کیا نریندر مودی کی ”بی جے پی“ واہگہ بارڈر کے دونوں طرف موجود ہے؟


کیا انتہاپسندی کا بیانیہ اس وقت واہگہ بارڈر کے آر پار سڑکوں پہ دندنا رہا ہے؟ یہ سوال پچھلے کچھ عرصہ سے پاکستانی سماج میں بھی تیزی سے بڑھتی انتہاپسندی اور شدت پسندی کے رجحان نے جنم دیا ہے، جس کو تقویت ایک روز قبل ایک حکومتی رکن قومی اسمبلی کی طرف سے ایوان میں پیش اور منظور کروائی گئی ایک قرارداد سے ملی۔

یہ اس قدر خطرناک move تھی کہ اس عمل کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر اندر وفاقی وزراء کے مابین ”مائنڈ سیٹ“ اور بیانیے کی جنگ چھڑ گئی۔

ایک طرف برسراقتدار ”پاکستانی بی جے پی“ کے اھم تنظیمی عہدے دار سڑکوں بازاروں میں کالعدم TTP کی شدت پسند سوچ والے بیانیے کا پرچار کرتے دکھائی دے رہے ہیں تو دوسری طرف وفاقی وزیر پوری قوم کے نمائندہ منتخب ایوان میں اسی سوچ کو کھلے عام بڑھاوا دیتے نظر آتے ہیں۔

لاھور کی سڑکوں پر، برسراقتدار جماعت ”تحریک انصاف“ کے پرچم میں سجا کر بکھیری جانے والی فکری آلودگی کی صورت میں کیا ”مطالعہ پاکستان“ کے اثرات سامنے آرہے ہیں، صورتحال نے یہ سنگین سوال اٹھا دیا ہے جو اہل فکر و دانش اور سوسائٹی کے سنجیدہ حلقوں کے لئے یقیناً باعث تشویش ہے

یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ یہ بار بار ہوا ہے نصاب میں بھی یہی پڑھایا گیا ہے سڑکوں پر لگے بینروں میں بھی دیکھا ہے اور سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی تقریروں میں بھی سنتے آئے ہیں۔ یہ جو کچھ پاکستان تحریک انصاف، لاھور کے جنرل سیکریٹری میاں محمد اکرم عثمان نے لاھور کی سڑکوں پر کر دکھایا ہے یہ ایک مکمل بیانیہ ہے جس کی باقاعدہ کئی دھائیوں سے ترویج کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ تعصب بھرے پوسٹر میں قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر بھی لگائی گئی ہے جن کی سوچ اور ویژن قطعی مختلف تھا۔

میاں محمد اکرم عثمان اور ان جیسے مطالعہ پاکستان سے متاثرہ افراد کو فکری تربیت کی ضرورت ہے مگر۔ ۔

ان کی فکری تربیت اب کیسے کی جاسکتی ہے کہ یہ تو جس سکول سے پڑھ کے نکلے ہیں وہ تو خود قیام پاکستان سے قبل سے ہی لوگوں کی فکری تربیت میں سرگرم ہے اور فکر ہے بنیاد پرستی، تنگ نظری اور شدت پسندی! مطلب۔ یہ جماعت اسلامی کے ماحول میں پرورش پا کے جوان ہوئے ہیں، ان کے والد میاں محمد عثمان لاہور کے علاقے اچھرہ سے جماعت اسلامی کے منتخب ایم این اے رہے ہیں، لہٰذا اب ان کی فکری تربیت کون کرسکتا ہے۔

یہ فکر اور یہی نظریاتی پس منظر رکھنے والے متعدد افراد اس وقت نہ صرف برسراقتدار پی ٹی آئی کی صفوں بلکہ اھم تنظیمی و حکومتی عہدوں پر موجود ہیں، اور اپنے ”نظریاتی جہاد“ کے تحت اس پارٹی کو پاکستان کی ”بی جے پی“ بنانے پر مامور دکھائی دیتے ہیں۔

کوئی ”آدھے پاکستان“ یعنی ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اطلاعات و ثقافت کی وزارت پر براجمان ہے تو کوئی مرکزی کابینہ میں ہوتے ہوئے اپنا اساسی فکری ایجنڈا رائج کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اگرچہ ماضی میں ان کے اساسی ”تربیتی کیمب“ نے اسی بی جے پی کے سربراہ اٹل بہاری واجپائی کی اسی لاھور میں آمد پر شہر کی تاریخ کا بدترین احتجاج کیا تھا مگر آج یہ عناصر پی ٹی آئی میں شامل ہوکر اسے عصر حاضر کی ”پاکستانی بی جے پی“ بنانے میں لگے ہیں۔

اور لگے بھی کیوں نہ ہوں کہ جس پارٹی میں انہیں ”گھسایا“ گیا ہے اس کے ”سرپرستوں“ اور گزشتہ عام انتخابات سے قبل اس پارٹی کو دوسری سیاسی جماعتوں سے بندے توڑ توڑ کے بھرنے والوں کا تو اپنا survival اسی مائنڈ سیٹ کے ساتھ ممکن ہے، اور انہی کے مبینہ ایما پر تو واجپائی کی آمد پر لاہور میں بدترین ہنگامہ اور احتجاج برپا کیا گیا تھا اس لئے کہ اس وقت انڈیا کی دائیں بازو کی اس سب سے بڑی جماعت کا سربراہ بطور وزیراعظم ہندوستان ایک لبرل initiative کے ساتھ کھلے اور روشن خیال بھارتی ذہن کی علامت بن کے آیا تھا

ان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہندو صرف ہندوستان میں نہیں رہتے بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے بے شمار ممالک میں آباد ہیں آپ بھارت دشمنی یا مودی اور چند انتہاپسند ہندووں کی وجہ سے تمام ہندووں کو گالی نہیں نکال سکتے یا ہندو دھرم پر انگلی نہ اٹھائیں۔ یہ بھی سمجھنا چاھئے کہ جیسے آپ اپنے مذہب سے پیار کرتے ہیں اسی طرح ہر کوئی اپنے مذہب کے بارے میں حساس ہو سکتا ہے۔

یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ لاکھوں ہندو پاکستان میں آباد ہیں جو کہیں سے ہجرت کر کے نہیں آئے بلکہ اس دھرتی کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں اور جب اس طرح کا مواد وہ پڑھتے اور دیکھتے ہیں تو ان کے جذبات کو کس قدر ٹھیس پہنچتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments