شیریں مزاری اور دفتر خارجہ


ارون دھتی رائے ہوں یا نو م چومسکی، اس طرح کے لوگ ہمیں کیوں پسند ہیں؟ شاید اس لیے کہ یہ لوگ لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرتے ہیں۔ گرد و پیش کے ادنیٰ مفادات کو خاطر میں نہیں لاتے، اعلیٰ اقدار کو پیش نظر رکھتے ہیں اور جس بات کو سچ سمجھتے ہیں، دھڑ سے کہہ دیتے ہیں۔ اپنے ہاں عاصمہ جہانگیر ہوا کرتی تھیں، ان سے پہلے حبیب جالبؔ تھے۔ اُس عہد میں بھی جب ایوب خان کے اقتدار کا سورج سوا نیزے پر تھا، سینہ تان کر کھڑے ہوئے اور ان کے دستور کو صبح بے نور قرار دے کر مسترد کر دیا۔

نظریاتی طور پر وہ بھٹو صاحب کے قریب تھے لیکن انھوں نے جب اس سیاستدان کے رنگ ڈھنگ دیکھے تو صاف کہہ دیا ’’لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو۔‘‘ جسم و جاں میں غیرت کی توانائی بخش دینے والا یہ تذکرہ چھڑا ہے تو یادوں کے ایسے چراغ روشن ہوئے جاتے ہیںجن میں بندوقوں کے مقابلے میں نہتی لڑکی کا ذکر بھی آتا ہے اور ننگے پاؤں والی کروڑوں بینظیروں کا تذکرہ بھی ۔ وہ لوگ جو سر ہتھیلی پر لیے اِس طرح مقتل میں چلے آتے ہیں، وہی معاشرے کا جوہر اور اُس کا ضمیر ہوتے ہیں۔ تو کیا آج ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے خالی ہو گیا؟ یہ زمانہ کاتا اور لے دوڑی کا ہے، مزاج میں اگر ایسا ہی اُتھلا پن ہو تو جواب اثبات میں ہونا چاہیے لیکن اگر تحمل سے ذرا سا بھی کام لیا جائے تو کچھ دانے ہیں جو اپنے ارد گرد بھی دکھائی دیتے ہیں۔

شیریں مزاری کی صاف گوئی ان دنوں زباں زدِ عام ہے، لوگ سوچتے ہیں کہ جس حکومت کی وزیر کو مسئلہ کشمیر پر وزارت خارجہ کی کار کردگی دکھائی نہیں دیتی، وہ کارکردگی کیسی ہو گی؟ حزب اختلاف کو ایسے مواقعے اللہ دے لیکن حیرت ہوتی ہے کہ ہر بات پر لتے لینے والی اپوزیشن نے یہ موقع گنوا دیا۔ گھر کے بھیدی کی ڈھائی ہوئی لنکا سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ کیا حزب اختلاف بہت مہذب ہو گئی ہے یا معاملہ کچھ اور ہے؟

وزارت خارجہ سے شیریں مزاری کو تین شکایات ہیں۔ اوّل، اسے چاہیے تھا کہ کشمیر کا مسئلہ عالمی عدالتِ انصاف میں لے جاتی، دوم، یہ مسئلہ اس نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے نمایندوں کے سامنے کیوں نہیں اٹھایا اور آخری بات یہ کہ لائن آف کنٹرول پر کام کرنے والے والے اقوام متحدہ کے فوجی مبصر نے ادارے کو مضبوط بنانے کے لیے آواز کیوں بلند نہیں کی؟ کشمیر کے مسئلے پر کوئی اتنی باریک بینی سے کام لے تو سر آنکھوں پر اگر حکومت میں بیٹھ کر صدائے حق بلند کرے تو اُس کی آواز مکے اور مدینے ۔ یہ تینوں باتیں دل کو لگتی ہیں اور یہ سوچ کر دل دکھتا ہے کہ وزارت خارجہ ایسا کیوں نہیں کر رہی، اگر وزارت خارجہ یہ کام نہیں کرے گی تو پھر کون کرے گا؟

محبت اور نفرت کا دستور مختلف ہے، یہاں جو بات دل کو لگے، وہی سچ ، بات کشمیر کی ہو تو پھر اور بھی سچ لیکن مشکل یہ ہے کہ دنیا جذبات پر قاعدے قوانین کو ترجیح دیتی ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ کسی مسئلے کو عالمی عدالت انصاف میں بھیجنے کا کام کوئی ملک یا اس کی وزارت نہیں کرتی، حتیٰ کہ وزارت خارجہ بھی نہیں۔ عالمی عدالت انصاف نے اپنے لیے جو قاعدہ مقرر کر رکھا ہے، اس میں لکھا یہ ہے کہ یہ کام صرف اس صورت میں ہو سکے گا، اگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سفارش کرے،  اگر جنرل اسمبلی سفارش نہ کرے تو سیکیورٹی کونسل درخواست کرے، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اقوام متحدہ کے پانچ ادارے یا سولہ ایجنسیاں یہ کام کریں۔

یہ تو درست ہے کہ ان میں سے کسی ادارے نے بھی یہ کام نہیں کیا۔ پاکستان کی طرف سے ان اداروں کو وزارت خارجہ ہی متحرک کر سکتی تھی، اِس نے ایسا کیوں نہ کیا؟ اس کا ایک جواب تو عائشہ فاروقی نے دے دیا ہے کہ وزارت ہر وہ کام کرتی ہے جس کی پالیسی حکومت بنائے۔ شیریں مزاری کی فکر مندی سر آنکھوں پر لیکن اس سوال کا جواب تو وہی بتائیں گی کہ کیا ان اداروں تک جانے کا فیصلہ حکومت نے کیا تھا؟ ہمارا خیال ہے کہ نہیں کیا، سبب اس کا خود عالمی عدالت انصاف کے ضابطۂ کار سے ملتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جب اس سے متعلقہ ادارے کوئی سوال کرتے ہیں تو اس کے جواب کی حیثیت ایک مشورے کی سی ہوتی ہے، کوئی اسے مان لے تو اس کی مہر بانی، نہ مانے تو اس کی مرضی۔ کیا عالمی عدالت انصاف کے ایک مشاورتی بیان کے لیے آزمائش کے سات دریا عبور کرنے ضروری ہیں اور وہ بھی اس زمانے میں جب ہماری اپنی برادری میں بھی ہماری سننے کو کوئی تیار نہیں ہے؟

ان کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ وزارت خارجہ نے یہ معاملہ جنیوا کے انسانی حقوق کمیشن میں کیوں نہیں اٹھایا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اپنی وزارت کی طرف سے انھوں نے یہ کا م کر ڈالا ہے۔ قاعدے کی بات تو یہی ہے کہ جنیوا کمیشن میں یہ معاملہ حکومتیں نہیں اٹھاتیں، وہ لوگ اٹھاتے ہیں یا اُن کے رشتے دار، کشمیر جیسے خطوں میں جن کے حقوق متاثر ہوئے ہوں۔ حکومتیں ایسے کام نہیں کیا کرتیں، اگر کریں تو پردے میں رہ کر کرتی ہیں تاکہ انسانی حقوق کا نازک معاملہ سیاست کی نذر نہ ہو جائے۔ شیریں مزاری اور ان کی وزارت اس کے باوجود ایسا کرتی ہے تو یہ کام کیا برگ و بار لائے گا؟ اس سوا ل کا جواب آسان نہیں؟

تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کو مؤثر بنانے پر وزارت خارجہ کی کوئی توجہ نہیں۔ یہ ایک درست اعتراض ہے کیونکہ پاکستان تو ان مبصرین کو سرآنکھوں پر بٹھاتا ہے لیکن بھارت انھیں کوئی اہمیت نہیں دیتا اور نہ لائن آف کنٹرول پر جا کر انھیں کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

یہ مبصرین مقبوضہ کشمیر میں اگر کسی طرح فعال ہو سکیں تو کوئی شبہ نہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم اور لائن آف کنٹرول پر اس کی جارحیت بڑی آسانی کے ساتھ بے نقاب ہو جائے گی۔ میری معلومات یہ ہیں کہ حال ہی میں چین کے تعاون سے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کشمیر پر جو بات ہوئی ہے، اس میں سر فہرست یہی معاملہ تھا۔ میں تصویر کے اس رخ کو دیکھتا ہوں پھر اپنی ارون دھتی رائے کی آتش نوائی پر کان دھرتا ہوں تو اسی نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ گھر کے بھیدی کے لنکا ڈھانے کے باوجود حزب اختلاف نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا تو اچھا ہی کیا ہے، حساس قومی معاملات پر سمجھ دار لوگوں کو ایسا ہی کرنا چاہیے ۔

سید علی گیلانی یاد آ گئے۔ انھوں نے حال ہی میں پاکستانیوں کے نام کھلے خط میں عجب بات لکھی ہے، کہتے ہیں کہ آپ کی داخلی سیاست اکثر ہمیں لے ڈوبتی ہے، کیا یہ خط ہماری شیریں دہن کی شیریں بیانی کے بعد لکھا گیا ہے؟ شاہد شمسی سے پوچھنا پڑے گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments