موسمیاتی تبدیلی اور ڈینگی کے ممکنہ تعلق کا کھوج


آزاد جموں وکشمیرمیں حکام گذشتہ سال ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافے کی وجوہات اور اس کا خطے میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں سے تعلق جاننے کی کوشش میں ہیں اور اس سلسلے میں ایک جامع تحقیقی رپورٹ مرتب کی جا رہی ہے جو ان کے بقول آئندہ سالوں میں ڈینگی اور دوسری وبائی امراض کو روکنے کی پیش بندی اور ہسپتالوں میں علاج معالجے کی بہتر سہولتوں کی فراہمی میں معاون ثابت ہو گی۔

آزاد جموں وکشمیرکی تحفظ ماحولیات ایجنسی کے تحت کام کرنے والے موسمیاتی تبدیلیوں کے مرکز کی اس تحقیق کا موضوع اگرچہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث وبائی شکل اختیار کرنے والی کئی بیماریاں ہیں تاہم گزشتہ سال مظفرآباد شہر میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافے کی وجہ سے اس وباء کو بطور خاص تحقیق کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اگرچہ اس تحقیق کے حتمی نتائج آنا ابھی باقی ہیں جن کی بنیاد پر جامع سفارشات مرتب کی جائیں گی تاہم ماہرین کو یقین ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران خطے میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں نے مختلف علاقوں کے ماحول کو ڈینگی مچھر کی افزائش کے لیے زیادہ عرصے تک سازگار بنا دیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے مرکز سے منسلک ڈپٹی ڈائریکٹر سردار رفیق کے بقول گذشتہ چند سالوں میں عالمی سطح پر رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان کے شمالی علاقوں گلگت بلتستان اور آزاد جموں وکشمیرپر نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے باعث اب خطے کے درجہ حرارت میں تبدیلی، خشک سالی، اچانک بارشوں، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔

۔ 2019 میں ڈینگی کے 1689 میں 1540 مریضوں کا تعلق صرف مظفرآباد سے ہے۔ دریا کا رخ بدلنے کے فوراً بعد درجہ حرارت میں اچانک تبدیلی اور ڈینگی کے مریضوں کے اتنی بڑی تعداد میں سامنے آنے سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ عوامل آپس میں جڑے ہیں۔ (فوٹو: جلال الدین مغل)

اوسط درجہ حرارت میں چھ ڈگری اضافہ

عالمی درجہ حرارت پرنظر رکھنے والے ادارے ورلڈ ویدر آن لائن کے اعداد و شمار کے مطابق جون 2019 میں مظفرآباد شہر کے اوسط درجہ حرارت میں گذشتہ سالوں کی نسبت پانچ سے چھ ڈگری تک اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ گذشتہ سال جون کے مہینے میں مظفرآباد کا اوسط درجہ حرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہے جبکہ ماضی میں اس شہر کا اوسط درجہ حرارت 24 سے 27 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا رہا ہے۔ اس سے قبل 2009 کو مظفرآباد کی تاریخ کا گرم ترین سال مانا جاتا تھا جب اس شہر کا اوسط درجہ حرارت 28 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا تھا۔

گذشتہ سالوں کی نسبت کئی گنا زیادہ بارشیں

درجہ حرارت میں اضافے کے علاوہ گذشتہ سال مظفرآباد شہر میں بارشوں کی مقدار میں بھی ماضی کی نسبت کئی گنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اگست کے مہینے میں 26 دن جبکہ جولائی میں 27 دن بارشیں ہوئیں جن کی مقدار بالترتیب 431 اعشاریہ چھ اور 426 اعشاریہ چار ملی میٹر ریکارڈ کی گئی جبکہ کہ اسی سال فروری کے مہینے میں 21 روز تک ہونے والی بارشوں کی مقدار 122 اعشاریہ نو ملی میٹرریکارڈ ہوئی۔ اس کے مقابلے میں گذشتہ دس سالوں کے دوران سب سے زیادہ بارشیں اگست 2011 میں ہوئی جن کا دورانیہ 21 دن رہا جبکہ ان کی مقدار 154 اعشاریہ 5 ملی میٹر رہی۔

قدرتی آفات سے نمبٹنے والے ادارے ایس ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں بارشوں کے دوران سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور کم از کم 40 شہری ہلاک بھی ہوئے۔

ماہرین ان اچانک اور غیر معمولی تبدیلوں کو اس خطے کے ماحول اور لوگوں کے لیے خطرناک قرار دے رہے ہیں جن سے ماحول میں دیگر تبدیلیوں کے علاوہ کئی طرح کی امراض میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ان امراض میں ڈینگی سر فہرست ہے۔

سردار رفیق کہتے ہیں کہ، ’حالیہ سالوں میں اس خطے میں ڈینگی سمیت بعض دیگر بیماریوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور کہیں نہ کہیں اس کا تعلق بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے جڑا ہے اور یہ بات ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سمیت کئی عالمی ادارے بھی کئی سالوں سے بتا رہے ہیں۔ ‘

 جون 2019 میں مظفرآباد شہر کے اوسط درجہ حرارت میں گذشتہ سالوں کی نسبت پانچ سے چھ ڈگری تک اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ اس سال جون میں مظفرآباد کا اوسط درجہ حرارت 31 ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہے جبکہ ماضی میں اس شہر کا اوسط درجہ حرارت 24 سے 27 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا رہا ہے۔ (بشکریہ: ورلڈ ویدر آن لائن)

ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اچانک کئی گنا اضافہ

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں یکم اگست سے 12 نومبر کے درمیان آزاد کشمیر میں ڈینگی کے کل 1689 کیس سامنے آئے جن میں سے ایک مریض ہلاک ہوا۔

محکمہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق آزاد کشمیر میں ڈینگی کا پہلا کیس 2016 میں سامنے آیا اور اسی سال کل 383 کیس سامنے آئے جن میں سے 381 کیس صرف مظفرآباد میں رپورٹ ہوئے۔ تاہم ڈاکٹرز کے بقول ان میں سے زیادہ ترمریضوں کو دوسرے شہروں میں مچھر کے کاٹنے سے متاثر ہوئے اور وہ بعد میں مظفرآباد منتقل ہوئے۔

2017 اور 2018 میں ڈینگی کے کل پانچ پانچ کیس سامنے آئے جبکہ 2019 میں ڈینگی کے 1689 مریضوں میں سے 1540 کا تعلق مظفرآباد شہراور ارد گرد کے دیہی علاقوں سے ہے۔ ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اچانک کئی گنا اضافے کی باعث عوام اور حکام بیک وقت تشویش میں مبتلا ہیں۔

محکمہ صحت کے متعدی امراض کے مرکز سے منسلک ڈائریکٹر ڈاکٹر محمود کیانی کے کہتے ہیں درجہ حرارت میں تبدیلی وجہ سے ڈینگی کی افزائش کے دورانیہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے بقول اس سے قبل عام طور پر ڈینگی کے کیس جون سے ستمبر کے درمیان سامنے آتے تھے تاہم اس سال اپریل کے مہینے میں بھی ایک کیس سامنے آیا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے مقامی محرکات

ماہرین کے مطابق اگرچہ ماحولیاتی تبدیلیاں ایک عالمی مظہر ہیں جن میں پاکستان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے تاہم ان تبدیلیوں کے کچھ مقامی محرکات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنگلات کا کٹاؤ اوردریاؤں کے رخ موڑنے جیسے عوامل نے درجہ حرارت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ یہاں کے قدرتی ماحول کو متاثرہ کیا ہے۔

نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد مظفرآباد شہر میں بہنے والے دریائے نیلم کا رخ موڑ کے اس زیرزمین سرنگ میں ڈال دیا گیا جس کے نتیجے میں گذشتہ دو سالوں میں مظفرآباد شہر کے اوسط درجہ حرارت میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ جبکہ آئندہ چند سالوں میں کوہالہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر کے لیے دریائے جہلم کا رخ بھی موڑنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ماہرین بار بار خبردار کر رہیں کہ شہر سے دونوں دریاوں کا رخ موڑنے سے پیدا ہونے والا ماحولیاتی بگاڑ درجہ حرارت میں تبدیلی کا پاعث بنے گا جس سے شہر میں انسانی زندگی بری طرح متاثر ہو گی۔

 اگست کے مہینے میں 26 دن جبکہ جولائی میں 27 دن بارشیں ہوئیں جن کی مقدار بالترتیب 431 اعشاریہ چھ اور 426 اعشاریہ چار ملی میٹر ریکارڈ کی گئی۔ (بشکریہ: ورلڈ ویدر آن لائن)

ڈینگی متاثرہ شہروں سے لوگوں کی مظفرآباد میں آمد

متعدی بیماریوں کے مرکز کے ڈائریکٹر نے ایک تحریری مراسلہ میں مظفرآباد میں ڈینگی کے پھیلاؤ کی جن وجوہات کا ذکر کیا ہے ان میں ڈینگی سے متاثرہ ہونے والے پاکستان کے مختلف شہروں سے بڑی تعداد میں لوگوں کی مظفرآباد آمد کی وجہ سے بھی یہاں اس مرض کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مراسلہ میں بتایا گیا کہ سال 2019 کے دوران راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور، کراچی، ایبٹ آباد اور دوسرے علاقوں میں ڈینگی کی وبائی صورت حال تھی۔ ان علاقوں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے یے بڑی تعداد میں آنے والے لوگوں کی وجہ سے بھی ڈینگی کا وائرس مظفرآباد میں پہنچا اور مریضوں کی تعداد میں اچانک اضافے کا باعث بنا۔

دریا کے کناروں پر مچھروں کی کالونیاں

دریا کے پانی میں اچانک کمی بیشی کے باعث بعض اوقات دریا کے کناروں پر بننے والی عارضی تالابوں میں پانی کئی دن تک ٹھہر جاتا ہے اور ڈاکٹر محمود کے بقول ’ٹھہرا ہوا صاف پانی ڈینگی کے مچھر کی افزائش کے لیے ایک آئیڈیل جگہ ہے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کے دریا کنارے ڈینگی کی افزائش ہوتی ہو۔ ‘

محکمہ صحت عامہ کے فراہم کردہ اعداد و شمارکے مطابق خطے میں اب تک سامنے والے ڈینگی کے کیسز میں 90 فیصد سے زیادہ کا تعلق مظفرآباد شہر اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں سے ہے۔ 2019 میں 1689 میں 1540 مریضوں کا تعلق صرف مظفرآباد سے ہے۔ دریا کا رخ بدلنے کے فوراً بعد درجہ حرارت میں اچانک تبدیلی اور ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اضافے سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ عوامل آپس میں جڑے ہیں۔

نیلم جہلم پاور پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد مظفرآباد شہر میں بہنے والے دریائے نیلم کا رخ موڑ کے اس زیرزمین سرنگ میں ڈال دیا گیا جس کے نتیجے میں گذشتہ دو سالوں میں مظفرآباد شہر کے اوسط درجہ حرارت میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔ (فوٹو: جلال الدین مغل)

اس سے قبل خیال کیا جاتا تھا کہ اس خطے میں ڈینگی کا مچھر موجود نہیں اور یہاں رپورٹ ہونے والے کیسز میں زیادہ ترلوگ دوسرے شہروں میں مچھر کے کاٹنے سے متاثر ہوئے اور پھر یہاں اپنے گھروں میں منتقل ہوئے۔ تاہم حکام کے مطابق 2019 میں ڈینگی کے مریضوں میں زیادہ تر تعداد ان خواتین اور بچوں کی ہے جنہوں نے کبھی شہر سے باہر سفر نہیں کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مظفرآباد شہر میں ڈینگی کا مچھر نہ صرف موجود ہے بلکہ اسے افزائش کے لیے درکار ماحول بھی میسر ہے۔

ڈینگی کے مریضوں میں سے زیادہ تر کو مظفرآباد شہر کے عباس میڈیکل انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز یا ایمز میں لایا گیا۔ ایمز کے پاس اگر چہ واضح اعداد و شمار موجود نہیں تاہم ڈنیگی کے مریضوں کو طبی امداد دینے والے ایک اہلکار کے مطابق وہاں لائے گئے زیادہ تر مریضوں کا تعلق دریائے نیلم اور جہلم کے کنارے آباد بستیوں سے تھا اور ان میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔

ڈاکٹر محمود کیانی کے مطابق 2017 اور 2018 میں محکمہ صحت نے شہر کے مختلف علاقوں میں ایسی جگہوں کی صفائی کی اور وہاں پر ادوایات کا چھڑکاؤ کیا جہاں ممکنہ طور پر ڈینگی کے مچھر کی افزائش کا امکان تھا۔ اسی دوران دیکھنے میں آیاکہ دریائے نیلم اور دریائے جہلم کے کناروں پر بھی ڈینگی مچھر کی کالونیاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

وہ امکان ظاہر کرتے ہیں کہ دریا میں پانی کی کمی اور درجہ حرات میں اضافے جیسے عوامل کی وجہ سے ڈینگی کے مچھر کی افزائش زیادہ ہوئی ہو۔ اس لیے ان کے بقول محکمہ صحت اب تیاری کر رہا ہے کہ آئندہ سال دریا کے آس پاس آبادی والے علاقوں میں بر وقت ادوایات کے چھڑکاؤ کے ذریعے مچھروں کی کالونیاں تباہ کر دی جائیں۔ تاہم ڈاکٹر محمود کے مطابق یہ تنہا حکومت کے بس کا کام نہیں اس میں عوام کی شمولیت اور تعاون بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

ڈینگی کے مریضوں کے لیے علاج کی ناکافی سہولتیں

حیرت انگیز طور پر حکومت آزاد کشمیر نے ڈینگی کے وباء میں اضافہ کے باوجود ڈینگی کنٹرول پروگرام کے لیے علیحدہ سے کوئی بجٹ مختص نہیں کیا بلکہ کئی دہائیوں سے چلتے ملیریا کنٹرول پروگرام کے فنڈز اور سٹاف کو ہی ڈینگی کنٹرول پروگرام میں مامور کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ڈینگی کے مریضوں کے علاج کے لیے اگرچہ شہر کے بڑے ہسپتالوں میں عارضی طور پرعلیحدہ وارڈز قائم کیے گئے تھے تاہم ان وارڈ میں بھی مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج معالجے کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔

شہر کے سب سے بڑے سول ہسپتال ایمز میں داخل رہنے والی ڈینگی کی ایک مریضہ نے بتایا کہ وہ دو ہفتے تک ہسپتال میں داخل رہیں مگر اس دوران انہیں پیرا سٹامول اور درد کے انجکشن کے علاوہ کسی قسم کی ادوایات نہیں دی گئیں۔

اس بارے میں محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈینگی کے مریض کو دوا سے زیادہ آرام کی ضرورت ہوتی ہے اور اس حالت میں زیادہ ادوایات کا استعمال مریض کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا کر دیتا ہے۔

ماہرین کے بقول ڈینگی پر قابو پانے کے لیے اس مرض کے علاج سے زیادہ مچھر کی افزائش کو روکنے والے اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور اس عمل میں حکومت کے علاوہ عوام کو بھی اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔

ایک تحقیق کے مطابق ڈینگی مچھر کی افزائش روکنے کے لیے کیا جانے والا سپرے بھی صحت اور ماحول کے لیے مضر ہے اور اس سے کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں اس وجہ سے اب سپرے کے بجائے دوسرے طریقے اختیار کرنے پر تحقیق ہو رہی ہے۔

ختم شد

(مصنف کا تعارف: جلال الدین مغل اسلام آباد/وادی نیلم میں مقیم صحافی ہیں۔ وہ تبدیلیوں، سیاحت اور کشمیر کی صورتحال پر منفرد ذاویے سے لکھتے ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments