تھے اور نہ کوئی یہاں کہی گئی بات کو سننے والا تھا، گویا کاغذ کا پیٹ بھر لیا گیا تھا۔

اب انعام اللہ خان صاحب نے اس وزارت میں سیکریٹری کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالی ہیں، ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اس جانب توجہ دیں گے لیکن یہ صرف ان ہی کی ذمے داری نہیں ہے، پوری قوم کی ذمے داری ہے، خاص طور پر اس قوم کے سوچنے سمجھنے والوں کی کہ وہ پاکستان، پاکستانیت اور اس کے نظریے کی وضاحت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ نریندر مودی کے احمقانہ اقدامات نیز پڑھے لکھے ششی تھرور کی گفتگو نے ہمیں اس کا ایک اور نادر موقع فراہم کر دیا ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments