ڈپریشن کا علاج روحانی ترقی سے ممکن ہے


اس موجودہ صدی کو اگر معجزاتی صدی کہا جائے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ ایک صدی پہلے کی دنیا پہ نظر ڈالی جائے تو لگتا ہی نہیں کہ یہ دنیا یہ زمین وہی ہے۔ وہی خاکی انسان ہے۔ جو ایک سو سال پہلے یہاں بستا تھا۔

تصور کیجئیے صرف سو میل سفر کرنے کے لئے سارا سارا دن لے جانے والا انسان چاند اور مریخ پہ کمنڈ ڈال لینے کا دعویدار ہے۔ وہ انسان جو موت کا پیغام بھیجنے کے دوسرے شہروں اور ساتھ والے گاؤں تک اس پیغام کی رسائی کے لئے کسی دوسرے آدمی کا محتاج تھا۔ جہاں قریبی شہر میں بسنے والے بہت عزیز لوگ اپنے عزیزوں کی نماز جنازہ تک ادا کرنے سے محروم رہ جاتے تھے۔ وہاں اب دنیا کے دوسرے کونے میں مقیم لوگ اپنوں کی غم اور خوشی میں پہنچتے دیر نہیں لگاتے۔ انسان پیدل مارچ سے سائیکل تک اور اب جہاز تک کی سواری کو تسخیر کر چکا۔

انسان نے اس میدان میں مواصلات سے ٹرانسپورٹ اور نا جانے کن کن میدان میں اپنی ایسی دھاک بٹھادی ہے کہ بغور معائنہ کرنے سے ایسے ایسے کرشمے محسوس ہوتے ہیں کہ عام انسانی عقل دنگ رہ جائے۔

اسی طرح اگر انسانی تاریخ کا مطالعہ فرمایا جائے تو پتہ چلے گا کہ کروڑوں انسانوں کی موت محض بخار جیسی معمولی اور بے ضرر بیماری سے ہو جایا کرتی تھی۔ ملیریا کا علاج دریافت ہونے سے پہلے انسان مچھر کے کاٹنے سے ہی مرجاتا تھا پینسلین دریافت ہونے سے پہلے بہت سی جلدی بیماریاں انسان کے لئے وبال جان کا سا مقام رکھتی تھیں۔

مگر آج کے دور میں کینسر، ہیپاٹائٹس اور بہت سی خوفناک بیماریوں سے نا صرف وقتی نجات پا لی جاتی ہے بلکہ ان بیماریوں کا موجب بننے والے جراثیم تک کو ختم کر کے دائمی علاج ڈھونڈ لئے گئے ہیں۔

افسوس کی بات صرف یہ ہے کہ یہ انسانی ترقی محض مادی نوعیت کی ثابت ہوئی۔ انسان نے مادی علوم میں اس درجہ مہارت حاصل کر لی کہ وہ ہواوں میں اڑنے لگا سمندروں کے پیٹ میں اترنے لگا مگر اس کے برعکس وہ روحانی طور پہ اتنا کمزور ہے کہ کہ خود پر بھی قابو پانے کا حل تلاش نا کر سکا۔ بلکہ یوں کہوں کہ انسان مادی طور پہ جتنا ترقی کی طرف گیا روحانی طور پہ اتنی ہی پستی کا شکار بھی ہوا۔

کیا ہمیں معلوم ہے کہ اس دور میں جب کینسر تک کا علاج ڈھونڈ لیا وہاں انسانوں میں سب زیادہ پائی جانے والی بیماری کا علاج ہی ممکن نہیں۔

اور وہ بیماری ہے ڈپریشن، ایگزائٹی، نفسیاتی دباو

کبھی سوچا کہ اس بیماری کا علاج کیوں ممکن نا ہوا شاید آپ میری بات سے متفق نا ہوں۔ مگر میرا خیال ہے کہ اس بیماری کا علاج روحانی ترقی سے ممکن تھا جو ہم سے ہو نا سکی۔

قارئین یہ نفسیاتی بیماری آج ہر تیسرے آدمی میں پائی جاتی ہے۔ کبھی غور کیا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ وجہ بڑی سادہ سی ہے جناب اور وجہ ہے عدم برداشت۔

جی جناب عدم برداشت۔

یہ عدم برداشت اگر ہمارے جسمانی عضاء میں ہوتی تو شاید اس قدر خوفناک نا ہوتی کوئی انسان اگر اپنے جسم پر تکلیف برداشت نہیں کرتا کوئی بات نہیں سمجھ میں آتا ہے کہ اس تکلیف کو برداشت کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں نظریاتی اختلاف حتی کہ انسانوں کے انداز بیان تک کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں اور اس قوت کی کمی ہی کے چلتے ہم اس درجہ انسانیت سے بھی گر گئے ہیں۔ کوئی شخص اگر ہمارے نظریے سے اختلاف رکھتا ہے تو بجائے ہم اس کی بات کو سن کر اس کی کھوج لگائیں یا پھر اتنا ہی کریں گے وقتی طور پر اس سے لا تعلق ہو جائیں۔

اور اس کی کہی باتوں کے جواب میں ہم اپنے دلائل لانے کے لئے اپنی صلاحیت بروئے کار لائیں۔ ہم یہ سب کرنے کی بجائے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ اور بے جا بحث کو نصب العین اور اپنا حق سمجھنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے آج ہمارا معاشرہ بے شمار اختلافات اور نفرتوں کا مسکن بن گیا ہے۔ یقین کیجئیے اختلافات با شعور قوموں کو علم کے حصول کی نئی جہت عطا کرتا ہے۔ جس سے نت نئے فلسفے جنم لیتے ہیں لیکن یہ سب با شعور قوموں میں ہوتا ہے ہمارے ہاں ہر کوئی اپنے ہی کوزے کو سمندر بتلانے پہ بضد۔ اگر آپ اس کی بات نہیں مانتے تو آپ پرلے درجے کے ہونق ہو جاہل ہو انپڑھ ہو اور نا جانے کیا کیا القابات آپ سے منسوب ہونے کو بے تاب ہوں۔

اس کے برعکس برداشت کسی بھی فرد اور مجموعی طور پر معاشرے کی نشوونما کی پہلی شرط۔ جن لوگوں یا قوموں نے قوت برداشت پیدا کر لی ان کی کامیابی میں کوئی شے کبھی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اس ضمن میں ہمارے بزرگ ایک واقعہ سنایا کرتے تھے۔ رستم زماں گامے پہلوان کو کون نہیں جانتا۔ گامے پہلوان نے اپنی زندگی میں ایک بھی اکھاڑا کبھی نا ہارا۔

ایک دن وہ صبح سویرے ایک دہی فروش کی دکان پہ گئے دہی خریدتے ہوئے شاید کچھ گرما گرمی ہوئی۔ جس پر دکان دار نے طیش میں آتے ہوئے گامے پہلوان کے سر پہ سودا تولنے والے ترازو کا وہ برتن جسے باٹہ کہتے ہیں، مار دیا۔ گامے کا سر پھٹ گیا سر سے خون کے فوارے ابلنے لگے۔ مگر گامے نے سر پہ ایک کپڑا باندھا اور خاموشی سے گھر آ گیا۔ اس کے بعد گامے کے گھر میں عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا لوگ عیادت کرنے کے بہانے آتے اور گامے کو طعنے سناتے کہ تم رستم زماں ساری دنیا میں پہلوان کہلانے والے شخص اس چھٹانک بھر کے دکاندار سے مار کھا کر بدلہ لینے کی بجائے خاموشی سے گھر بیٹھ گئے۔ تف ہے تم۔

گامے پہلوان نے سب لوگوں کو سنا دھیمے سے ہنستے ہوئے۔ بولا تم جانتے ہو مجھے پہلوان میری اس طاقت نے نہیں بنایا بلکہ مجھے میری قوت برداشت نے پہلوان بنایا ہے ورنہ شاید میں کبھی بھی رستم زماں نا کہلاتا۔

جناب عالی میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم میں قوت برداشت پیدا ہو جائے۔ ہم بھی تکلیفوں اور لوگوں کی باتوں اور رویوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کر لیں۔ تو ہم میں سے ہر کوئی گاما پہلوان اور سکندر بادشاہ ہو گا۔ ہماری زندگیوں سے بے سکونی اور نا چاھتے ہوئے دھر آنے والی تلخیاں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جائیں گی۔ ہماری راتیں پر سکون اور دن خوشگوار ہو جائیں گے۔

کامیابیاں برداشت مانگتی ہیں بے شک صبر کرنے والے ہی منزلوں کا تعین کرنے میں کامیاب ہوا کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments