پانچ فروری، یوم یکجہتی کشمیر


گزشتہ چند عشروں سے مقبوضہ جموں وکشمیر کے باسی پوری دنیا میں 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر مناتے ہیں۔ پاکستان میں اس دن کو خصوصی اہمیت اس لئے حا صل ہے کہ سرکاری طور پر اس دن کو کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ شواہد یہی ہے کہ تین عشرے قبل جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے فیصلہ کیا تھا کہ 5 فروری کو کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے طور پر منایا جائے گا، بعد میں ریاست پاکستان نے بھی اس فیصلے کی حمایت کی اور اب ہر سال اس دن کو پورے قومی جوش وجذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

اس سال یوم یکجہتی کشمیر اس لئے خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ غاصب بھارت نے وادی کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے وہاں چھ مہینوں سے کر فیو لگا دیا ہے، مقبوضہ جموں وکشمیر میں کرفیو اس لئے نافذ کیا گیا کہ وہاں کی عوام نے بھارت کے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں یہ بات ذہن میں ضرور ہو نی چاہیے کہ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان زمین کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ برصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے اور اب یہ ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

مقبوضہ جموں وکشمیر کے بنیادی طور پر چار فریق ہیں۔ ایک ہے ”بنیادی فریق“ یا ”فریق مظلوم“ یعنی وہاں کی عوام جو اپنے لئے حق خود ارادیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسرا ہے ”قابض فریق“ یعنی بھارت جنھوں نے وہاں کی عوام کی منشا کے خلاف قبضہ کیا ہوا ہے۔ تیسرا ہے ”وکیل فریق“ یعنی پاکستان جس کا نعرہ ہے کہ ہم کشمیریوں کی سفارتی، اخلاقی اور سیاسی مدد اس وقت تک جاری رکھیں گے جبکہ تک ان کو حق خود ارادیت مل نہیں جاتا۔

چوتھا فریق ہے ”ثالث فریق“ یعنی اقوام متحدہ جس نے اپنی قراردادوں میں وہاں کی عوام کو حق دیا ہے کہ وہاں استصواب رائے ہو، تا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکے۔ ”فریق مظلوم“ یعنی مقبوضہ جموں و کشمیر کی عوام سات عشروں سے جاری ظلم اور جبر کا استقامت کے ساتھ مقابلہ کر رہے رہیں۔ لاکھوں جانوں کے نذرانے وہ پیش کر چکے ہیں، لیکن قابض فریق کے ساتھ الحاق کے لئے تیار نہیں۔ 5 اگست 2019 ء کے فیصلے کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر کے وہ سیاسی خاندان جو ماضی میں فراڈ انتخابات کے ذریعے وہاں کی عوام پر مسلط تھے اب انھوں نے بھی بھارت کے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کیا ہے، جس کی پاداش میں بھارت کی قابض مسلح افواج نے ان کو گھروں پر نظر بند کیا ہے یا ان کو جیلوں میں ڈال دیا ہے۔

ایک طر ف مظلوم کشمیری عوام کع بھارت اپنے ظلم اور جبر سے اپنا ہمنوا نہ بنا سکے تو دوسری طرف ان کی جابر فوج نے وہاں تشدد، ظلم اور جبر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جنت نظیر وادی کشمیر اس وقت دنیا کا واحد خطہ ہے کہ جہاں ”نیم بیوہٰ“ کا تصور موجود ہے۔ پیلٹ گنوں سے ہزاروں لوگوں کی بینائی ختم ہو چکی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان عقوبت خانوں میں جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں نوجوان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے افاہج بنایا گیا ہے۔ اس تمام تر ظلم و جبر، سنگینوں اور بندوقوں کے سائے میں سات عشروں سے ان کو دبا کر رکھنے سے بھی بھارت ان کی رائے کو تبدیل نہ کر سکا۔

اس کے برعکس ”وکیل فریق“ پاکستان سے اب بھی مقبوضہ جموں وکشمیر کی عوام کی امیدیں وابستہ ہیں۔ ان کے خیال میں اگر پوری دنیا میں اس وقت کوئی ریاست ان کا پشتبان ہے تو پاکستان ہی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ ہر علاقائی اور بین الاقوامی فورم پر کشمیر کا مسئلہ اٹھا یا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ہم مقبوضہ وادی کی عوام کے لئے ”آخری سپاہی“ اور ”آخری گو لی“ تک لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ ریاست پاکستان کی توانا آواز اور افواج پاکستان کے اس نعر ے نے وہاں کی عوام کو ایک نیا جوش و جذبہ دیا ہے۔

پاکستان ہی کی کوششوں سے گز شتہ چھ مہینوں میں دو مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ زیر بحث آیا جس نے جدوجہد آزادی کے مجاہدوں میں نئی روح پھونک دی ہے۔ پاکستان کی ان کوششوں کی وجہ سے کشمیری عوام کا اسلام آباد پر اعتماد اب بھی بر قرار ہے، اس یقین کے ساتھ کہ وہ ان کے وکیل کا کردار بھر انداز سے ادا کر رہا ہے۔

اس وقت مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے پوری دنیا اور بالخصوص کشمیری عوام اور پاکستان کی نظریں ”ثالث فریق“ یعنی اقوام متحدہ کی طرف ہیں۔ کشمیر کی عوام اور پاکستان کو امید ہے کہ اقوام متحدہ ثالث کا کردار ادا کرے گی۔ دونوں کو یقین ہے کہ اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھا ئیں گے۔ بلا مبالغہ اس وقت اس اہم مسئلے پر پوری دنیا اقوام متحدہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کافرض بنتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں اور اس مسئلے کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے قابض فریق بھارت کو مجبور کر دیں کہ وہ وہاں کی عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے استصواب رائے کی اجازت دیں۔

بھارت گزشتہ سات عشروں سے وہاں قابض ہے۔ انھوں نے ظلم اور جبر کا ہر حربہ استعمال کیا لیکن پھر بھی وہ کشمیری عوام کو بھارت کے ساتھ شمولیت پر راضی نہ کرسکے۔ پاکستان نے بھی روز اول سے ان کی سفارتی، اخلاقی اور سیاسی مدد جاری رکھی ہو ئی ہے، جبکہ خود کشمیر کی عوام اور پاکستان کا مطالبہ ہے کہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے، لہذا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ وہاں کی عوام کو حق خود ارادیت دیں اور وادی میں استصواب رائے سے وہاں کی عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیں۔

اگر اقوام متحدہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر یہ انسانی المیہ اور بھی سنگین صورت حال اختیار کر سکتا ہے جو کہ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کے ماتھے پر تا حیات ناکامی کی صورت میں لٹکتا ہی رہے گا۔ اگر یہ بحران مزید سنگین ہو جاتا ہے اور اقوام متحدہ اپنا کردار ادا نہیں کر تا تو پھر عالمی اداروں سے ریاستوں اور قوموں کا اعتماد اٹھ جائے گا اور یہ ادارے صرف برائے نام ہی رہ جائیں گے۔ کوئی بھی ریاست یا قوم اس کا احترام نہیں کرے گی اور بالآخر یہ عالمی ادارے اپنی ساکھ برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے اپنا وجود بھی کھو سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments