ٹیکہ لگایں ورنہ چھوڑیں گے نہیں


یقینا خان صاحب کے لئے نئے سال کا آغاز بھی پچھلے سال کی طرح ہر گز خوشگوار ثابت نہیں ہوا۔ گندم کی قلت پر حکومت کی عوامی آو بھگت ہو رہی ہے، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے الجھے اعداد وشمار پر اپوزیشن اور حکومت کے درمیان خوب مارا ماری ہوئی ہے اور تو اور پی ٹی آئی کی اندرونی چقتلش کی پٹاری بھی سرعام بازار میں کھل گئی ہے۔ یوں تبدیلی کا یہ رواں کارواں نا عوام کو راس آ رہا ہے اور نا خان صاحب کے لئے سہل ثابت ہو رہا ہے۔ شاید اس کی بڑی وجہ ان دونوں تبدیلیوں کے پیچھے ایک ہی اناڑی کی کارروائی کا کارفرما ہونا ہے۔

چلیے ہم بات کرتے ہیں ہیں خان صاحب کی، جو سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس کا کامیاب دورہ کرکے ملک لوٹے ہیں۔ کامیاب دورہ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ عوام کو بتایا گیا ہے کہ خان صاحب کے تمام اخراجات ان کے ذاتی دوستوں نے اٹھائے ہیں۔ جس پر جتنا شکر بجا لایا جائے اتنا ہی کم ہے کہ خان صاحب نے سابقہ حکمرانوں کی طرح عوام کو اپنے دوستوں کے دائرے میں نہیں رکھا۔ جانے اس کامیاب دورے سے واپسی پر جانے خان صاحب کو کیا سوجھی انہوں نے ایک تقریب میں 2013 کی الیکشن کیمپین کے دوران اپنے گرنے والے حادثے پرانکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ دوران علاج و معالجہ ان کو ایسا انجکشن لگایا جس سے ان کو نرسیں، حوروں کی شکل میں دکھنی شروع ہو گئیں۔

خان صاحب کہ اس بیان نے جہاں سوشل میڈیا کے بہت سارے صارفین کو اپنے ”حسب ونسب“ کے مطابق مصروفیت پر لگایا۔ وہاں مجھ جیسے لوگوں کو اس بات پر اطمینان ہوا کہ شکر ہے کہ خان صاحب کو حوریں براستہ مولانا طارق جمیل صاحب کی سربراہی میں نظر نہیں آئیں۔ ورنہ کیا پتہ خان صاحب اپنے قابل اعتبار وسیم اکرم پلس کو دفتر کی چابیاں تھما کر مہینہ دو مہینہ بعد ایک چلہ ضرور لگانے نگل پڑتے۔ جس کہ بعد بزدار صاحب کو بین الاقوامی سطح پر بھی بتانا پڑ جاتا کہ ان کی ابھی ٹریننگ نہیں ہوئی۔

ویسے اگر خان صاحب کا بذات خود علاج شوکت خانم جیسے نسبتا معتبر ہسپتال میں نا ہو رہا ہوتا تو ایسے بیان کے بعد پرایؤٹ ہسپتالوں میں علاج معالجے کے نظام پر یہ تاثر اور مضبوط ہوجاتا کہ یہاں عزیز اقارب کی دعاوں کے بعد شفا، خمار آلود دوائیوں اور خوبصورت حوروں ہی مہیا کرتی ہیں ہے۔ بلکہ ہمارے طبی نظام میں تو اب عدالت اور نیب متاثرین کا بھی کامیاب علاج کیا جاتا ہے۔

خیر ہم گفتگو کا رخ حوروں والے ٹیکے کی طرف موڑتے ہوئے خان صاحب کو ان ٹیکوں کے بارے میں یاد دلاتے ہیں جو انہوں نے انتخابات سے قبل عوام کو لگائے تھے۔ ان ٹیکوں سے انصاف کی جلد فراہمی، بدعنوانی کا خاتمہ، معاشی اصلاحات، غربت میں کمی، روزگار کے مواقع، صحت اور تعلیم کی سہولتیں اور سرکاری محکوموں میں اصلاحات جیسی حوریں جیتے جاگتی نظر آنے لگے تھیں۔ پر جیسے ٹیکوں کا اثر ختم ہوا ہے عوام مہنگائی، نا انصافی، بے روزگاری، کرپشن، اور غریت جیسی دردوں سے کراہ رہے ہیں۔ کہیں ایسا نا ہو کہ عوام بھی آپ کو دھمکی دینے پر محبور ہوجایئں کہ جلد ٹیکہ لگایں، ورنہ چھوڑوں گے نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments