زنگ آلود ذہنوں میں کشمیر کہاں سے آیا


امیر تیمور سے کسی نے پوچھا۔ سمرقند کے ایک چھوٹے سے علاقے شہر سبز سے نکل کر پوری دنیا کو فتح کرنے کا خواب آپ نے دیکھا اور پھر آدھی سے زیادہ زندگی گھوڑے کی زین پر گزاری اور ہمیشہ فاتح رہے۔ وہ کون سی ٹیکنیک ہے جس کی وجہ سے فتح و کامرانی نے آپ کے قدم چومے۔ سوال سن کر وہ مسکرائے اور کہنے لگے۔

میں نے ہمیشہ دشمن کو دشمن ہی سمجھا اور تلوار ہی وہ واحد چیز ہے جس نے میرے دشمن کو مجھ سے متعارف کرایا۔ جن کے ساتھ مختلف چیزوں میں میرا اختلاف رہا اور جنہوں نے مجھے تکلیف پہنچانے کی کوشش کی ان کو ہمیشہ میں نے دشمن سمجھا اور کبھی بھی ان کو ڈھیل نہیں دی۔ جنگ کے میدان میں دشمن کے بارے میں معمولی سی غلط فہمی ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ یاد رکھو دشمن دشمن ہی ہوتا ہے اور یہ صرف دشمنی کی زبان ہی سمجھتا ہے۔

ہم اپنی قومی زندگی کے کون سے دوراہے پر کھڑے ہیں یہ سمجھنے کے لئے جس فہم کی شدید ضرورت ہے وہ ناپید ہوچکا ہے۔ فروری ہر سال اپنے ساتھ کشمیریوں کی یاد چند لمحوں کے لئے لے آتا ہے اور ہوتا کیا ہے تقریر، تحریر، سوال و جواب اور آخر میں لاینحل کا نوحہ۔

ستر سال گزر گئے اور امید ہے باقی بھی گزر جائیں گے۔ آج کے باپ بتاتے ہیں کہ کل جب ہم خود بچے تھے تو یہی نوحہ ہمارے بچپن کا بھی تھا کہ ہمارے پڑوس میں زمین کا ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں مسلمان بستے ہیں۔ صبح اٹھ کر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور حقیقی معنوں میں مسلمانی کا دعویٰ اور اللہ کی یہی یاد ان کے لئے وبال جان بنا ہوا ہے۔ وہاں کے بچوں کا کوئی بچپن نہیں ہوتا۔ ہم سوال کرتے کہ وہ کیسے تو جواب آتا۔ بیٹا وہاں کے بچوں کے پاس کھلونے، گھڑیاں، قہقہے، مستیاں، شرارتیں، کھیل اور کھیل کے میدان نہیں ہوتے۔

سماعتوں میں جب یہ حیران کردینے والی حقیقتیں پڑجاتیں تو دوبارہ سوال کرتے کہ آخر کیوں تو کہنے والا پریشانی کے عالم میں گویا ہوتا وہاں دشمن ملک کے دندناتے بھیڑیئے گھس چکے ہیں۔ وہ بچوں کو کھیلنے نہیں دیتے بلکہ بچوں کی معصومیت سے کھیلتے رہتے ہیں۔ بچوں کے سامنے ان کی ماؤں کو ذدوکوب کرتے ہیں اور ان کے سامنے ان کی بہنوں کے سروں سے آنچل نوچتے ہیں بس موت ہی کا رقص عشروں سے وہاں جاری ہے۔ اب ایسے میں کیسے بھلا کوئی اپنے بچپن سے لطف اندوز ہوجائے۔

آج کے باپ جو کل کے بچے تھے مزید کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بھی بتایا جاتا کہ نوجوانوں کو مار دیا جاتا ہے اور بزرگوں پر بھی کوئی رحم نہیں کیا جاتا۔ ہم حیران ہوکر اس ظلم سے نجات کا سوال پوچھتے تو بولنے والا شش و پنج میں مبتلا ہوکر گویا ہوتا ان شاءاللہ ایک دن آئے گا جب ہمارے پڑوس کے اس حصے کو آزادی مل جائے گی اور پھر وہ بھی ہماری طرح ایک خوب صورت زندگی گزار سکیں گے۔

وہ دن کب آئے گا اور کیا اس دن اور منزل کی طرف انفرادی اور اجتماعی طور پر کوئی گامزن ہے یہ البتہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کل کی نسلوں کو دیا گیا اور نہ آج کی نسلوں کو کوئی دے سکتا ہے۔ ایک حقیقت بے شک یہ ہے کہ آج کے بچوں کو بالکل کشمیر کے بارے میں کوئی علم اور فکر نہیں وجہ شاید جس کی یہ ہے کہ ظلم کی کہانیاں سنانے والے والے شاید تھک گئے ہیں۔

فروری کا کیا ہے ہر سال اس مہینے کو تو آنا ہوتا ہے ہمیں تو ممنون ہونا چاہیے جو ہر سال چند ساعتوں کے لئے ہی سہی لیکن اپنے ساتھ یہ زمین کے اس خطے جس کو کشمیر کہتے ہیں کی یادیں لاکر چہارسوں تقریر اور تحریر کا ماحول بنادیتا ہے۔ بلند و بانگ دعوے ہر سال نئے انداز میں کیے جاتے ہیں اورجب ان دعووں میں میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے ایک دن کی ترنم شامل ہوجاتی ہے تو یقیناً کچھ ساعتوں کے لئے جذبات میں آکر حکمرانوں سے لے کر عام آدمی تک سب ناچ اٹھتے ہیں اور سب کی پکار یہی بن جاتی ہے کشمیر بنے گا پاکستان لیکن تذبذب تو دن بہ دن طول پکڑتا ہے کہ کیسی آزادی اور کہاں کی آزادی۔

کوئی دشمن کو سمجھنے کی حقیر سی کوشش بھی تو نہیں کررہا۔ کوئی اگر دعویٰ بھی کریں تو کیسے یقین کیا جاسکتا ہے کہ دشمن ملک کو تو ہر وقت فائدہ ہم ہی سے ملتا ہے۔ اس کو بھی اگر ایک طرف رکھ دیں ہم تو یہ اطمینان بھلا کوئی کیسے ہمیں دے گا کہ ہم نے ان لوگوں کے لئے جن کی نسلیں پاکستان کا نام لے لے کر ختم ہوئی کچھ خاص کیا۔

کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ ایک طرف البتہ ایک حقیقت اظہر من اشمس ہے کہ ہم نے آج تک کچھ سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ذہن زنگ آلود بن چکے ہیں ایسے میں کون سی اظہار یکجہتی اور کہاں کی ہمدردی۔

دشمن کو سمجھنا ہی سب سے بڑا کمال ہوتا ہے اور جب یہ سمجھ آجاتی ہے تو پھر جنگ کے علاوہ بھی بے شمار ایسے راستے ہوتے ہیں جن پر چل کر دشمن کو شکست دی جاتی ہے۔

اظہار یکجہتی کا سب سے بہترین طریقہ خود کو بدلنا ہے۔ ستر سال گزر گئے اور نسلوں کو اب بھی یہی بات کتابوں اور محفلوں میں بتائی جاتی ہے کہ کشمیر میں ظلم کا بازار گرم ہے لیکن اس ظلم کے آگے بندھ کون باندھے گا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

کشمیر کی بے بسی ہماری قومی کہانی بن چکی ہے اور جس سے ہم سات عشروں سے بس مزے لے رہے ہیں چلو اس فروری میں بھی تالیاں بجا کر مزے لینے پر ہی اکتفا کرلیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments