بے حس سماج میں احساس کا قتل


قوم کے لئے کیوں کوئی کام کرے؟ ذات کے لئے کیوں نہ کریں؟ یہ کون لوگ ہیں جو ذات کو چھوڑ کرقوم کے لئے کام کرتے ہیں؟

اپنی ذات کی خوشگواریاں، بچوں کی فکر، گھر کی فکر چھوڑ کریہ دیوانے کون ہیں جن کو گھربار، ذات کی پرواہ نہیں اورقوم کے لئے ہر لمحہ فکر منددیکھے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسے دیوانے زیادہ نہیں تو گنتی کے چند ضرور ایسے دیکھے ہیں جن کو اپنی ذات، گھر بار، بیوی بچوں سے زیادہ قوم کی غریبی، تکلیف اورپسماندگی کی فکر لگی رہتی ہے۔ یہ کون ہوتے ہیں کیوں ہوتے ہیں کیسے ہوجاتے ہیں اور کس لئے ہوجاتے ہیں اس کے لئے ایسے لوگوں کے قریب رہنا پڑتا ہے۔

یہ لوگ حساس ہوتے ہیں، مفکر ہوتے ہیں، درد مند ہوتے ہیں اور یہ محسوس کرتے ہیں کہ قوم کی پسماندگی، غربت، بدحالی اور جھالت جب ختم ہوجائے گی تو ان کی اپنی ذاتی، گھربارکی اور اہل و عیال کی بدحالی بھی خود بخود ختم ہوجائے گی۔ مگر پھر بھی ایسے دیوانوں کو دیکھ کر مجھے تو رشک آتا ہے کیسے کرلیتے ہیں یہ سب کچھ اس نفسا نفسی کے دور میں جہاں لوگ اپنی غموں سے فارغ نہ ہو ں وہاں دوسروں کی غموں کے لئے زندگی وقف کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔

ایسے لوگوں کو اکثر اپنے گھر، رشتہ داروں اور قریبی دوستوں کی طرف سے سننے کو ملتا ہے تم پاگل ہو، بے وقوف ہو، سرپھرے ہو، اپنی فکر کرو، بچوں کی فکر کرو گھر کی فکر کرو۔ لیکن ایسے لوگ ایک بھی ایسی بات سننے اور ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ایک تو ایسے لوگوں کی پرسپشن بن جاتی ہے دوسرے ایسے لوگوں میں تجسس، فکر، سوچنے، سمجھنے، اورحساسیت ہوتی ہے جو ان کو قوم کی فکر جیسے موزی مرض میں مبتلا کردیتے ہیں۔ مرض کا نام میں اس لئے استعمال کرتا ہوں کہ اکثریت کو چھوڑ کراقلیت میں خوش رہنا، خود کو ہر قسم طعنوں، مصیبتوں اورگالیوں کے باوجود اپنا کام نہ چھوڑنا اس کو کوئی کیا نام دے۔

دیوانے کو ساری دنیا پاگل دکھتی ہے سار ی دنیا کو یہ پاگل دکھتا ہے بس یہی دیکھا ہے بے حس، جھالت، پسماندہ سماج میں ایک حساس، درد مند، سوچنے والے اور قوم کے غمخوار بندے کا حال۔ حالانکہ اسی بندے کے مرنے کے بعد میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جب کوئی ان کا نام زندہ کرنے کے لئے کام کرے اور تاریخ میں ان کا نام زندہ دیکھ کر پھر وہی اہل و عیال، رشتہ دار اور دوست ان کے نام کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں جو زندگی میں ان کو پاگل بے وقوف کہتے نہیں تھکتے تھے۔

اور اگر دیکھا جائے تواس سے بڑھ کر کوئی بے وقوف ہوسکتا ہے جن کو نہ نام کی فکر، نہ شھرت کی، نہ عیش کی نہ اپنے اھل و عیال کی بس دن رات کام کرتا رہتا ہے اور قوم کی مصیبتوں، تکلیفوں کا حساب کرتا رہتا ہے اور ان کو ختم کرنے کے لئے اپنے حصے کا چراغ جلاتا جاتا ہے۔ افسوس ایسے پاگلوں پرجو زمانے سے ہٹ کر سوچتا ہے۔ کیونکہ سوچ اور کام سے زیادہ اپنوں کی باتیں، طعنے اوربے عزتی انسان کو سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے۔ روز ایسے انسان کی قتل ہوتی ہے روززخمی ہوتا ہے کڑھتا ہے تکلیف میں ہوتاہے لیکن اپنی عادت نہیں چھوڑتا۔ خواہش سے نہیں گرتے پھل جولی میں۔ وقت کی شاخ میرے دوست ہلانا ہوگا۔ کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو برا کہنے سے۔ اپنے حصے کادیا خودہی جلانا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments