پانچ فروری، چُھٹّی، مُودی اور ہم


ہر قوم کی زندگی میں قومی، ثقافتی یا مذہبی حوالے سے کُچھ دِن بہت خاص اہمیت کے حامِل ہوتے ہیں۔ یہ اہمیت ماضی کے کسی اہم واقعہ کے سبب ہوسکتی ہے، کسی رسم و روایت کی تاسیس یا اِحیا کی مرہونِ منّت، یا پھر کسی خاص شخصیت سے مُنسلِک۔

وجہ چاہے جو بھی ہو، اِن دِنوں کے منائے جانے میں جو ایک اہم نُکتہ پیشِ نظر رہنا چاہیے وہ ہے اُس مقصد کا حصول کہ جس کی بنیاد پر وہ دن اہم تصّور کیا جاتا ہے۔ یہ مقصد اگر فقط عہدِ رفتہ کی یاد کے طور پر حال میں موجود رہا اور مستقبل سے کسی ربط قائم رکھنے میں ناکام ہُوا، تو جان لینا چاہیے کہ اب اُس دن کی اہمیت اور مقصدیت ایک سوالیہ نشان بن چُکی ہے اور اپنے اندر جھانک کر تلخ سوالات پوچھنے کا وقت آن پہنچا ہے۔

ہمارے ہاں اِس طرح کے کئی دِن فقط علامتی حیثیت اختیار کرچُکے ہیں اور عمَلی طور پر جو چیز اُن سے منسوب کی جاسکتی ہے، وہ ہے ”چُٹھّی“۔ ایک عام آدمی کی زندگی کا ایسے دِنوں کے حوالے سے جو پلان ہوتا ہے اُس میں معمولاتِ زندگی سے ہٹ کر اُس دِن سے متعلق کچھ اسپیشل نہیں ہوتا، ماسوائے چند خصوصی ٹی پروگرامز کے یا اسکولوں میں منعقدہ بچوں کی تقاریب کے، پھِر چاہے وہ 23 مارچ ہو یا 14 اگست۔

آپ یومِ یکجہتی کشمیر کی مثال بھی لے لیجیے۔ بَھلا ہو قاضی حسین احمد صاحب کا کہ جن کے توسّط سے آج بھی قوم پانچ فروری کو چُھٹّی انجوائے کرتی ہے (گو کہ باقاعدہ عام تعطیل کا آغاز بعد میں ہُوا) ۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ 1991 میں اُس وقت کے وزیرِ اعظم، جناب نواز شریف نے، جب قاضی صاحب کے تجویز کردہ کشمیر ڈے کو منانے کا اعلان کِیا تو وہ دراصل ایک سال پہلے الیکشن میں جماعتِ اسلامی کی طرف سے حِمایت کا شُکرانہ اور سِپاس گُزاری کا اِظہار تھا۔

خیر، کہنے والے کُچھ بھی کہیں، ہمیں اِس میں شک نہیں ہونا چاہیے کہ کشمیر ڈے منائے جانے کے اعلان کے پیچھے یقیناً مقصد عوامُ النّاس میں اِس مسئلے کا شعور اُجاگر کرنا اور پوری دنیا کو یہ باور کرانا رہا ہوگا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ اِس فیصلے کے ذریعے ہم اُن دور رَس نتائج حاصل کرنے کے متمنّی ہوں گے جو کشمیر کے حوالے سے ہمارے دیرینہ موقف اور دعویٰ استحقاق سے تطبیق رکھتے ہیں۔

سوال پھر یہ ہے کہ اِس دن کے ساتھ کشمیر کاز کی وہ عمارت جو ہم نے تین دہائیاں پہلے تعمیر کرنا شروع کی اُس کے باہر آج بھی ”آگے تعمیراتی کام جاری ہے“ کا بورڈ کیوں نصب ہے؟ خُوش گُمانیوں کے اِس سَرسبز و خوش رنگ باغ میں خِزاں کی زردی کیونکر دَر آئی؟ اور کشمیر کاز کیوں ہَنُوز ہمُوں آش درکاسہ کی صُورت اختیار کیے ہوئے ہے؟

اِس سوال کے جواب کے لیے ہمیں خود پر نظر ڈالنی ہوگی۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ کشمیر ڈے کے حوالے سے ریاستی سطح پر ہمارا دائرہ عمل ہمیشہ سے صرف چند تقاریب، ایک منٹ کی خاموشی، جوشیلی تقاریر، یا پھر حالیہ طور پر اُس نئے رُجحان تک محدود ہے جس میں ہمارے محافظ ہر بڑے سانحہ کے بعد ایک نیا نغمہ ریلیز کرکے عوام کے زخموں کی اِندمالی کا فریضہ، کارِ مسیحا سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔

خیر سے وطنِ عزیز میں کشمیر کے لیے ایک خصوصی وزارت بھی 1949 سے موجود ہے جو مختلف تبدیلیوں سے گُزر کر آج کل ”کانا“ (Kashmir Affairs and Northern Areas) کے مختصر نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ کثیرالجہتی و خود وضاحتی اختصاری نام اِس وزارت کی فعّالیت کی درست تصویر پیش کرتا ہے۔

گو کہ اِس وزارت کے اِغراض و مقاصد میں بنیادی طور پر آزاد جمّوں و کشمیر کی حکومت کو گورننس سے لے کر ڈیویلپمنٹ تک مدد فراہم کرنا ہے لیکن مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھی اِس پلیٹ فارم کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

چوں کہ آزاد کشمیر کی حکومت کے معاملات کی ناؤ عموماً وفاقی حکومت کی طرف سے آتے ہوئے پانیوں میں بغیر ہچکولے لیے سکون اور روانی سے تیرتی رہتی ہے لہٰذا وفاقی وزیرِ برائے کشمیر اُمور کو زیادہ دقّت پیش نہیں آتی۔ کرنا صرف اتنا ہے کہ ہر سال پانچ فروری کو صبح سویرے اُٹھ کر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ایک بیان دینا ہے کہ ”کشمیر ہمارا ہے“۔ اور حسبِ قابلیت و ذوقِ ادب، ”دُودھ مانگو گے، شِیر دیں گے / کشمیر مانگو گے، چِیر دیں گے“ یا پھر ”یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنّت/ جنّت کِسی کافر کو مِلی ہے نہ ملے گی“ جیسے اشعار اُس بیان میں شامل کرکے کشمیری عوام کو حمایتی اور بھارت کو تخویفی پیغام پہنچانا ہے۔ بعد ازاں، اگلی پانچ فروری تک راوی اگر چین بھی نہ لِکھے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔

اِس مرتبہ بھی پانچ فروری کا دن ماضی سے مختلف نہیں تھا۔ وہی علامتی ریلیاں، حکومتی وزراء کی دُھواں دھار تقاریر، پی آئی اے کی فلائٹس میں مسافروں کو کشمیری جھنڈوں کی تقسیم اور پھر وزیرِ اعظم صاحب کی مظفر آباد میں شُہودِ اِلحامی کی حدوں کو چھُوتی پیش گوئی کہ، آزادی بہت قریب ہے۔ لیکن کیا ایسا کرنے سے کشمیریوں کی داد رَسی ہوپائے گی؟ یا وہ سب بدل پائے گا جو 5 اگست 2019 کے بعد وادی کشمیر میں بھارت کر چُکا ہے؟

تو آئیے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر نظر ڈالتے ہیں۔ چھ ماہ تک جاری مواصلاتی روابط کی بندش کے بعد بھارتی حکومت نے خطّے میں ٹُو۔ جی موبائل انٹرنیٹ سروسز بحال کردی ہیں۔ کچھ ماہ پہلے بورڈ کے امتحانات کا انعقاد بھی کیا گیا۔ گو کہ خوراک و ادویات کی دیگر علاقوں سے ترسیل ابھی تک ممکن نہیں لیکن رفتہ رفتہ اِن معاملات میں بھی نرمی کا امکان ہے۔ یہ تمام اقدامات نیم خوابیدہ اور کشمیر کی طرف سے تجاہلِ عارفانہ سے کام لینے والی دنیا کے لیے نیند کی گولی ثابت ہوں گے۔

پھر بھارت کی کامیاب سفارت کاری کارِ دیگر اَست۔ اس کی ایک مثال اِس ہفتے بھارت کے متنازع ترمیمی ایکٹ برائے شہریت (CAA) اور کشمیر کے اسپیشل اسٹیٹس کی منسوخی کے خلاف یورپی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی قرارداد پر ہونے والے ووٹ کا اِلتوا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ووٹنگ کو مودی کے 13 مارچ کو متوقع برسَلز دورے پر انڈیا۔ یورپی یونین سَمِٹ کی اہمیت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ملتوی کِیا گیا ہے۔

اِس کے علاوہ بھی مودی سرکار پچھلے چھ ماہ میں خاص منصوبہ بندی کے تحت کشمیر کے حوالے سے اپنے اہداف کی طرف تیزی سے بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ مودی ان اہداف کو اپنے موجودہ دورِ حکومت میں حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ اس بات کا امکان ظاہر کِیا جارہا ہے کہ مودی سرکار نے اسرائیلی سیٹیلمنٹس کی طرز کا فارمولا کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کے لیے اپنانے کا پلان تیار کرلیا ہے۔ اِس بات کے یقینی ہونے کو، بھارتی مین لینڈ سے بڑے صنعت کاروں کو کشمیری اراضی کی سو سالہ لِیز کی آفر، بھارتیوں کو کشمیر کے ریزیڈینس سرٹیفیکیٹس کے اجراء کا اِرادہ، اپنی مرضی کے قوانین کے اِطلاق کی غرض سے جمّوں و کشمیر ہائی کورٹ کے حقوق دہلی منتقل کیے جانے جیسے اقدامات سے تقویت ملتی ہے۔ مزید یہ کہ کشمیر کی بھارت نواز حکومت کی شیلف۔ لائف ختم ہونے کے بعد دہلی سرکار نے اُن سے چھُٹکارا حاصل کرکے ایک نئی کٹھ پُتلی حکومت لانے پر بھی کام شروع کردیا ہے۔

اگر ہم اِس خام خیالی کا شِکار ہیں کہ اِن جارحانہ اقدامات سے مودی کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے اِس لیے وہ مزید کوئی سنگین قدم اُٹھانے سے پہلے سوچے گا تو ہمیں یہ غلط فہمی دُور کرنی ہوگی۔ اگر مودی کے ماضی اور اب تک کے دورِ حکمرانی کو دیکھا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کی نظر روایتی سیاستدانوں کی طرح اپنی ساکھ اور کُرسی بچانے پر نہیں رہتی۔ نہ ہی مودی کی کاروباری مجبوریاں ہیں اور نہ ہی خاندانی۔ لہٰذا ہندُوتوا ایجنڈا کے تحت totalitarianism کے قیام اور پھر اُس کے ذریعے اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے میں مودی کے راستے میں کہیں بھی کمپرومائز کی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔

لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہم فقط پانچ فروری کا انتظار کرنے کے بجائے بھارت کی جارحیت کو پسپا کرنے کے لیے ایک مضبوط و مربوط لائحہ عمل طے کریں۔ روایتی جنگ اور پراکسی وار کے نہ ہم متحمّل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اُن سے کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔ دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے ڈائیلاگ، کانفڈنس بلڈنگ میژرز، کرکٹ ڈپلومیسی وغیرہا جیسے راستے ہم پہلے آزما چُکے ہیں۔ گوکہ یہ کارآمد ثابت نہیں ہوئے لیکن یہ سب جاری رہنے چاہیں۔ لیکن اِن کے ساتھ ساتھ ہمیں بین الاقوامی سطح پر اقوامِ متحدہ میں جوشیلی تقاریر سے بڑھ کر کچھ کرنا ہوگا۔

اس وقت کشمیر کی پارلیمانی کمیٹی کے 28 اراکین ہیں جن میں دیگر پارٹیز کے وسیع تجربہ رکھنے والے سیاستدان بھی شامل ہیں۔ فقط وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ پر انحصار کے بجائے، اِن اراکین کو بشمول کشمیری رہنماؤں کے، پوری دنیا میں بھارت کے اقدامات سے پیدا ہونے والی صورتحال کا احساس دلانے کے لیے سفیر کے طور پر استعمال کیے جانا چاہیے۔ آرٹیکل 370 اور 35 A کی منسوخی پر، جو کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی بھی ہے اور حقوقِ انسانی کی پامالی کا مسئلہ بھی، بین الاقوامی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا ہوگا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہمیں مختصر اور طویل المدتی اہداف کا تعیّن کرنا ہوگا۔

بصورتِ دیگر، یہ بات واضح ہے کہ غنیم کے تَرکش سے تِیر نکل چُکے، 5 اگست 2019 کو شہہ رگ پر خنجر کی نوک رکھ دی گئی، خون شہہ رگ سے بہہ کر ایڑیوں تک پہنچ چُکا۔ اگر اب بھی ہم خود کو آمادہ عمل نہیں پاتے تو کوئی پانچ فروری ایسی بھی آسکتی ہے، جب ہم چُھٹّی انجوائے کر رہے ہوں گے اور ٹی وی پر کوئی خوش لَحن نغمہ سَرا ہوگا کہ ”دیگر بہ خُود منازَ کہ تُرکی تمام شُد“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments