آج سات فروری ہے!


ہم شاید اپنے آپ کو الف لیلہ کی شہرزاد سمجھے بیٹھے ہیں کہ داستان در داستان گھڑے چلے جا رہے ہیں۔ بخدا ہم قطعی کسی مقتل کی دہلیز پہ موجود نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر دن کی مناسبت سے کوئی نہ کوئی بات در دل پہ دستک دیتی ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ کیوں نہ کہہ دی جائے کہ لفظوں سے کھیلنے کا شوق دل سے جاتا نہیں۔

آج ہمیں جو کہانی سنانی ہے اس کے لئے ہمیں شائبہ گزرتا ہے کہ آپ کے لئے بھی یہ داستان دلچسپ ٹھہرے گی کہ یہ ایک حیرت زدہ اجنبی کی ہم کلامی تھی، جس نے چاہا کہ دوسروں کی تنہائیوں میں کچھ لمحوں کے لئے اپنی تنہائیوں کو ملایا جائے۔

یہ پچھلے برس اوائل فروری کا قصہ ہے۔ ہم ہسپتال میں اپنے دفتر میں بیٹھے تھے۔ کچھ فراغت تھی، سوچا “ہم سب” کی خبر لی جائے۔ وجاہت مسعود، وسعت اللہ خان، محمد حنیف اور نورالہدی شاہ کے کالم جس دن نظر آ جائیں، اس روز زبان پہ چاشنی تو گھلتی ہی ہے، زندگی کے کچھ تلخ لمحات بھی سہل ہو جاتے ہیں۔

ایسےہی ایک خیال نے ذہن کے کسی نہاں گوشے سے سر اٹھایا کہ کیوں نہ ہم بھی کچھ ارسال کرنے کی جسارت کریں۔ خیال کا اترنا تھا کہ دل تیزی سے دھک دھک کرنے لگا۔ ہم نے پچھلے دو ہی ہفتوں میں بہت سی ان کہی، بہت سی ان سنی کو خون جگر کی سیاہی سے الفاظ کا لباس پہنایا تھا اور یہ سب ہمارے فون کے نوٹس میں خامشی سے رہائی کی منتظر تھیں۔

ہم نے اپنے آپ سے سرگوشی کی،کونسی تحریر؟ صحت سے متعلق پیچیدگیاں یا سفر نامہ ؟ ذاتی یادداشت یا معاشرتی مسائل، عورت سے کیا جانے والا ناروا سلوک یا کسی ادبی شخصیت کو خراج تحسین؟ حالات حاضرہ یا سیاست؟

اسی بے اختیاری میں اپنے آپ سے الجھتے آخر کار ایک جذباتی مضمون پہ نظر جا رکی۔ سوچا، ٹیسٹ ٹرانسمیشن کی طرح یہی سہی۔ تحریر کے ساتھ تصویر بھی چاہیے تھی، اس کا کیا کریں؟ ہسپتال میں بیٹھے تھے، سیکرٹری سے دریافت کیا، کیا کوئی تصویر ہے ہمارے ریکارڈ میں؟ اس نے ہمارے ہسپتال کے کارڈ پہ لگنے والی پاسپورٹ سائز تصویر انتہائی کٹی پھٹی شکل میں ہمارے سامنے لا رکھی۔ انتہائی غصے کے تاثرات لئے شعله آور آنکھوں والی تصویر کی حالت کافی ناگفته بہ تھی اور لگتا یوں تھا کہ شاید پچھلی صدی کی یادگار ہے۔ ہم نے انتہائی شان بے نیازی سے سوچا کہ قاری کو تو تحریر سے دلچسپی ہو گی، ہماری شکل سے کیا غرض؟

جیسے کبھی جوابی خط کے انتظار میں چلمن سے لگ کے ڈاکیے کی راہ دیکھی جاتی تھی اور ہر آہٹ پہ جان پہ بن آتی تھی بالکل اسی طرح ہم اگلے تین دن اپنا دل ہتھیلی پہ لئے کمپیوٹر کی سکرین سے لگے بیٹھے رہے۔ بالآخر سات فروری 2019 کو دل کی مراد پوری ہونے کا سندیسہ آیا۔ سو یوں جانیے کہ آج سات فروری، آپ سب اور ‘ہم سب’سے ہمارا تعلق قائم ہونے کا یادگاری دن ہے۔

 سب والدین کی اپنے بچے کی پہلی سالگرہ پہ خوشی، مسرت اور بے چینی دیدنی ہوتی ہے۔ یقین جانیے، یہاں بھی کچھ ویسا ہی عالم ہے۔ جیسے لخت جگر کے پاؤں پاؤں چلنے کی کہانی ماں کو ہمیشہ یاد رہتی ہے، ویسے ہی کچھ یادیں اور کچھ باتیں ہمیں بھی دہرانی ہیں۔

پہلا مضمون چھپ جانے کے بعد ہمت بندھی اور جو باقی سامان بندھا پڑا تھا وہ بھی ارسال کرنے کا حوصلہ کر ڈالا۔ دوست احباب نے پڑھنے کے جو کہا سو کہا لیکن ایک بات سب کی زبان پہ تھی، یہ برہم مزاج دکھانے والی تصویر کیا انیس سو ڈیڑھ کے زمانے کی ہے؟ ہم خوب اونچا قہقہہ لگاتے ہوئے کہتے، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری کاوش کو ہماری صلاحیت سے پرکھا جائے، آخر تصویر میں کیا رکھا ہے!

ہم داد دیتے ہیں “ہم سب” کے مدیران کی خندہ پیشانی کی جنہوں نے وہی مٹی مٹی، دھندلی سی تصویر کئی مضامین کے ساتھ چھاپی اور آخر کہا تو صرف اتنا کہ اگر کوئی بہتر ریزولیوشن والی تصویر بھیج سکیں تو بہتر ہو گا۔ ہماری ڈھٹائی دیکھئیے کہ بھیجی تو پھر وہی لیکن ذرا بہتر حالت میں۔

‘ہم سب’ کا ساتھ ہونے سے زندگی میں بہت سے رنگ در آئے۔ ہم نے بہت سی باتیں کہیں، بہت سی کہانیاں لکھیں، کبھی تخیل میں گم ہو کر ان کہی کہنے کی کوشش کی کہ شاید کہیں کسی کی اندھیری رات میں کوئی دیا جل اٹھے۔ کبھی تخیل سے آزاد ہو کر کچھ کے زخموں پہ پھاہے رکھے کہ شاید کہیں کوئی جاں بہ لب دوبارہ سے جی اٹھے۔ کچھ تعفن زدہ مقامات پہ ہم نے اس امید پہ نشتر زنی کی کہ شاید زندگی سے ہارے ہوؤں کا نہ بھرنے والا زخم سل جائے۔

 ہماری تحریروں پہ آپ سب کے تبصرے اور آرا ملیں۔ کچھ متفق، کچھ مخالف، کچھ ہمت بندھاتی، کچھ منہ کے بل گراتی، کچھ محبت سے لبریز، کچھ سنگساری کا پیام دیتی۔ کسی دن ہم قوس قزح کے رنگوں کو ہاتھ لگاتے اور کسی دن منہ کے بل آ گرتے۔ لیکن یقین جانئے ہم نے آپ کے ہر لفظ کو غور سے پڑھا اور اختلاف رائے کو آپ کا مقدم حق سمجھا۔

اس سفر میں دوست احباب اور شناسا تو ساتھ تھے ہی، بہت سے مہربان ایسے بھی ملے، جنہوں نے ہمارے الفاظ کے ذریعے ہمیں جانا اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ ڈاکٹر عارفہ سیدہ، گوہر تاج، ہما کوکب بخاری، نیلم احمد بشیر، ڈاکٹر لبنی مرزا، عشرت آفرین، نادرہ مہر نواز،عفت نوید، ساجد علی، ڈاکٹر خالد سہیل، ہادیہ یوسف، حارث اظہر، سلمی اعوان، مینا نقوی اور صائمہ بانو کی عنایات سے ہمارا دامن بھاری ہے اور ان سب کی محبتیں ہمارے پہ قرض ہیں۔

مدیران”ہم سب” وجاہت مسعود اور عدنان کاکڑ کی پذیرائی کا ذکر کئے بنا یہ داستان مکمل نہیں ہوتی۔ ہماری تحریروں کی نوک پلک درست کرنے، رنگوں کی آمیزش کرنے اور اجنبی لکھاری کو ایک قافلے کا حصہ بنانے کا شکریہ کیسے ادا کریں کہ تنگئی الفاظ کا سامنا بھی ہے اور اپنی کم مائیگی کا احساس بھی۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ہمارے شوق کو مہمیز کرنے میں ان صاحبان باکمال کا کمال ہے۔

ہمیں علم نہیں کہ شہرزاد ہزار راتوں تک داستان کہتی رہے گی کہ نہیں۔ اندھے احساسات سے گھائل الفاظ کو کب تک برت سکے گی کہ زندگی کے ہر پیچ و خم، ہر اندھے موڑ کے پیچھے کیا چھپا ہوتا ہے، وہاں پہنچنے پہ ہی یہ راز عیاں ہوتا ہے۔

دیکھیے سلیم الرحمن نے کیا زبردست کہا ہے!

رات کی کتاب کھلتی جائے گی پھر ورق ورق

سچ کی تاب گر لا سکیں تو کیا جان جائیں گے

کیا نہیں تھے ہم، کیا نہیں ہیں ہم؟

چند اک ورق، سادہ و سیاہ

چند اک ورق، رنگ سے سجے

جتنے متن ہیں، اتنے بھید ہیں، رمز سے رجے

جاگتے ہوئے، جھانکتے ہوئے

پڑھتے جائیں گے، جو بھی ہے لکھا، جو بھی ہے چھپا

ہر خیال میں روشنی کی رو

رات کی کتاب ہاتھ میں لئے

ہم بھی ہیں ابھی

دور دور تک اور دیر تک

اپنے آپ میں کھوئے راہ رو

ہم میں جو بھی ہے اصل کی جھلک

کون چھو سکا اس کے تار و پو

مسکراہٹیں، ٹمٹماہٹیں اور پھر وہی

یاس میں بسی اپنی بے بسی

ہے کوئی کہیں منتظر ؟ اور یہ سفر؟

اس کی آڑ میں ڈھونڈتے ہیں کیا؟

جو نہ مل سکا؟ جو گنوا دیا ؟

جتنے ہیں جواب اس کتاب میں

خود سوال ہیں، کیا پتا کہ ہم

دیکھنے میں ہوں اک سوال جو حل نہ ہو سکے

یہ ہمیشگی آج میں جو ہے، دائمی خلش

اس پہ چل سکے کیا کسی کا بس

گو کھلی رہے تا ابد یہی رات کی کتاب

بھول کا حساب، یاد کا حساب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments