ہمارے بچے ہمارا مستقبل


اک شام مجھے تنہائی، اداسی، مایوسی، اور بیزاری نے گھیر رکھا تھا۔ سوچا چہل قدمی کی جائے تھوڑی طبیعت میں تازگی آجائے گی۔

چہل قدمی کی اور گھر کے قریب واقع ایک پارک میں پہنچا، سردیوں کی سرد شام، ڈھلتے سورج کی کرنیں ایک طرف جہاں دلفریب منظر پیش کر رہی تھیں، وہاں ہی یہ کسی نا کسی طرح کا دل میں احساس بیدار کر رہی تھیں۔ سورج کی کرنیں ماند اور مدھم ہو رہی تھی، گویا سورج اور ہلکی تیز سرد ہواوں کی برسوں کی جنگ یہ ہوائیں جیت رہی تھیں۔ خیر یہ ایک احساس تھا جو ڈھلتا ہوا سورج دے رہا تھا۔

اکثر پارک اور کھلی جگہوں میں شام کے وقت لوگوں کا زیادہ رش دیکھنے میں آتا ہے، اس وقت بچوں کو کھیل کود اور مرد اور خواتین کو چہل قدمی کرتے دیکھا جا سکتا ہے، ہر کوئی اپنی تفریح میں مصروف نظر آتا ہے۔

میں پارک کے ایک کونے میں بیٹھا، اپنے خیالوں میں گم اور پارک میں موجود لوگوں سے بے خبر تھا، ایک لڑکا ہاتھ میں چائے کے کپ اٹھائے، جو اِس طرف اشارہ تھا کہ یہ قہوا بیچنے والا ہوگا اپنی طرف آتے نظر آیا، عمر دیکھنے میں تقریباً 10 برس کے قریب ہو گی، وہ میرے قریب پہنچا، اُس کے چہرے پر تھکاوٹ اور معصومیت اس قدر عیاں تھی کہ جدھر شور اور غُل دیکھتا اُس طرف اپنی توجہ مرکوز کر لیتا، بچوں کو کھیلتا کودتا دیکھ کر وہ بھی اپنے مٙن ہی مٙن میں خوش ہو رہا تھا۔ اِس سے پہلے کہ وہ مجھ سے ہمکلام ہوتا میں نے اُس سے پوچھا۔

ایک کپ کتنے کا دے رہے ہو؟

بولا 15 روپے کا۔

اپنی گفتگو کو آگے بڑھانے کے لئے میں نے اُس سے کہا، باقی سب 10 روپے کا دیتے تم 15 کا کیوں؟

وہ جو 10 روپے میں دیتے ان کے کپ چھوٹے ہوتے میرے کپ بڑے ہیں۔

نام کیا ہے تمہارا؟

صادِق خان۔

پڑھائی کہاں تک کی اسکول نہیں جاتے؟

صبح کے وقت اسکول جاتا ہوں اور شام کے وقت قہوا بیچتا ہوں۔

ابو کیا کام کرتے تمہارے؟

ابو سبزی کا کام کرتے ہیں۔

کتنے بہن بھائی ہو آپ لوگ؟

ہم لوگ تین بھائی اور دو بہنیں ہیں۔

تم بہن، بھائیوں میں کس نمبر پر ہو؟

میں دوسرے نمبر پر ہوں۔

میرا صادِق خان سے اتنا سا مکالمہ ہوا اور وہ آگے کی طرف چل دیا لیکن اس گفتگو سے میری ساری پریشانیاں وقتی طور پر جیسے ایک طرف رہ سی گئیں ہوں، اور میرے ذہن میں کئی سوالات گردش کرنے لگے۔

مین نے سوچا صادِق خان کی یہ عمر مزدوری کی نہیں بلکہ پارک میں موجود دیگر بچوں کی طرح کھیل کود کی ہے اس نے اپنے دل میں نا جانے کتنے، اور کون سے حسین خواب سجا رکھے ہوں گے اگر موجودہ حالات کی طرح مہنگائی میں اگر ایسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو صادِق خان جیسے ہزاروں بچوں کے خواب حسرت میں بدل جائیں گے۔

بالواسطہ ٹیکسیس کے اجرا سے بڑتی ہوئی مہنگائی جس نے غریب کی قمر توڑ کر رکھ دی، دولت کی غیر مساوی تقسیم جس سے امیر، امیر سے امیر تر ہو رہا اور غریب، غریب سے غریب تر۔

صادِق خان اپنے مقدر اور نصیب میں قہوا بیچنا لے کر نہیں آیا، بلکہ موجودہ حالات صادِق خان کو اس طرف کھینچ لائے کہ وہ قہوا بیچ کر اپنے والد کا سہارا بنے۔

المیہ یہ ہے ہمارے برسراقتدار لوگوں کے گھر پلنے والے کتے کے اخراجات ایک غریب کی ماہانہ آمد سے کئی زیادہ ہیں، ہمارے حکمران غربت نہیں بلکہ غریب کے خاتمے کی تگ ودو میں ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک نہیں ہزاروں صادِق خان ہیں جو مزدوری کے ساتھ تعلیم کا بوجھ نہ اٹھا سکے اور کتابوں کو خیرباد کہہ دیا۔ تعلیم بچوں کا حق ہے اس میں غریب اور امیر کی تخصیص نہیں۔

آج کے بچے قوم کا سرمایہ، کل کا مستقبل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments