اقتدارکامحل: ہلتی ستونیں اور گرتی دیواریں


عمران خان جب سے اقتدار کے محل کا مکین بنے ہیں اس وقت سے اب تک یہی کہا جا رہا ہے کہ اس محل کی ستونیں ہل رہی ہے جبکہ دیواروں میں دراڑیں نہیں بلکہ شگافیں پڑ چکی ہے۔ مہنگائی کے شدید ترین جھٹکے وزیر اعظم عمران خان بھی محسوس کر چکے ہیں۔ چند ہفتے قبل انھوں نے بیان دیا تھا کہ تنخواسے گھر کا خرچہ پورا نہیں ہو رہا ہے۔ کپتان کے اس بیان سے کھلاڑیوں کے دل میں بھی لڈو پھوٹنے لگے تھے۔ انھوں نے قومی اسمبلی میں تنخواہیں بڑھانے کے لئے بل پیش کرنے کی کوشش کی لیکن بوجہ اختلاف پیش نہ کرسکے اس لئے کہ اگر یہ بل پاس ہو جاتا تو پھر کروڑوں عوام بھی مطالبہ کرتے کہ ان کا گزارا نہیں ہو رہا اس لئے انہیں بھی سہولت دی جائے جو حکومت کے بس سے باہر ہے۔

ابھی دو روز قبل وزیر اعظم عمران خان نے قوم کو نوید سنائی ہے کہ آٹے اور چینی بحران میں ملوث مافیاز کے خلاف تحقیقات جاری ہیں، تفتیش کے بعد جو بھی ملوث پایا گیا ان کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔ اس طرح کا بیان وزیر اعظم عمران خان نے سانحہ ساہیوال کے خون ریز سانحہ کے بعد بھی دیا تھا کہ قطر سے واپسی کے بعد ملوث لوگوں کو سزا دیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کی کب سے واپسی ہو گئی ہے۔ سانحہ ساہیوال کے تمام ملزمان کو باعزت بری بھی کردیا گیاہے لیکن تاحال وہ اپنا وعدہ ایفا نہ کرسکے۔

گزشتہ ڈیڑھ برسوں کی طرز حکمرانی کا سبق یہی ہے کہ آٹے اور چینی بحران میں ملوث طاقتور مافیاز کو عظیم تر قومی اور ملکی مفاد میں معاف ہی کیا جائے گا۔ اس لئے کہ سب کو معلوم ہے کہ جو ملوث ہے انھوں نے گز شتہ چند بر سوں سے سیاست میں خوب سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کی سرمایہ کاری ہی کی وجہ سے عمران خان وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں جبکہ عمران خان کا مستقبل انہی سیاسی سرمایہ کاروں سے ہی وابستہ ہے۔

معاشی میدان میں بھی کپتان کے کھلاڑی ایک دوسر ے کے ساتھ دست و گریبان ہیں۔ وزارت خزانہ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اوروزارت تجارت معاشی استحکام میں کردار ادا کرنے والے اہم ادارے ہیں، لیکن اطلاعات یہی ہیں کہ ایف بی آر کے سربراہ اور وزارت خزانہ کے حکام کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرچکے ہیں۔ ایف بی آر کے سربراہ خرابی صحت کا بہانہ بنا کر طویل رخصت پر چلے گئے ہیں جبکہ مشیر خزانہ اور وزیر اعظم کے درمیان بھی بد اعتمادی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو دوبارہ معاشی استحکام کے لئے کردار ادا کرنے کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے۔ تمام اتحادی جماعتوں کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں، جس کی وجہ سے سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گرتی ہوئی دیواروں کوصرف ایک دھکا دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ وزیر اعظم عمران خان کو خطرہ اتحادیوں سے نہیں بلکہ اپنے ہی کھلاڑیوں سے ہے۔ اگر کھلاڑی اس طرح آپس میں مشت و گریباں رہے تو سلیکٹرز کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ٹیم کے کھلاڑیوں کو بدل دیں۔

لیکن ایک بات بالکل واضح ہے کہ سلیکٹرز کپتان کو بدلنے پر تیار نہیں اس لئے کہ وہ ان کے کاموں میں مداخلت ہر گز نہیں کرتا اور اگر وہ ان کے کاموں میں مداخلت کرتے ہیں تووہ برا نہیں مناتے اور نہ ہی کوئی شکوہٰ اور شکایت کرتے ہیں۔ اگر کپتان اس طرح تابعدار رہا تو سیاسی دانشور پیشن گوئیاں کرتے جائیں گے کہ آج گیا یا کل، لیکن اس آج اور کل میں وہ پانچ سال پورے کر جائیں گے بالکل اس طرح جس طرح آصف علی زرداری نے آج اور کل میں پورے کیے تھے۔

ان کی بھی یہی خوبی سلیکٹرز کو پسند آئی تھی کہ وہ ان کے کاموں میں مداخلت نہیں کرتے تھے اور اپنے کاموں میں ان کی مداخلت کو خندہ پیشانی سے برداشت بھی کرتے تھے۔ دوسری طرف حزب اختلاف کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں کونے میں کھڑے ہوکر تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سڑکوں پر احتجاج کی سکت نہیں۔ ایوانوں کے اندر بھی ان کی آواز مدہم ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں مسلم (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے پر شک ہے کہ اگلی باری کے لئے وہ مقتدر قوتوں کے ساتھ پس پردہ تعلقات بہتر بنا رہے ہیں۔

رہی عوام کی چیخیں تو ایوانوں کے اندر اور باہر جماعت اسلامی اس کردار کو نبھا رہی ہے۔ مہنگائی کے خلاف انھوں نے کئی شہروں میں احتجاج کیے۔ سینٹ میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اس مسئلے کو بھرپور انداز میں اٹھایا، مگر حکمران اور مقتدر قوتیں ان کو سنجیدہ نہیں لے رہی ہیں۔ مہنگائی کے خلاف احتجاج میں بھی عوام کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ معلوم نہیں کہ حکمران اور مقتدر طبقہ جماعت اسلامی کو سنجید گی سے کیوں نہیں لے رہا ہے؟ عوام کیوں مہنگائی کے خلاف احتجاج میں ان کا بھر پور ساتھ دینے سے انکاری ہے؟ حالانکہ جماعت اسلامی اس وقت عوام کی ترجمان بنی ہو ئی ہے۔

مو لانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر حکومت کے خلاف گرم احتجاج کا اعلان کیا ہے لیکن لگ ایسے رہا ہے کہ یہ لہوکو گرم رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لئے وہ سالانہ بنیادوں پر اس طرح ہر سال کئی بڑے احتجاجی مظاہرے کرتے رہیں گے۔ لیکن وہ کبھی بھی اس طرح کی تحریک کو برپا نہیں کرسکتے کہ عمران خان کی حکومت کو ختم کر سکے۔ آزادی مارچ کو بغیر کسی نتیجے کے ختم کرنے کے بعد ان کی ساکھ کو بری طرح نقصان پہنچ چکا ہے۔

اب وہ اس قابل نہیں کہ عمران خان کو غیر مستحکم کر سکے۔ جو لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ مارچ کے بعد دما دم مست قلندر ہو گا مجھے کامل یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوگا، اس لئے کہ اس وقت وزیر اعظم عمران خان کے مخالفین میں کسی میں یہ دم نہیں کہ وہ ان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بن جائیں۔ اتحادی جماعتیں بھی بیانات کی حد تک حکومت سے اختلاف کر تی رہیں گی لیکن جب قیام کا وقت آئے گا تو وہ سجدے میں نہیں گریں گے، جب تک ان کو سجدہ کرنے کا حکم نہ ملے۔

اس وقت وزیر اعظم عمران خان کے لئے درد سر ان کی اپنی جماعت کے ارکان ہی ہیں باقی ان کو باہر سے کوئی خطرہ نہیں اس لئے کہ ابھی تک ان کا متبادل بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اقتدار کے محل کی تمام ستونیں ہل رہی ہے۔ دیواروں میں شگافیں پڑ چکی ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان آئینی مدت پوری کریں گے، یہ الگ بات ہے کہ اگر مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ نہیں کیا گیا اور عوام کو آسانیاں نہ دی گئی تو ایک بڑے عوامی احتجاج کے نتیجے میں وہ معزول ہوسکتے ہیں، لیکن سیاسی مخالفین کی مخالفت کی وجہ سے ہرگز نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments