پشاور بس منصوبے پر کسے ٹانگا، کسے سکھایا جائے گا؟


پشاور بس منصوبہ بھی ایک نہایت دلچسپ معاملہ ہے۔ پہلے اعلان ہوا کہ اگست 2017 میں کام شروع ہو گا اور جنوری 2018 میں پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ پھر اکتوبر میں کام شروع ہو گیا اور کہا گیا کہ مارچ میں ختم ہو جائے گا۔ پھر بتایا گیا کہ اپریل 2018 میں حکومت جانے سے پہلے پہلے تو لازماً بن جائے گا۔ پھر تاریخیں پڑتی گئیں اور پڑتی ہی گئیں لیکن وہ چھے ماہ آج تک نہ گزرے۔ پراجیکٹ کی لاگت تیزی سے بڑھتی گئی مگر سب خیر رہی۔

درمیان میں کچھ بدخواہوں نے شرارت کی کوشش ضرور کی مگر ایک مرتبہ اساطیری چیف جسٹس ثاقب نثار نے نیب کو منع کر دیا کہ بی آر ٹی سے دور رہو، اور آج موجودہ سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے حکم کو رد کرتے ہوئے ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے سے روک دیا ہے۔

پختونخوا حکومت کی قسمت ہی بہت اچھی ہے۔ مگر ہم ٹھہرے سدا کے قنوطی، نہ جانے کیوں لگ رہا ہے کہ اس چھبیس کلومیٹر لمبے چھپر پر کچھ امیروں وزیروں کو خوب دھو کر ٹانگا جائے گا اور کچھ کو سکھایا جائے گا۔

اندازہ ہے کہ جب تک اس حکومت کی زندگی لکھی ہے، بی آر ٹی منصوبہ بھی بلا کھٹکے چلتا رہے گا۔ جیسے ہی حکومت کے قدم اکھاڑنے مقصود ہوئے تو پھر جو لوگ نگاہوں میں کھٹکیں گے اور انہیں قربانی کا بکرا بنایا جانا مقصود ہو گا، انہیں اس منصوبے کی بلی ہی چڑھایا جائے گا۔ پاناما کا تماشا دیکھنے تو لوگوں کو بہت دور جانا پڑتا تھا، بی آر ٹی کے گڑھے اور مینارے تو یہیں مقامی طور پر دکھا دیے جائیں گے کہ لو خود فیصلہ کرو کہ یہ نا اہلی ہے یا کرپشن تاکہ ہم مجرموں کو قرار واقعی سزا دے سکیں۔

دوسری طرح اس منصوبے سے خیر بھی برآمد ہو گی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 2002 کے انتخابات کے بعد جنرل مشرف کو ق لیگ کی حکومت بنانے میں بہت دقت پیش آ رہی تھی۔ پھر مخدوم فیصل صالح حیات کو چند ہمنواؤں سمیت نیب کی دھوپ میں سکھایا گیا اور نکھری نکھری سی پیپلز پارٹی پیٹریاٹ نے جنم لے لیا اور نیب کو یاد ہی نہیں رہا کہ پیٹریاٹ والوں پر کوئی مقدمہ بھی بنتا تھا۔ بی آر ٹی کی چھاؤں سے بھی نئی حکومت میں وزارتوں کے لئے حسب ضرورت پیٹریاٹ برآمد ہوں تو تعجب نہیں ہو گا۔

پکڑے تو وہ جائیں گے جو نئی روشنی نہیں دیکھ پائیں گے، یا جن پر گری ہوئی حکومت کے کاموں کی تمام ذمہ داری ڈالنا مقصود ہو گا۔ دیکھیں کس کس کے نام یہ قرعہ نکلتا ہے۔ خدا جانے سب پختونخوا سے ہی ہوں گے یا کچھ اسلام آباد کے نواح اور جنوبی پنجاب سے بھی اس تاریخی قربانی کے لئے منتخب کیے جائیں گے۔ بہرحال جو بھی ہو، اس حکومت پر سب سے بڑی فرد جرم پشاور بی آر ٹی ہی کی عائد ہونے کا اندیشہ ہے۔

ایک گڑھا ہے جو خوب گہرا کھودا جا رہا ہے۔ دیکھیں کب تک کھودا جاتا ہے اور حکومت اسے بھرنے کی کوئی کوشش کرتی ہے یا نہیں۔ سیاست کے کھیل میں ویسے یہی دیکھا ہے کہ زیادہ گہرا گڑھا وہی کھودتے ہیں جو  زیادہ قابل اعتماد سمجھے جاتے ہیں، اور کفن دفن میں بھی وہی سب سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments