کیا خلیل الرحمان قمر عورتوں کے خلاف ہیں؟


1945 کے بعد انگریزی میں جو ڈرامے لکھے گئے وہ مختلف موضوعات پر لکھے گئے۔ جس نے زندگی کی نئی سمتوں کا تعین کیا۔ پہلے سٹیج پر اور بعد میں مختلف ذرائع ابلاغ کے ذرئعے یہ ڈرامے پیش کیے گئے۔ ہیرلڈ پنٹر، آرنلد ویسکر، جارج برنارڈ شا، سیموئیل بکٹ اور شیکسپیر کے علاوہ کئی تخلیق کاروں اور لکھاریوں نے ڈرامے میں اپنے دور کے مسائل، فکر اور رومانس وغیرہ کو پیش کیا۔ مگر شیکسپیر کے ڈراموں کو جو شہرت اور بلندی نصیب ہوئی شاید ہی کسی اور کو وہ شہرت ملی ہو۔ ان کے ڈراموں کنگ لیئر، اوتھیلو، ٹویلفتھ نائٹ وغیرہ کے ڈائیلاگ اب بھی انگریزی ادب سے تعلق رکھنے والوں کو یاد ہیں۔

انگریزی ادب کے علاوہ اردو میں بھی کئی لکھاریوں نے ڈرامہ لکھنے پر طبع آزمائی کی۔ ان لکھاریوں میں امتیاز علی تاج، عبداللہ حسین، آ غا حشر کاشمیری، حسینہ معین، قدسیہ بانو، فاطمہ ثریا بجیا وغیرہ شامل ہیں۔ نئے لکھنے والوں میں عمیرہ احمد کے علاوہ نورالہدی شاہ، فرحت اشتیاق، وصی شاہ، ثروت نظیر کے علاوہ لاتعداد نام ہیں جنہوں نے اس نئے دور کے مسائل کو اپنا موضوع بنایا۔

مگر خلیل الرحمان قمر کو جو شہرت ڈرامہ میرے پاس تم ہو سے ملی وہ شاید ہی کسی اور رائٹر کو ملی ہو۔ اس کے ڈرامے نے ان موضوعات کو چھیڑا ہیں جس نے معاشرے کے مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کوکئی حوالوں سے سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ خلیل قمر کی تعریف بھی ہورہی ہے اور اس پر تنقید بھی۔ خاص طور پرسماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والی اور لبرل سیکولرنقطہ نظر رکھنے والی لڑکیاں یا خواتین اس ڈرامے کے کنٹنٹنس اور خلیل صاحب کے مختلف بیانات سے خائف دکھائی دیتی ہیں۔ شایدوہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس نے بہت سے ٹاک شوز میں خواتین کے حقوق کی نفی کی ہے۔ یا ان کے وقار یا ساکھ کو نقصان پہنچا یاہے۔ ان میں ایسی خواتین بھی ہیں جنہوں نے قمر صاحب کے کام اور ڈرامہ نگاری کے فن کو سراہا ہے۔

میں نے جو پروگرام دیکھے ہیں۔ اس سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خلیل قمر ایک منجھے ہوئے ڈرامہ نگار کے طور پر ابھرے ہیں۔ وہ اپنے ناظرین کو متوجہ کرنے کا گر جانتے ہیں۔ وہ عورت اور مرد کی سائیکی کو بہتر سمجھتا ہے۔ وہ اس چیز کی پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ بلکہ ببانگ دھل اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ وہ مرد کو عورت سے زیادہ مظلوم سمجھتا ہے۔ مگر بعض معاملات میں عورت کو مرد سے بھی ا علی اور بہتر سمجھتا ہے۔

ان کے جائز مطالبات کو سپورٹ کرتا ہے اور بلا وجہ عورتوں کے حقوق کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کی بولتی بند کرنے میں ہچہچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ وہ کھلے لفظوں میں بے حیا اور بے وفا عورتوں پر تنقید کے تیر برساتا ہے۔ اور بے غیرت مرد کو مرد نہیں مانتا۔ ایک اہم بات جس کا تذکرہ وہ بار بار کرتے ہیں۔ وہ ہمارے ثقافتی و معاشرتی اقدارہیں۔ وہ ا پنے معاشرے اور اس کے اقدار و تہذیب سے جڑی چیزوں کو ختم کرنے یا اگنور کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ ان اقدا رو روایات کو پیرو تلے روندنا خلیل قمر کے ہاں ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ آپ خلیل قمر کے بیانات اور ڈرامے کے مرکزی خیال سے اختلاف بھی رکھ سکتے ہیں اور اتفاق بھی۔ کیونکہ کوئی بھی انسان مکمل غلط یا صحیح نہیں ہوسکتا۔

مجھے جو چیز اپنی جانب کھینچتی ہے وہ ہیں ہمارے رسوم، روایات، اسلامی اقدار و رمعاشرے میں عورت اور مرد کا مقام ہیں جس سے آپ چاہیں بھی تو روگردانی نہیں کرسکتے۔ اب اگر کوئی سیکولر یا لبرل ہو یا کسی بھی طبقے اور فکر سے تعلق رکھتا ہو۔ اگر اس نے مشرقی اور پاکستانی معاشرے میں آنکھ کھولی ہو اس کو پتہ ہوتا ہے کہ مرد اور عورت کی کیا کیا ذمہ داریاں ہیں۔ اسے یہ بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ معاشرے میں عورت اور مرد کی اپنی شناخت ہوتی ہے۔

دونوں کی جسمانی خدوخال اور زندگی گزارنے کا رنگ ڈھنگ الگ ہوتا ہے۔ مرد عورت کی جگہ اور عورت مرد کی جگہ نہیں لے سکتا۔ بعض مواقع پر دونوں باہم مل کر زندگی کی گاڑی کو آگے چلاتے ہیں۔ خاندان کا ادارہ ان دونوں کی مرہون منت ہے۔ ہمارے معاشرے میں اسی خاندان کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اگر میاں بیوی کے تعلقات خراب ہو تو اس کا اثر بچوں پر پڑتا ہے اور ان کی نشونما، تعلیم اور ذہنیت میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر شادی شدہ یا غیر شادی شدہ لڑکی کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جائے تو معاشرہ اس عورت اور ان کے بچوں کو معاف نہیں کرتا اور ان کے پڑوسی ا س خاندان والوں سے تعلقات رکھنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ اسی لڑکی کو بھگانے والا اگر چہ مرد ہوتا ہے، معاشرہ پھر بھی اس کومن و عن تسلیم کرتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ ایک کھلا تضاد ہے۔ اور ان جیسے تضادات سے عورتوں میں محرومیاں پیدا ہوتی ہے۔

خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے بھی مردوں کے اختیارات زیادہ ہوتے ہیں۔ تمام فیصلے اسی کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ وراثت میں اپنی بہن کو حصہ دینا یا نہ دینا اس کی منشا پر ہوتا ہے۔ اپنی دشمنی کو ختم کرنے میں بھی اپنی بہن یا بیٹی کو ونی کی نظر کردیتے ہیں۔ لڑکی کی شادی کا فیصلہ اس کا باپ یا بھائی کرتا ہے مجال ہے کہ لڑکی کچھ کہہ سکے۔ ان تمام رسومات، روایات اور سماج میں مرد کے بڑھتے اثرو رسوخ کی وجہ سے معاشرے میں عورت دبی رہتی ہے۔

یہ ساری قدغنیں ہماری اپنی پیدا کردہ ہیں ورنہ ہمارے مذہب نے دونوں کو برابر کے حقوق دیے ہیں۔ خواہ وہ وراثت کے حقوق ہو یا اپنی مرضی سے شادی کرنے کی۔ اب اگر ایک عورت خاندان سے آزادی، مغربی معاشرے کا کلچر یا رہن سہن، یا بے پردگی کو حقوق سے تعبیر کرتی ہے تو اس کی اجازت نہ ہمارے دین میں ہیں۔ اور نہ ہمارا معاشرہ اس کو قبول کرتاہے۔ خلیل قمر کے مطابق یہ 36,35 عورتیں ہیں جنہوں نے آسمان سر پہ اٹھا یا ہوتا ہے۔ جو ہر وقت اپنے حقوق کی پرچار کرتی ہے۔ مگر ان کا مقصد کچھ اور ہوتا ہے۔

بات اس پر ختم کرتے ہیں کہ اگر مرد حیا کا پیکر ہے تو عورت کو بھی حیادار ہونا چاہیے اگر مرد اپنی بیوی سے وفا کرتا ہے تو عورت کو بھی اس رشتے کا لحاظ رکھنا چاہیے، مرد اور عورت ایک دوسرے کا لباس ہیں اگر اس لباس میں سوراخ پیدا ہو جائے تو پھر دونوں کی علیحدگی ہی واحد حل ہے، ۔ میں نہ اسلامی سکالر ہو اور نہ کوئی بڑا سکالر۔ جو میں بہتر سمجھتا ہوں اسی کو لکھتا ہوں۔ باقی تضادات ساری دنیا میں ہوتے ہیں ایک کا نقطہ نظر دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ لیکن خلیل قمر نے ڈرامہ میرے پاس تم ہو لکھ کر بہت سے سولات کو جنم دیا ہے، ایک مثبت مکالمے کے لئے راہ ہموار کردی ہے اورلوگوں کی ذہن سازی میں اہم کردار اداکیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments