کیا طلاق یافتہ خواتین یا اکیلی ماؤں کو خوش ہونے کا حق نہیں؟


کچھ عرصہ قبل مغرب میں مقیم کراچی کے ایک خوش حال اور تعلیم یافتہ گھرانے کی دیندار خاتون نے مجھے اپنی بڑی بہن رمشا (نام تبدیل کر دیا گیا ہے ) کی زندگی کے حوالے سے ایک انتہائی دلخراش کہانی سنائی جس نے خود ان کی اور ان کے گھر والوں کی زندگی پر تکلیف دہ اثرات مرتب کیے تھے۔ ان کے بیان کے مطابق ان کی تعلیم یافتہ رمشا کی شادی سرائیکی پٹی میں مقیم ماموں کے غنڈہ صفت بیٹے سے لڑکی کے احتجاج اور مخالفت کے باوجود اس لئے کی گئی کہ والدہ اپنے اکلوتے بھائی کی محبت کو کھونا نہیں چاہتی تھیں۔

شادی کی پہلی رات اس کے شوہر نے اسے اپنی پہلی شادی کے بارے میں بتایا اور فوراً ہی مار پیٹ شروع کر دی۔ رمشا پہلی مرتبہ گھر آئی تو واپس جانے پر راضی نہیں تھی، لیکن ماموں کے اصرار پر کہ وہ بیٹے کو سمجھائیں گے اور آئندہ ایسا نہیں ہو گا گھر والوں نے اسے واپس بھجوا دیا۔ رمشا واپس گئی اور ایک بیٹے کو جنم دیا اور اگلے کچھ سالوں میں اس کے ساتھ بد سلوکی کی خبریں والدین کو ملتی رہیں۔ ایک آدھ دفعہ پڑوسیوں کا فون موصول ہوا کہ داماد نشے کی حالت میں اکثر سخت سردی میں ان کی بیٹی کو گھر سے باہر نکال دیتا ہے۔

اسکول میں ملازمت کرنے والی لڑکی کو جس کی تنخواہ آتے ہی شوہر اپنا حق سمجھ کر وصول کر لیتا تھا، کو بسا اوقات رات گھر کے دروازے پر گزارنی پڑتی۔ اس صورت حال پر گھر والوں کو ہوش آیا اور انہوں نے علیحدگی کے آپشن پر غور کرنا شروع کیا تو اب لڑکی راضی نہیں تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو بن باپ کا بچہ کہلوانا اور معاشرے کی ترس بھری نگاہوں اور طعنوں کا نشانہ بنانا نہیں چاہتی۔ ان بچوں کی خاطر اب وہ اپنی دانست میں قربانی دے رہی تھی۔

بل آخر ایک دن بیرون ملک مقیم والدین کو اپنی بیٹی کی موت کی خبر ملی۔ سسرال اور شوہر کے مطابق رمشا کی موت فرش پر پاؤں پھسلنے سے اور پانی کی موٹر سے سر ٹکرانے کے باعث ہوئی۔ اس کے بھائی کے کراچی سے پہنچنے شوہر نے دھمکی دی کہ اگر پوسٹ مارٹم پر اسرار کیا گیا تو وہ آئندہ بچوں کو ننھیال سے ملنے کی اجازت نہیں دے گا۔ رمشا کے گھر والوں کو یقین تھا کہ موت حادثاتی نہیں لیکن ان کے پاس خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

لیکن اس خاندان کی تکالیف اور مشکلات یہاں ختم نہیں ہوتیں۔ رمشا کے شوہر نے اس کی موت کے بعد یکے بعد دیگرے دو ناکام شادیاں کیں۔ کچھ سال بعد اس نے کسی بات پر ناراض ہوکر اپنے کالج میں پڑھنے والے بڑے بیٹے عمران (نام تبدیل کر دیا گیا ہے ) کو گھر سے نکال دیا۔ عمران ماموں کے پاس کراچی پہنچا تو انھوں نے اس کی نفسیاتی کونسلنگ کروای اور اسے ٹیوشن دلاکر ایف ایس سی میں کامیابی کے بعد یونیورسٹی میں ایڈمشن کروا دیا۔

بہن بھائیوں کی یاد ستائی تو عمران عید کے موقعہ پر باپ سے اجازت حاصل کرنے کے بعد بہن بھائیوں سے ملاقات کے لئے گھر پہنچا جہاں اس کی کسی چھوٹی سی بات پر باپ سے تلخ کلامی ہو گئی۔ باپ کمرے سے پستول نکال کر لایا اور اٹھارہ سالہ بیٹے کے جسم پر ہولسٹر خالی کر دیا۔ پوتے کی موت کے فوراً بعد رمشا کے سسر اور غالباً ساس نے بھی پوتے کا وارث بن کر اس کا خون با قاعدہ قانونی کارروائی کر کہ معاف کر دیا۔ آج رمشا سے بد سلوکی کرنے والا اور اس کے بیٹے کا قتل اس کا شوہر مکمل آزاد پھر رہا ہے۔

اس واقعہ کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جن بچوں کا مستقبل اور جنھیں معاشرے کے طعنوں سے بچانے کی خاطر رمشا نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار نہیں کی۔ یہ دکھ بھری کہانی سناتے ہوئے میری دوسست اس بات پر افسردہ تھیں کہ اگر طلاق کا آپشن استعمال کر لیا جاتا تو رمشا اور اس کے بیٹے کی زندگی بچ جاتی لیکن ظاہر ہے ہمارے معاشرے میں والدین اور خود عورت کے لئے یہ بہت مشکل آپشن ہوتا ہے۔ میری دوست کاکہنا تھا کہ کاش ہم نے شروع سے ہی علیحدگی کے آپشن کو کلنک کا ٹیکا سمجھ کر بدنامی کا داغ سمجھنے کے بجائے سنجیدگی سے طلاق یا خلع کے بارے میں سوچا ہوتا۔

ایسے انتہا کا شکار کیسز استثنیٰ ہو سکتے ہیں لیکن ان کی بھی ہمارے ہاں کمی نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح کر دیں کہ مرد بھی شادی کے اس بندھن میں ظلم کا شکار ہو سکتا ہے لیکن ایسے کیسز عورتوں پر ظلم کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

طلاق کو کلنک کا ٹیکہ سمجھ کر معاشرہ خود عورت پر ظلم کرنے کا لائسنس اس کے شوہر اور اس کے سسرال والوں کو دے دیتا ہے۔ کیونکہ اب وہ ظلم کے خلاف اپنی بد نامی کے ڈر سے علیحدگی کا نہیں سوچ سکتی۔ ان تین الفاظ سے بچنے کے لئے اس کے میکے والے بعض اوقات سسرال اور داماد کی ہر بے جا خواہش مانگے یا مانگنے سے پہلے پوری کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور عورت بھی ہر طرح کا ظلم اور بے عزتی برداشت کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ہمارے دین کی تعلیمات یا اس کا منشا نہیں ہے۔

طلاق یافتہ خواتین یا اکیلی ماؤں کے ساتھ منفی رویوں کا مسئلہ ہم میں سے بہت سی خواتین کا مسئلہ نہیں لیکن ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں معاشرے میں ایسی خواتین اور بچے موجود ہیں جو میری اور آپ کی طرح آئیڈیل خاندان افورڈ نہیں کر سکتے۔ ان کے مسائل پہلے ہی مجھ سے اور آپ سے بہت زیادہ ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ طلاق یافتہ خواتین اور اکیلی ماؤں کے گرد موجود ہر فرد ان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے لیکن اس مشکلات سے پر جدو جہد کے دوران اگر کسی بھی جگہ انہیں اس بنیاد پر طنز یا تضحیک کا نشانہ بنایا جائے کہ وہ اپنا گھر نہ بسا سکیں یا ان کے بچے کبھی مکمل انسان نہیں بن سکیں گے تو یہ تکلیف ایک نہ بھرنے والے زخم کی صورت ان کے ساتھ رہتی ہے۔ بعض اوقات ہمدردانہ جملے یا غیر ضروری تفتیش بھی دوسرے کے لئے تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ہم انہیں ان کی محرومی کا احساس دلائے بغیر اگر ان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں تو ضررو کرنی چاہیے لیکن اپنے غیر ضروری سوالات، طعنوں اور اپنی کامیاب زندگی کی مثالوں سے ان کی دل آزاری سے پرہیز کرنا چاہیے۔

ایک ٹوٹا ہوا دل اللہ کو بہت پیارا ہوتا ہے۔ ہم ایسے ٹوٹے ہوے دلوں کو اپنی غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے دکھی کر کہ اللہ کی ناراضی کو دعوت دیتے ہیں۔

تزئین حسن

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

تزئین حسن

تزئین حسن نے ہارورڈ یونیورسٹی امریکا سے حال ہی میں صحافت میں ماسٹرز مکمل کیا ہے اور واشنگٹن کے ایک انسانی حقوق کے ادارے کے ساتھ بہ حیثیت محقق وابستہ ہیں۔ ان کے مضامین جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور نارتھ امریکا میں شائع ہوتے رہے ہیں۔

tazeen-hasan has 6 posts and counting.See all posts by tazeen-hasan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments