مفاہمت، جبرِ ناروا اور ہمارے کپتان


مظفر آباد میں یوم یکجہتی کشمیر کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ہمارے صادق و امین کپتان نے جبر ناروا سے مفاہمت کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے کپتان کو کشمیر کے مسئلے پر اپوزیشن جماعتوں سے مفاہمانہ اور دوستانہ فضا پیدا کرنے کا مشورہ دیا تو کپتان نے غیرت ملی اور خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشہور شاعر عدیم ہاشمی کی غزل کا یہ مطلع پڑھا

مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے

میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے

کپتان کا اشارہ ن لیگ، نواز شریف اور شہباز شریف کی طرف تھا، کپتان جن سے مفاہمت کرنے کے لیے ہر گز تیار نہیں ہیں۔ مگر جب ہم کپتان کے پے در پے یو ٹرنوں اور مفاہمت بلکہ دباٶ میں آکر بیک جنبش ابرو فیصلے بدلنے کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں تو حقائق اس کے بر عکس نظر آتے ہیں اور یہ شعر کپتان اور ان کے حامیوں کا منہ چڑاتا نظر آتا ہے۔ البتہ اسی غزل کا دوسرا شعر کپتان کے طرز عمل، منقم مزاجی، دریدہ دہنی اور دشنام و الزام طرازی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔ وہ شعر یہ ہے

زبان نے جسم کا کچھ زہر تو اگل ڈالا

بہت سکون ملا، تلخیٕ نوا سے مجھے

بلا شبہ کپتان اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک ہر طرح کی محفل میں ن لیگ کے خلاف ان کی تلخ نوائی اور زہر افشانی ان کے تلاطم باطن کا خوب پتہ دیتی ہے۔

یوں تو کپتان خود کو دنیا کا بہادر ترین، خودداری و غیرت کا پتلا اور راست بازی کی راہ پر ڈٹ جانے والا شخص سمجھتا ہے مگر ذرا دباٶ پڑتا ہے تو لم لیٹ ہو جاتا ہے۔ تفصیلات لکھنے لگوں تو ضخیم کتاب مرتب ہو جائے۔ یہاں صرف چند مثالیں پیش کرنے کی جسارت کروں گا۔ یہ وہی کپتان ہے جو شیخ رشید کو چپڑاسی بھی نہیں رکھنا چاہتا تھا اور پرویز الہٰی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتا تھا، جبر ناروا کے نتیجے میں آج ان دونوں کے ناز اٹھانے اور خوشامد کرنے پر مجبور ہے۔

یہی کپتان وزیر اعظم بننے سے قبل مقتدرہ کے سہارے کے بغیر حکومت میں آنے پر لعنت بھیجا کرتا تھا مگر دنیا نے دیکھا کہ جبر ناروا کے نتیجے میں خیر سے پوری دنیا میں ”سلیکٹڈ“ اور ”چنتخب“ مشہور ہوا۔ کبھی یہی کپتان صاحب جوش میں آ کر فرماتے تھے کہ میں وزیر اعظم ہوتا تو حالت جنگ میں بھی آرمی چیف کو ایکسٹینشن نہ دیتا کیونکہ اس سے ادارے تباہ اور شخصیات طاقتور ہوتی ہیں مگر سب نے دیکھا کہ انہوں نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے لیے آگ کے دریا عبور کیے۔

یہ بات زیادہ پرانی نہیں کہ کپتان صاحب زرداری کو پاکستان کی سب سے بڑی بیماری قرار دیتے تھے اور برملا فرماتے تھے کہ زرداری سے ہاتھ ملا کر آئینہ کیسے دیکھوں گا مگر پھر سینیٹ کے الیکشن میں انہوں نے جبر ناروا کی وجہ سے زرداری سے ہاتھ بھی ملایا اور آئینہ بھی دیکھ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم سے سیاسی مفاہمت کے بجائے وہ حکومت کو قربان کرنا زیادہ بہتر سمجھتے تھے مگر پھر اچانک کسی جبر ناروا کے تحت بوری بند لاشیں دینے والے نفیس و مہذب لوگ بن گئے۔

آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے خود کشی کرنے کا نعرہٕ مستانہ بھی کپتان صاحب ہی نے بلند کیا تھا مگر ابھی اس بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ کپتان آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گیا تھا۔ این آر او نہیں دوں گا۔ ان کو کسی صورت باہر نہیں جانے دوں گا۔ یہ زوردار اعلانات بھی ہمارے اسی کپتان نے بارہا کیے تھے مگر سب نے دیکھا کہ جبر ناروا کی وجہ سے کپتان کو نواز شریف اور شہباز شریف کو باہر بھیجنا پڑا۔

جبر ناروا اور نادیدہ قوتوں کے دباٶ میں آنے کی اس سے بد ترین مثال کیا ہو گی کہ جہانگیر ترین، خسرو بختیار، ہمایوں اختر اور ملک ریاض کی میگا کرپشن کے باوجود کپتان کو ان کے جرائم پر پردہ ڈالنا پڑا۔ یہ تو کل کی بات ہے کہ سعودی عرب کے شاہ سلمان کے دباٶ پر کپتان کوالالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کر سکا جس کی وجہ سے ملائشیا جا کر معافی مانگنا پڑی۔ کرتار پور راداری کی ریکارڈ گیارہ ماہ میں تکمیل اور ابھی نندن کو تین روز بعد تزک و احتشام سے رخصت کرنا بھی جبر ناروا ہی کا نتیجہ تھا۔ ہم اپنی بات ختم کرتے ہوئے مختصراً اتنا ہی کہیں گے کہ

اتنی نہ بڑھا پاکیٕ داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments