پیپلزپارٹی کی حق حاکمیت سے دستبرداری


پاکستان پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ نے گزشتہ دنوں قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے تناظر میں پریس کانفرنس کی۔ پیپلزپارٹی کے صدر امجد حسین ایڈوکیٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت واضح کرچکی ہے کہ گلگت بلتستان کو وہ کچھ بھی نہیں دے سکتی ہے تو پھر ہر چھ ماہ بعد سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیوں بلایا جاتا ہے؟ پیپلزپارٹی کے صدر نے وفاق پر یہ الزام بھی عائد کردیا کہ اب ان کی نظریں گلگت بلتستان اسمبلی کو ملے ہوئے اختیارات پر ہیں، وفاقی حکومت عدالتوں (عظمیٰ واعلیٰ ) میں ججوں کی تقرری کے لئے طے شدہ جوڈیشل کونسل کے طریقہ کار کو بھی ختم کرنا چاہتی ہے اور اپنے من پسند افراد کو لگانے کی سازش کررہی ہے۔

پیپلزپارٹی صدر نے انتہائی افسوس اور مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیپلزپارٹی نے جو حق حاکمیت تحریک چلائی تھی اس سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہیں کیونکہ وفاق اس کے لئے کسی صورت راضی نہیں ہورہی ہے اور پٹواری تک وہ جی بی کے لوگوں کو لگانا نہیں چاہتی ہے، ایسی صورت میں ہم حق حاکمیت تحریک چلائیں گے تو علاقے میں ’جبری گمشدگیاں، غدار کے فتوے‘ اور گرفتاریوں جیسے مسائل پیدا ہوں گے، جس کا نہ علاقہ متحمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی ہماری اتنی ہمت ہے لہٰذا بددلی کی بنیاد پر اس تحریک کو ختم کرتے ہیں اور آئندہ اپنے وسائل کے دفاع پر قوت صرف کریں گے جسے انہوں نے حق ملکیت کا نام دیا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں پارٹی کی صوبائی کابینہ کا کوئی ذمہ دار نہیں تھا البتہ نگر کے سینئر سیاستدان، شام کے بھولے محمد علی اختر، اور صدر ضلع غذر ایوب شاہ ہمراہ تھے۔

پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر حالیہ قومی سلامتی اجلاس پر برس پڑے۔ الفاظ کا چناؤ بھی ا نتہائی سخت تھا، لہجے میں مایوسی تھی، مقبوضہ کشمیر اور جی بی میں مشابہت ڈھونڈلی۔ حکمرانوں پر اس قدر تنقید کرلی کہ شاید پیچھے لگے ہوئے بھٹو خاندان کے تصاویر بھی شرماگئے۔ بظاہر امجد ایڈوکیٹ کی گفتگو صحافیوں سے تھی، اور تنقید حکمرانوں پر تھی لیکن نشانہ کہیں اور تھا، جس میں کبھی حکمرانوں کا کردار نہیں رہا ہے۔ حق حاکمیت سے دستبرداری کا اعلان ایک دباؤ تھا جس نے جہاں لگنا ہے لگے گا۔ کرب، ازیت، استحصالی، پسماندگی، ریوڑھ، جمہوری جبر جیسے الفاظ کے ذریعے گلگت بلتستان اور یہاں کے عوام کا تعارف کرایا۔ جی بی بار ایسوسی ایشن کے کردار کی تعریف کی کہ ان کی وجہ سے جوڈیشل کونسل کا قیام عمل میں آیا ہے۔

پیپلزپارٹی کی سیاست گزشتہ چند مہینوں سے بالخصوص سید جعفرشاہ کے پی ٹی آئی صدر بننے کے بعد بالکل محدود ہوگئی ہے۔ ورنہ اس سے قبل پیپلزپارٹی نے میدان میں اپنا لوہا منوایا تھا، اچھے برے وقت میں وہ حکومت سے زیادہ عوام کے قریبتھی۔ حق حاکمیت اور حق ملکیت کے نعرے نے پیپلزپارٹی کو مقبولیت اور پذیرائی بخشی۔ بلاول بھٹو زردار ی کے 2 دوروں نے پیپلزپارٹی کی تحریک کو عروج پر پہنچادیا تھا۔ پیپلزپارٹی واحد سیاسی جماعت بنی ہوئی تھی جس کے مرکزی منشور میں گلگت بلتستان سے متعلق واضح موقف درج تھا۔

حکومت کو کمزور کرنے یا حکومت کے دیے ہوئے خلاء کو پورا کرنے میں پیپلزپارٹی کا ثانی نہیں تھا۔ حق ملکیت اور حق حاکمیت نعرے کے بینر تلے تین مختلف جلسوں میں عوام کی والہانہ شرکت نے بھی میدان سیاست میں انہیں نمایاں کردیا تھا۔ اس دورانیے میں باوجود اس کے کہ پیپلزپارٹی کی مرکز کمزور تھی صوبائی قیادت نے شاندار اور جاندار مہم چلائی۔ عوامی مسائل کو اٹھایا، دفاتر میں پیپلزپارٹی کے کارکن اور قائدین کسی نہ کسی کا ہاتھ تھامتے نظر آتے۔

بدلتے حالات میں پیپلزپارٹی کا موقف لازم قرار پایا۔ لیکن کئی مہینوں تک محدود سرگرمیوں کے بعد گزشتہ دنوں ایک مایوس کن پریس کانفرنس کرکے حیرت میں ڈال دیا۔ پیپلزپارٹی کے صدر کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلے کے بعد آئندہ انتخابات میں دلچسپی کم رہ گئی ہے۔ انہوں نے گلگت بلتستان کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر سوالیہ نشان لگالیا۔ اس موقع پر صحافیوں کے متعدد سوالات کو اپنے جذبات اور گفتار کی روانی میں گول کرگئے۔

پیپلزپارٹی کا یہ موقف سمجھ سے بالاتر ہے کہ صدارتی حکمنامے (پریذیڈنشل آرڈر) کی بجائے عدالتی حکمنامہ (جوڈیشل آرڈر) بہتر ہے اور اس پر فوری عملدرآمد کرانا چاہیے حالانکہ گلگت بلتستان کو فریم ورک آرڈرز سے نکال کر صدارتی حکمنامے تک پیپلزپارٹی لے کر آئی ہے، اب تک اس میں سوائے معمولی تبدیلیوں کے ساتھ پرانی شراب نئی بوتل کے مصداق لیبل تبدیل کیا جارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈوکیٹ کی جانب سے اس دعویٰ کی تصدیق کہیں سے ابھی تک نہیں ہورہی ہے کہ قومی سلامتی کونسل میں جوڈیشل کونسل کو ختم کرنے اور گلگت بلتستان اسمبلی کو اب تک ملے ہوئے اختیارات کو واپس کرنے پر غور کیا گیا، ممکن ہے کہ پیپلزپارٹی نے اس صورتحال میں اپنا بیانیہ بنانے کے لئے ان دو باتوں کو شامل کرلیا ہوگا کیونکہ وفاق اور گلگت بلتستان میں حکومتی معاملات سے بالکل باہر ہونے کی وجہ سے نہ شنوائی ہورہی ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی خبر پیپلزپارٹی سے نکل رہی ہے۔ اب اختیارات صرف قومی اسمبلی یا سینیٹ کی حد تک ہے جہاں پر آج تک اس موضوع کو زیر بحث نہیں لایا گیا ہے، ممکن ہے آنے والے دنوں میں اس بات کو زیر بحث لاکر پیپلزپارٹی خود کو دوبارہ سسٹم میں داخل کرے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے اس سخت گیر موقف اور بیانیہ، تحریک انصاف کی خاموشی اور مسلم لیگ ن کی تیراکیوں سے آئندہ انتخابات کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ وفاق کے زیر اثر انتخابات کا تجربہ اب نیا نہیں رہا ہے اور نہ ہی حکومت کے بدمستوں سے واقفیت کوئی نئی بات رہی ہے۔ گلگت بلتستان کی تینوں بڑی جماعتوں نے انہی چیزوں کی بنیاد پر دریا چیر کے عوام تک پہنچنا ہے، جس میں پیپلزپارٹی مایوسی بیچی گی، تحریک انصاف ہوائی نعرے اور مسلم لیگ ن ماضی کی بھول بھلیوں کو لے کر آئے گی۔ فیصلہ عوام کا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments