کیا طلاق یافتہ خواتین یا اکیلی ماؤں کو خوش ہونے کا حق نہیں؟


کچھ عرصے پیشتر پاکستان سے ایک بہت پڑھی لکھی اور خوش حال فیملی کی ایک بائیس تئیس سالہ نوجوان لڑکی نے ایک دوست کے ذریعے رابطہ کیا جس نے کسی وجہ سے کچھ عرصے قبل ایک تکلیف دہ عدالتی عمل سے گزر خلع حاصل کی تھی۔ لڑکی سخت پردہ کرتی تھی اور میں نے باتوں سے اندازہ لگایا کہ انتہائی با صلاحیت تھی۔ کیمبرج سسٹم کے امتحانات میں کچھ مضامین میں پاکستان بھرمیں امتیاز یعنی سب سے زیادہ نمبر لے چکی تھی لیکن کم عمری کی شادی کے باعث اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکی تھی۔ خلع کے عمل کے دوران اس نے ایک مخصوص موضوع پر کورس کی کتابیں لکھنے اورشائع کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور اسکولوں میں اس کی کامیاب مارکیٹنگ بھی کرتی رہی لیکن اب تعلیم مکمل کر کے ملازمت کرنا چاہ رہی تھی۔

میرے استفسار پر کہ جب اللہ نے اتنی تخلیقی صلاحیت اور اعتماد دیا ہے تو ملازمت کی طرف کیوں جا رہی ہو اسی کام کو آگے بڑھاؤ، اس کی تو پاکستانی معاشرے کو بہت ضرورت ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ لوگ یہ محسوس کر کہ شوہرسے علیحدگی کے بعد بھی وہ مطمئن ہے بہت عجیب ردعمل دیتے ہیں اور اس کی ذات کے بارے میں نہ مناسب باتیں کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اس سارے عمل میں تحریر کے علاوہ اشاعت، مارکیٹنگ، مالی معاملات، لوگوں سے وصولیاں کرنا سب کچھ شامل ہوتا ہو گا۔ ایسے میں اگر گھر سے باہر ایک یا دو دفعہ بھی کسی منفی طرز عمل کا سامنا کرنا پڑے تو یہ ایک حساس دل رکھنے والے کے لئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہو گا۔

میں نے اسے سمجھایا کہ بغیر اعلیٰ تعلیم کے ملازمت میں بہت زیادہ کام کر کہ بھی تمہیں بہت کم پیسے ملیں گے۔ تخلیقی صلاحیت رکھتی ہو تو اعتماد اور ہمت کے ساتھ اسی کام کو آگے بڑھاؤ۔ ایک دفعہ کامیاب ہو جاؤ گی تو یہ منہ خود بہ خود بند ہو جائیں گے۔ میری نصیحتیں اپنی طرف مگر ہر حساس دل رکھنے والا جانتا ہے، کہ ایسی خواتین لوگوں کے طعنوں کی وجہ سے ہر روز کس کرب سے گزرتی ہیں۔ گفتگو کے دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنی زندگی کے اس تکلیف دہ دور سے گزر کر بھی اپنی زندگی سے مطمئن ہی نہیں مستقبل کے لئے پر امید بھی تھی اور اس کے لئے جد و جہد کرنے کا جذبہ بھی رکھتی تھی۔

ہمارے ارد گرد اکثر ایسی خواتیں یا بعض اوقات نوجوان لڑکیاں جنہیں کسی وجہ سے طلاق ہو گئی یا انہوں نے خلع لے لی ہو موجود ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسا ناگزیر صورت حال میں ہی ہوا کرتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ ایسا کیوں ہوا اور کس کا قصور تھا، عام طور سے دیکھا یہ گیا ہے کہ انہیں مختلف نوعیت کے منفی اور روایتی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں ایک طرف گھر بسانے کی اہلیت نہ ہونے کے طعنے ہوتے ہیں، دوسری طرف ترس بھری نظریں اور سب سے زیادہ تکلیف دہ ذاتی معاملات سے متعلق پر تجسس سوالات جو ان خواتین کی زندگی کی مشکلات کو کئی گنا بڑھا دیتے ہیں او رنفسیتی الجھنوں کا بھی با عث ہو سکتے ہیں۔

اس سے آگے بڑھ کراگروہ علیحدگی یا بیوگی کی وجہ سے اکیلی ماؤں کی طرح اپنے بچوں کو پال رہی ہیں تو انہیں بچوں کے سامنے بار بار اس بات کا احساس دلایا جاتا ہے کہ بچہ باپ کے بغیر پلے گا تو اس کی تربیت میں کمی رہ جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک آئیڈیل صورت حال میں بچے کو ماں اور باپ دونوں کے ساتھ پلنا چاہیے۔ لیکن اس بات کو بہانہ بنا کر ہم باپ سے محروم بچے کی شخصیت ہی پر سوال اٹھانے لگیں تو یہ بڑا ظلم ہے۔ ہم ان سماجی رویوں، ان کی دینی حیثیت، ان کے اثرات اور حل پر مرحلہ وار بحث کرتے ہیں۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ قران حمل اور بچے کی شیر خوارگی کی حالت میں بھی طلاق کو حرام قرار نہیں دیتا بلکہ اس کے حوالے سے احکامات واضح کرتا ہے۔

سورۂ بقرہ میں طلاق کے موضوع پر طویل بحث موجود ہے اس میں آیات نمبر 233 میں اللہ واضح کرتا ہے کہ حمل اور شیر خوارگی حالت میں بھی علیحدگی ہو جاتی ہے۔ حمل کی عدت ولادت تک ہے جبکہ شیرخوارگی کی عدت تین دفعہ ماہ واری ہے۔

”جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولا د پوری مدت رضاعت تک دودھ پیے، تو مائیں اپنے بچوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں اِس صورت میں بچے کے باپ کو معروف طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہوگا مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے نہ تو ماں کو اِس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچہ اس کا ہے، اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچہ اس کا ہے دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا بچے کے باپ پر ہے ویسا ہی اس کے وارث پر بھی ہے لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلوانے کا ہو، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بشر طیکہ اس کا جو کچھ معاوضہ طے کرو، وہ معروف طریقے پر ادا کر دو اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، سب اللہ کی نظر میں ہے“
(QS. Al-Baqarah 2: Verse 233)

یعنی اللہ شیر خوارگی کے دوران نہ صرف علیحدگی کی اجازت دے رہا ہے بلکہ بچے کے دودھ کے معاوضہ کا ذمہ دار بھی باپ کو قرار دے رہا ہے۔ خالق کائنات جو اپنی مخلوق سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے لیکن اس نازک وقت میں علیحدگی کی ممنوع نہیں قرار دے رہا بلکہ اس کے بعد عورت کو جو مالی اور دیگر مسائل پیش آ سکتے ہیں ان کے حل بتا رہا ہے۔ اور ایسا اس لئے ہے کہ خالق کائنات کو اندازہ ہے کہ علیحدگی جو طلاق بھی ہو سکتی ہے اور خلع یا عدالت کے ذریعے فسخ نکاح بھی کچھ صورتوں میں نہ گزیر ہو جاتی ہے۔ وہ فرد کی آزادی کا قائل ہے اسے زبردستی بندہ کر رکھنا نہیں چاہتا۔

جبکہ مقامی رسوم و روایات سے متاثر ہمارا معاشرہ ان آیات کو نظر انداز کے کہ طلاق کو تقریباً حرام یا کم از کم عورت کے لئے کلنک کا ٹیکہ قرار دے کر اس کی تمام تر ذمہ داری عورت پر ڈالتا ہے۔

اس موضوع پر آگے تفصیل سے بات کرتے ہیں لیکن پہلے ایک اور اہم مسئلہ یعنی والدین کے بغیر بچے کی پرورش کے بارے میں جو منفی اسٹیریو ٹائپ پھیلے ہوئے ہیں، اس پر بات کر لیتے ہیں۔

جہاں تک باپ یا ماں یا والدین کے بغیر بچوں کی پرورش کا تعلق ہے یا ان کی ذات میں کسی کمی کا تعلق ہے تو تاریخ میں کئی مثالیں باپ کے بغیر بچوں کی تربیت کی ملتی ہیں جنہوں نے بڑے ہو کر عظیم کارنامے انجام دیے۔ بلکہ بعض اوقات تو ماں اور باپ دونوں کے بغیر پلنے والے بچوں نے بھی عظیم کارنامے انجام دیے ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت یوسف علیہ سلام دونوں کی تربیت والدین کے بغیر ہوئی۔

قران پاک کے بعد اسلامی علوم میں سب سے زیادہ مستند سمجھی جانے والی کتاب صحیح بخاری مرتب کرنے والے امام بخاری کی والدہ نے ان کی پرورش اکیلی ماں کے طور پر کی۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کے بیٹے حضرت عاصم بھی اپنی طلاق یافتہ والدہ کے زیر نگرانی پلے بڑھے کہ اسلامی کورٹ نے ان کی کسٹڈی کے لئے خلیفۂ وقت کا دعویٰ مسترد کر کہ ان کی والدہ کے حق پرورش کو برقرار رکھا تھا۔ بنی امیہ کے راست ترین خلیفہ عمر بن عبد العزیز انہیں حضرت عاصم کی اولاد میں سے تھے۔ یہ چند مثالیں ہیں لیکن تاریخ ایسی شخصیات کے تذکرے سے بھری پڑی ہے۔

اگر اپنے ارد گرد نظر گھما کر دیکھیں تو بعض انتہائی کامیاب افراد بچپن میں والد یا والدہ کے پیار سے محروم نظر آتے ہیں۔ رہی بات تربیت کی تو کیا والدین کے ہوتے ہوئے سارے بچے آئیڈیل تربیت کے حامل ہوتے ہیں؟ ہم روایتی گھسی پٹی باتوں کو دہراتے ہوئے ذرا بھی دماغ استعمال کرنا نہیں چاہتے۔

مغرب میں رہائش پذیر میری ایک رائیٹر دوست نے، جو پاکستانی سیاست پر بہت پر ذہانت تجزئیے تحریر کرتی ہے اور ایک کامیاب ورکنگ وومن ہونے کے ساتھ ساتھ تین بچوں کی ماں بھی ہے اور اپنا گھر بھی بخوبی سنبھال رہی ہے، مجھے بتایا کہ اس کی پرورش اس کی ماں نے نانا کے گھر کی ہے۔ اس کے والد کی وفات کے بعد اس کے ددھیال سے اس کا تعلق نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

تزئین حسن

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

تزئین حسن

تزئین حسن نے ہارورڈ یونیورسٹی امریکا سے حال ہی میں صحافت میں ماسٹرز مکمل کیا ہے اور واشنگٹن کے ایک انسانی حقوق کے ادارے کے ساتھ بہ حیثیت محقق وابستہ ہیں۔ ان کے مضامین جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور نارتھ امریکا میں شائع ہوتے رہے ہیں۔

tazeen-hasan has 6 posts and counting.See all posts by tazeen-hasan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments