کیا طلاق یافتہ خواتین یا اکیلی ماؤں کو خوش ہونے کا حق نہیں؟


کچھ عرصہ پیشتر بی بی سی اردو کے لئے ایک صحافتی اسائنمنٹ کے سلسلے میں ایک غیر معمولی کامیاب نوجوان نیپالی رائیٹر اور صحافی سے انٹرویو کا موقعہ ملا۔ اس نے مجھے بتایا کہ میری پیدائش اور پرورش کھٹمنڈو سے پانچ سو کلو میٹر دوراندھیری نامی گاؤں میں ہوئی اور جب میں دس جماعتیں پڑھ کر کھٹمنڈو پہنچا تو مجھے انگریزی میں اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ اس کا کہنا تھا کہ ”میرا باپ نہیں تھا میری پرورش میری ماں نے میری نانی کے گھر کی۔

یہ صحافی بہت چھوٹی عمر میں نیپال کے سب سے کثیر الاشاعت اخبار کا ایڈیٹر رہ چکا ہے اور اردو سمیت کئی زبانیں جانتا ہے۔ امریکا میں ایک سالہ فیلوشپ کے دوران امریکی سیاست کی تاریخ کے ایک بہت بڑے اسکینڈل واٹر گیٹ اسکینڈل کی رپورٹنگ کرنے اور اسے منظر عام پر لانے والے صحافی باب ود ورڈ سے بھی مل چکا تھا اور اپنی بروڈ کاسٹر بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ایک کامیاب زندگی گزار رہا ہے اور فکشن اور نان فکشن کی کئی کتابوں کا مصنف بھی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں یہ کوئی منفرد مثالیں نہیں ہیں۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے ہاں چونکہ تحقیق کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے کہ ہمارے سینکڑوں سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے سماجی علوم کے کسی شعبے میں شاید ہی ایسی کوئی تحقیق ہوئی ہو کہ باپ یا والدین کے بغیر پلنے والے کتنے بچے اپنی شخصیت میں کسی کمی کا شکار ہیں، یا کتنے اپنی عملی زندگی میں ناکام اور کتنے کامیاب ہیں۔ ہم صرف سنی سنائی باتیں دہراتے رہتے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ ایسے موضوعات پر کثیر الجہتی تحقیقات ہوں تاکہ محض سنی سنائی باتوں پر منفی اسٹیریو ٹائپس کے خلاف جہاد کیا جا سکے۔

اس سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہماری intelligentsia یعنی دانشور طبقہ جس میں مذہبی اور سیکولر مدرسین، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور فلم میکرز سب آ جاتے ہیں یعنی وہ طبقات جو رائے عامہ کی تشکیل کرتے ہیں بھی کبھی کبھی حقیقی زندگی کے کرداروں کو معروضی انداز میں مطالعہ کیے بغیر اپنی ذاتی رائے کی بنیاد پر ایسے اسٹیریو ٹائپس یعنی روایتی گھسی پٹی باتیں یا نظریات کو دہراتے رہتے ہیں جو بچپن سے ہمارے ذہنوں میں مذہبی صحیفوں کی طرح بیٹھی ہوئی ہیں یا کم از کم ہم انھیں مذہبی صحیفوں کا درجہ دیتے ہیں۔ حالانکہ نان فکشن ادیب ہو یا افسانہ ناول اور ڈرامہ لکھنے والے کا قلم ایک امانت ہے اور اسے استعمال سے پہلے اسے معاشرتی اسٹیریو ٹائپس سے بلند ہو کر اپنے موضوع پر کما حقہ ریسرچ کرنی چاہیے۔ اور سچ کو جاننے کے لئے محنت کر کہ روایتی باتوں کو حقیقت سے الگ کر کہ لکھنا چاہیے۔

اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں آپ کو بہت سی ایسی زندہ مثالیں ملیں گی کہ طلاق یافتہ یا بیوہ خواتین نے خود تکلیفیں اٹھا کر اپنے بچوں کی بہترین تربیت کیں اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ ایسی خواتین ہمارے لئے قابل عزت ہونی چاہئیں نہ کہ قابل ترس یا طنز۔

ان خواتین اور بچوں کو یہ احساس دلانا کہ وہ کچھ بھی کر لیں معاشرہ انہیں مکمل انسان کی نظر سے نہیں دیکھ گاکس قدر جہالت اور تنگ نظری پر مبنی رویہ ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ رویہ ہم میں سے انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اپناتے ہیں کہ ہمارے ہاں ڈگری حاصل کرنے کے لئے تعلیم کی تو اہمیت ہے لیکن ایسے بہت سے معاملات میں معاشرہ تربیت اور اقدار کے تصورات نہیں رکھتا۔

اکیلی ماؤں یا ان کے بچوں کو ان کی محرومی کا احساس دلانا

ان یتیم بچوں کے لئے ہم کچھ اور کر سکیں یا نہ کر سکیں اپنے ایک آدھ جملے یا ترس بھری نگاہوں سے انہیں ساری زندگی کے لئے احساس محرومی میں ضرور مبتلا کر دیتے ہیں۔ پھر یاد دلا دیں کہ ہم اس نبی ص کی امت ہے جو خود یتیم ہی نہیں بہت چھوٹی عمر میں ماں اور باپ دونوں کی شفقت سے محروم ہو گیا تھا۔ اوراس کی بنیادی دعوت اور عمل پسے ہوئے طبقات کو معاشرے میں با عزت مقام دلوانے کی جدو جہد تھا۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کے خلاف ان پسوں ہوئے طبقات کو اپنی زبان اور رویوں سے مزید تکلیف میں مبتلا کرتے ہیں۔

کینیڈا منتقل ہونے کے کچھ عرصے بعد مجھے پیرنٹنگ یعنی اولاد کی تربیت کے حوالے سے ایک ورک شاپ اٹینڈ کرنے کا موقعہ ملا جس میں کثیر تعداد میں مختلف مذاھب اور قوموں سے تعلق رکھنے والے والدین شریک تھے۔ بحث کے دوران ایک کیتھولک حضرت کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر کے سربراہ ہیں اور گھر کا سربراہ ہمیشہ ایک مرد ہوتا ہے۔ یوگنڈا سے تعلق رکھنے والی با اعتماد ورکشاپ کنڈکٹ کرنے والی خاتون نے انہیں اسی وقت روک دیا۔ خاتون کا موقف تھا کہ یہاں ایسی مائیں ہو سکتی ہیں جو کسی وجہ سے اپنے بچوں کو اکیلے پال رہی ہیں۔ ایسی بات کر کہ ہم انہیں نظر انداز بھی کر رہے ہیں اور ان کی دل آزاری کا با عث بھی بن رہے ہیں۔ تعجب کی بات ہے کہ ہم اس باریک نکتے کو سمجھنے میں کیوں ناکام ہیں۔

چند سالوں پیشتر ٹی وی پر ایک مقبول دینی مقرر نے خواتین کی ڈرائیونگ کو حرام قرار دیا تو میزبان کا کہنا تھا وہ خواتین کیا کریں جن کے گھر کسی وجہ سے کوئی محرم نہیں تو گلوکاری چھوڑ کر دین کی طرف راغب ہونے والے دینی مقرر کا کہنا تھا کہ ہم استثنیٰ کی بات کیوں کرتے ہیں گویا معاشرتی اصول تشکیل کرتے ہوئے ہمیں استثنیٰ کو سرے سے نظر انداز کر دینا چاہیے۔ کیا میرے سرکارصلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی مسئلے کو استثنیٰ قرار دے کر نظر انداز کیا؟

نہیں انھوں نے تو اس بچی کو بھی فوراً تنسیخ نکاح کی پیش کش کی جس نے کہا کہ میرے باپ نے میرا نکاح بغیر مجھ سے پوچھے کر دیا ہے۔ یہ نہیں سمجھایا کہ اگر کر دیا ہے تو تم اسے آخری سانس تک نبھانے کی کوشش کرو کیونکہ ماں باپ اپنے بچے کا بھلا ہی سوچتے ہیں۔

میرے سرکارصلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان صحابیہ سے بھی مہر میں دیے ہوئے باغ کی واپسی کے علاوہ کوئی اور سوال نہیں کیا جنہوں نے کہا کہ انہیں اپنے شوہر کے کردار اور امن میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی مگر انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر وہ ان کے ساتھ رہیں تو اللہ کی نا شکری ہو جائیں گی۔

اسی طرح حضرت عائشہ کی آزاد کردہ لونڈی حضرت بریرہ نے جب آزادی کے بعد اپنے شوہر سے علیحدگی کی خواہش کی تو ان کی شوہر کے دل ٹوٹنے کے سبب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرا کو سمجھانا چاہا تو اس پر حضرت بریرا کا سوال تھا کہ یہ حکم ہے یا مشورہ۔ ان کے استفسار پر انحضرت نے جواب دیا کہ مشورہ تو انھوں نے ساتھ رہنے سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ پھر مجھے ان کی حجت نہیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فیصلے کو قبول کیا۔ یاد رہے خود حضرت بریرہ کا شمار بھی جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔ لیکن یہ وہ معاشرہ تھا جہاں ایک آزاد کردہ لونڈی بھی اپنے حقوق یا یوں کہئے کہ حقوق نسواں سے واضح طور پر اگاہ تھی۔

یاد رہے اس مضمون اور مثال کا مقصد شادی کے بغیر جنسی تعلقات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو قانونی حیثیت دلانا نہیں لیکن ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو ہمیں بارہا ایسی مائیں نظر آئیں گی جو بیوگی یا طلاق یا کبھی کبھی شوہر کی دوسری شادی کے بعد پہلی بیوی اور بچوں کی کفالت سے بے نیاز ہونے کی وجہ سے اکیلے اپنے بچوں کو پال رہی ہیں۔

زیادہ طلاقوں کا سبب

پچھلے دنوں کثرت سے ایسی فیس بک پوسٹیں اور مضامین پڑھنے کو ملے جس میں سوا کیا گیا تھا کہ آج کل طلاقیں اتنی زیادہ کیوں ہو رہی ہیں۔ اس سوال میں ایک روایتی اسٹیریو ٹیپیکل جواب چھپا ہوتا ہے جو بعد میں واضح کیا جاتا ہے کیونکہ آج کل لڑکیاں ملازمت کر کہ مالی خود مختاری حاصل کر رہی ہیں اس لئے طلاقیں بڑھ رہے ہیں۔ یعنی ہم اپنے منہ سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عورت صرف مال کی وجہ سے ہی مرد کے ساتھ ہوئی ہے۔ اسے یہ مجبوری نہ ہو تو اسے مرد کی ضرورت نہیں؟ دوسرے لفظوں میں حل ہمارے نزدیک یہ ہے کہ عورت کو مالی خود مختاری کسی صورت نہیں ملنی چاہیے ورنہ اس کے باغی ہونے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں جو خاندانی نظام ٹوٹنے کا باعث ہوں گے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

تزئین حسن

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

تزئین حسن

تزئین حسن نے ہارورڈ یونیورسٹی امریکا سے حال ہی میں صحافت میں ماسٹرز مکمل کیا ہے اور واشنگٹن کے ایک انسانی حقوق کے ادارے کے ساتھ بہ حیثیت محقق وابستہ ہیں۔ ان کے مضامین جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور نارتھ امریکا میں شائع ہوتے رہے ہیں۔

tazeen-hasan has 6 posts and counting.See all posts by tazeen-hasan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments