منظور پشتین کے جرائم


ریاست کی نا سمجھی ملاحظہ کیجیے کہ اسے یہ ادراک کرنے میں خاصی دیرلگ گئی کہ منظور پشتین نامی شخص کی آواز معاشرے کے اندر گونجتی نفرت، بے سکونی، بد امنی اورافراتفری کے شور میں ایک خلل ہے۔ دیر آید درست آید کی بنیاد پر ریاست نے اس خلل کی تصحیح تو کردی مگر بھونڈا انداز یہ اپنایا کہ آواز کے مالک کو ہتکھڑیوں کی زینت سے آراستہ کرکے پابند سلاسل کیا۔ جانے پابند سلاسل کرنے والے کس گمان میں تھے وہ یہ بھول گئے کہ جسم تو پنجرہ میں قید ہو سکتا ہے مگر آواز نہیں اور آواز بھی ایسی جس کی گونج چاروں سو پھیل چکی ہو۔

چلیں اب ان جرائم کا ذکر کرتے ہیں جو جنوبی وزیرستان کی تحصیل سروکئی میں ایک سکول ماسٹر کے ہاں پیدا ہونے والے منظور پشتین نامی مجرم سے سرزد ہوئے ہیں۔ مجرم سے جانے یا ان جانے سر زد ہونے والا سب سے بڑا جرم ایک غریب کے گھر آنکھیں کھولنا تھیں۔ جانے غربت کے باوجود مجرم اس حقیقت سے کیوں نا واقف تھا کہ طاقتوروں اور کمزوروں کے درمیان قائم ہونے والی عدمِ مساوات اور ظلم کی دیوار اس قد سے کہیں اونچی اور جسم سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔

اگر وہ معاشرے کی سیاسی بصیرت اور کرداروں کا مشاہدہ کرنے میں کوتاہی نہ کرتا تو اسے معلوم ہوتا کہ تعلیم یافتہ والد سے ورثے میں ملنے والا سیاسی شعور اس کے اپنے اور مقتدر طبقوں کے کسی کام کا نہیں۔ محسود تحفظ تحریک کا جھنڈا اٹھانے والا مجرم نے جھنڈا تو اٹھا لیا پر یہ نہ سمجھ سکا کہ جھنڈے طاقت اور مذہب کے بعد حسب و نسب کے ڈنڈے پر ہی لہراتے ہیں۔ جہاں انسان، انسان سے اس کا بنیادی حق چھینے کے لیے ہر دم تیار رہتا ہے وہاں ان انسانوں کے لئے تحریک شروع کرنا جن کے وجود سے ہی ریاست انکاری ہے حماقت نہیں تھی تو اور کیا تھی۔ مانا کہ چیک پوسٹوں کی بے جا سختی اور جگہ جگہ موجود مائنز کی موجودگی سخت پریشانی کا باعث بن رہے تھے مگر کیا کسی کو اتنا کند ذہین ہونا چاہیے تھا کہ قلم شدہ سروں کے دھڑوں کو کچلنے کی مزاحمت کرے؟

نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد تو مجرم کی مجرمانہ کارروائیوں میں مزید ہٹ دھرمی آئی اس نے انسانی حقوق کی طلب گار اپنی شورش زدہ تحریک کو پختون تحفظ تحریک میں بدل دیا۔ مجرم کو باخبر ہونا چاہیے تھا کہ مارنے والا کن لوگوں کی گود میں کھیل کر بہادر بچہ بنا تھا۔ بھلا ریاست کہاں برداشت کر سکتی تھی کہ ایسے نیک لوگوں کے کاموں میں خلل ڈالا جائے جو قومی سلامتی کے تحفظ کی علامت ہیں۔ اور تو اور مجرم کی سینہ زوری دیکھیں کہ کس طرح اس نے 73 کے آئین کو نامکمل کہہ دیا اگر کہنے کی بھی اتنی مجبوری تھی تو با مشرف ہو کر ’کاغذ کا ایک ٹکڑا‘ کہہ دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments