کارل مارکس کو جام کمال کا جوابی خط


جب سوسائٹی میں کسی بھی طبقے کی غالب اکثریت کسی مقصد کی خاطر بالادست اور قبضہ گیر طبقے کے خلاف ڈٹ جائے تو میں اسے تحریک ہی کہوں گا۔ ہر تحریک کے پیچھے ایک مقصد یا نظریہ ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک لینن اور مارکس کے نظریات سے متاثر ہوکر شروع کی گئی۔ اسی طرح تحریک پاکستان کا مقصد برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ مملکت کا قیام تھا۔ اب بلوچستان میں بھی اچھے اور سینئر افسروں نے خاموش مزاحمتی تحریک شروع کردی ہے۔

جس کا مقصد کرپشن اور حکمرانوں کے غلط فیصلوں کو ناں کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 50 فیصد سے زائد سنیئر افسر اس حکومت میں کھڈے لائن بیٹھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اگر بلوچستان میں گریڈ 20 اور 21 افسروں کی تعداد 50 ہے تو اس میں تقریبا 22 افسر سائیڈ لائن بیٹھ کر تنخواہ لینے کو غنیمت جان رہے ہیں۔ کچھ افسر بادل ناخواستہ صوبہ چھوڑ کر دیگر صوبوں میں ڈپوٹیشن پر کام کر رہے ہیں۔

مزید آفسر لمبی رخصت لے کر یا پھر او ایس ڈی رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ جہاں صوبے میں سیاسی بلوغت سے محروم حکومت کا وجود ہے وہیں پر کمزور پوزیشن رکھنے والے صوبے کے انتظامی سربراہ چیف سکریڑی بلوچستان کا خود کو نظام سے دانستہ طور پرلاتعلق رکھنا رہی سہی کمی کو پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے بظاہر یوں لگتا ہے کہ صوبے کے وزیر اعلی اورچیف سیکریٹری اپنے اپنے مخصوص ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور انہیں قانون و قواعد کی ذرہ بھر پرواہ نہیں ہے۔

جس سے مقامی بیوروکریسی حکومتی معاملات سے لا تعلقی کو اپنے حق میں بہتر جان رہی ہے۔ حال ہی میں حکومت بلوچستان نے نئی مہنگی ترین گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا تو خلاف قانون مہنگی ترین گاڑیوں کی خریداری سے انکار اور اختلافی نوٹ لکھنے پر صوبائی سروس کے خوددار اور اصول پسند ایڈیشنل سیکرٹری ایس انیڈ جی اے ڈی حمیداللہ ناصر کو تبدیل کر دیا گیا پھر حکومت نے گاڑیوں کی خریداری میں چور راستہ ڈھونڈنے کے لئے بندوق بی پیپرا کے کندھے پر رکھ کر چلانے کا فیصلہ کیا۔

لیکن بی پیپرا کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر پرویز احمد نوشیروانی نے ریاست اور قانون سے وفا داری کرتے ہوئے حمید اللہ ناصر کے اعتراض کو نہ صرف قانونی قرار دیا بلکہ سمری میں ”کارل مارکس“ کے دانشورانہ قول اور قران مجید سے اقتباسات کے حوالے بھی دیے تاکہ ایماندار وزیراعلی کو قانون کے ساتھ خوف خدا بھی یاد دلایا جاسکے۔ لیکن یہ بات وزیراعلی کی طبعیت پر اس قدر گراں گزری کہ انہوں نے چیف سکریڑی بلوچستان کو مینیجنگ ڈائریکٹر بی پیپرا کی جواب طلبی کا حکم دیا۔

جنہوں نے بلا چون و چرا اس کی تعمیل کی۔ یہاں پچھلے دور کا ایک واقع یاد آیا جب ڈاکٹر مالک بلوچ اور نواب ثنا اللہ زہری وزرا اعلی تھے تواس وقت کے دو وزیروں عبدالرحیم زیارت وال اور رحمت صالح بلوچ نے اپنے لئے بلٹ پروف گاڑیاں خریدنے کے لئے پانچ کروڑ روپے کی سمری چیف سکریڑی کے اختلافی نوٹ کے باجود منظورکروائی لیکن نظام کے ساتھ اور چیف سکریڑی کے منصب کی لاج رکھنے والے اس وقت کے چیف سکریڑی بلوچستان سیف اللہ چھٹہ نے اپنے ماتحت افیسران کو خریداری سے روکا جو کہ آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ دو وزراء اعلی کی منظور کردہ خلاف قانون سمری کے باوجود خریداری نہ ہوسکی۔ موجودہ چیف سکریڑی کو شاید یہ معلوم نہیں کہ پرویز نوشیروانی اوریکل ڈیٹابیس پروگرامنگ لینگوئج کی ڈگری رکھتے ہیں جو پاکستان میں بہت ہی کم لوگوں کے پاس ہے۔ جواب طلبی نوٹس میں سکیشن افسر لکھتے ہیں کہ زیر دستخطی کو ہدایت کی گئی ہے کہ بحوالہ سمری نمبری SO (BAJJ) 14۔ 15 / 2018۔ 19 dated 20 th December، 2019 یہ بیان کریں کہ عزت مآب وزیراعلی بلوچستان نے آپ کی جانب سے سمری میں ”کارل مارکس“ کے دانشورانہ قول اور قران مجید سے اقتباسات کے حوالے دینے کا شدید نوٹس لیا ہے کہ ایسے مبہم حوالہ جات ایسے معاملے میں جہاں خریداری سے متعلق تکنیکی مشورہ طلب کیا گیا تھا میں سمری اور سرکاری کاغذات میں کوئی مقصد پورا نہیں کرتے۔ جو آپ کی جانب سے خریداری جیسے حساس معاملات جن کا براہ راست تعلق وزیراعلی سکریٹریٹ سے ہے میں غیر سنجیدہ اور سطحی دلچسپی کا مظہر ہے۔

لہذا آپ کو ہدایت کی جاتی ہے۔ کہ جناب وزیراعلی بلوچستان کی مندرجہ بالا آبزویشن / مندرجات کا تین دن کے اندر تحریری جواب دیں اور ٹھوس وجوہات کے ساتھ بیان کریں کہ حکومت عمومی طورپر ایسی خریداری کس طرح کرے۔ تاکہ معاملہ جناب وزیراعلی بلوچستان کو پیش کیا جا سکے۔ گویا بلوچستان میں کوئی جمہورت نہیں رہی اور اختلاف رائے کوئی جرم ہو یا وزیراعلی بلوچستان کے منصب پر وائسرائے ہند موجود ہو ان سے اختلاف کرنا گناہ کبیرہ ہو۔ اول تو منیجنگ ڈائریکٹر بی پیپرا سیکریٹری فنانس کے ساتھ کام کرتا ہے دوئم بی پیپرا ریگولیٹری اتھارٹی ہے جس کے کام میں حکومت مداخلت نہیں کر سکتی ہے، سوئم سیکشن افسر ایس انیڈ جی اے ڈی، بی انیڈ اے کس حیثیت میں گریڈ 20 کے افسر کو وضاحت کا خط لکھ رہا ہے اگر ضرورت تھی تو یہ سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی کو لکھنا چاہیے تھا

چیف سیکرٹری بلوچستان کی نظام سے لاتعلقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو دن قبل سوشل میڈیا پر اسسٹنٹ کمشنر دالبندین کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد چیف سیکرٹری تو دور دور تک نظر نہیں آئے جبکہ وہاں سے تعلق رکھنے والے وزیر نے واقعے کا نوٹس لیا اور تحقیقات کا حکم دے دیا یعنی انتظامی معاملات بھی اب وزیر چلائیں گے مقام ماتم تو یہ ہے کہ چیف سکریڑی نے اپنی سرکاری رئشگاہ اور دفتر کی تزئین و آرائش میں بھی ٹینڈرز اور دیگر قانونی لوزامات پورے نہیں کیے۔

اور اس میں بھی رولز رلیکس کرنے کے لئے ایس انیڈ جی اے ڈی نے بی پیرا کو خط لکھ دیا تاکہ اس کو بنیاد بنا کر وزیراعلیٰ بلوچستان سے بذریعہ سمری منظوری لی جاسکے سوال یہ ہے آڈٹ پیرا کے جواب کون دے گا؟ یہاں ہمارا گلہ اپوزیشن جماعتوں سے بھی ہے۔ کہ وہ کہاں ہیں چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اختر حسین لانگو کیوں خاموش ہیں؟ حالانکہ یہ تمام چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں۔ کبھی بیل گائے بکریوں کے نام پر تین کروڑ روپے ضائع کرنے والے تو کبھی چائنیکی ہوٹل کی تصاویر ٹیوٹر پر ٹانک کر اور کراچی کے مہنگے ترین ہوٹل میں سیاحت کے فروغ کے لیے کام کرنے والے وزیراعلیٰ بلوچستان نے شاید کارل مارکس کے معاشی نظریات کو پڑھا نہیں ہے کیونکہ مارکس نے سرمایہ داری معاشرے کی حرکت کا اقتصادی قانون دریافت کیا۔

اس معاشرے کے ارتقا کا کھوج لگایا۔ اس کے زوال کو پر کھا اور اس کے محدود اور ناپائیدار تاریخی کردار کو سائنسی طور پر ثابت کیا۔ اپنی تصنیف میں اس نے سرمایہ دار معاشرے کے اندرونی تضادات کا کھوج لگایا۔ اس نے ثابت کیا کہ بو رژوا اور نیم بورژوا سرمایہ داری ”مصلحین“ کی کوششوں کے باوجود ان تضادات کا بڑھنا ناگزیر ہوگا۔

مجھے لگتا ہے کہ افسروں کی خاموش مزاحمتی تحریک اس ناپائیدار اور سیلیکٹڈ حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ گویا شکست سنگ کی خو سنگ کے لہو میں ہوتی ہے۔ ورنہ وہ جوابی خط لکھنے کی غلطی کبھی نہیں کرتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments