مقبول بٹ شہید


کچھ عرصہ قبل ڈڈیال ”آزاد“ کشمیر میں جانا ہوا تو شہر کے ایک مرکزی چوک سے بہت مرتبہ واسطہ پڑا۔ جس کے داخلی دروازے پر درج ہے ”مقبول بٹ شہید چوک“ اور ساتھ ہی چی گویرا کی طرح کے ایک صاحب کی تصویر ہے۔ تو سوچا کہ یہ صاحب کون ہیں۔ وہاں مقامی لوگوں سے جب پوچھا تو سب نے ایک ہی جملہ کہا کہ ”یہ قائد کشمیر ہیں“۔

مقبول بٹ تحریک آزادی کشمیر کے معروف رہنماء ہیں۔ سن اسی کی دہائی کا تقریباً ہر کشمیری مقبول بٹ کے نام سے واقف ہے۔ مقبول بٹ 18 فروری 1938 ء کو کپواڑہ کے ایک قصبے ترہگام میں ایک کسان کے گھر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ترہگام کے پرائمری اسکول میں حاصل کی اور میٹرک ترہگام ہی کے ہائی اسکول سے پاس کیا اور پھر بی اے کے لیے سینٹ جوزف کالج بارہ مولا میں داخل ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ سینٹ جوزف کالج کے اس وقت کے پرنسپل جارج نے مقبول بٹ کے متعلق کہا تھا:

”یہ نوجوان اگر راستے کی سختیوں کو سہہ گیا تو ایک بڑا آدمی بنے گا۔ مگر اس کے جیسے لوگ عام طور پر شدید مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں، کیونکہ جس طرح کی آزادی کا خواب وہ دیکھتے ہیں اس کو حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اس لیے وہ اکثر آزادی کی راہ پر قربان ہوجاتے ہیں“۔

مقبول بٹ نے زمانہ طالب علمی میں ہی کشمیر کی آزادی کے لیے ہونے والی کوششوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ پھر ناموافق حالات کے باعث آپ نے پاکستان ہجرت کرلی۔

آپ نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا اور قانون کی تعلیم بھی حاصل کی۔ پھر ایک اخبار ”روزنامہ انجام“ سے منسلک رہے۔ مقبول بٹ نے ایوب خان کے بی ڈی سسٹم کے تحت 1961 ء میں ہونے والے انتخابات میں مہاجرین کشمیر کی نشست سے پشاور سے الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی۔ پھر آپ محاذ رائے شماری میں شامل ہوگئے۔

1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد آپ کے خیالات میں بڑی تبدیلی آئی اور آپ نے آزادی کشمیر کے لیے سیاسی جدوجہد کے ساتھ عسکری جدوجہد بھی شروع کردی۔ سرحد پار کرکے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوئے اور لوگوں کو تربیت دینے لگے۔

ستمبر 1966 ء کو بارہ مولہ کے نزدیک ایک گاؤں نادی ہل میں بھارتی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس میں مقبول بٹ اپنے ساتھیوں ہمراہ گرفتار کر لیے گئے۔ آپ پر غداری، جاسوسی، اور قتل کا مقدمہ چلایا گیا اوراگست 1968 ء بارہ مولا سیشن کورٹ کے جج نیل کنٹھ گنجو نے پھانسی کی سزا دی۔ معروف ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران مقبول بٹ نے کہا تھا ”جج صاحب ابھی وہ رسی نہیں بنی جو مقبول بٹ کو پھانسی پر لٹکا کر مار سکے مجھے اپنی دھرتی پر گھومنے کے لئے کسی پرمٹ کی ضرورت نہیں۔ میرے اوپر لگائے گئے الزامات میں سے ایجنٹ کا لفظ ختم کیا جائے کیونکہ میں ایجنٹ نہیں خود آپ کا دشمن ہوں۔ “

مقبول بٹ کے الفاظ سچ ثابت ہوئے، دسمبر 1968 ء کو اپنے دو ساتھیوں سمیت جیل توڑ کر سیز فائر لائن کراس کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوگئے۔ یہاں آپ کو گرفتار کرلیا گیا اور کچھ ماہ بعد ہی رہا بھی کردیا گیا۔ مقبول بٹ دوبارہ سیاست میں فعال ہوگئے۔ آپ محاز رائے شُماری کے صدر مُنتخب ہوئے اور گلگت بلتستان کا دورہ کرکے وہاں کے لوگوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کا درس دیا۔ کہا جاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی توجہ دلانے کے لیے جنوری 1971 ء کو مقبول بٹ نے ہاشم قریشی اور محمد اشرف قریشی کے ذریعے بھارت کا ایک طیارہ گنگا ہائی جیک کروایا۔ اس طیارے کے مسافروں کو بعدازاں رہا کردیا گیا اور طیارہ جلا دیا گیا۔ پہلے جس شخص کو طیارہ اغواء کرنے پر ہار پہنائے گئے بعد میں اسے حکومت پاکستان نے غداری کے الزام میں مری سے گرفتار کرلیا۔ مقدمہ چلا اور 1974 ء کو مقبول بٹ بری ہوگئے۔

1976 ء میں مقبول بٹ دوبارہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوئے تاکہ آزادی کی تحریک کو منظم کیا جاسکے۔ مگر آپ کچھ عرصہ بعد ہی پکڑے جاتے ہیں اور آپ کو سرینگر سے تہاڑ جیل دہلی منتقل کردیا جاتا ہے اور سابقہ سزائے موت بحال کردی جاتی ہے۔ بھارت میں آپ کی گرفتاری پر زبردست مظاہرے ہوتے ہیں۔ پھر 1981 ء میں بھارت کی جانب سے آپ کو پھانسی دینے کا اعلان ہوتا ہے۔ مگر اس فیصلہ کو احتجاج اور عالمی دباؤ کے باعث موخر کردیا جاتا ہے۔ آخر کار بھارتی حکومت 11 فروری 1984 ء کو آپ کو تہاڑ جیل دہلی میں پھانسی دے دیتی ہے۔ آپ کی لاش ورثہ کے اصرار کے باوجود ان کے حوالے نہیں کی گئی اور آپ کی قبر جیل میں ہے۔

مقبول بٹ کے متعلق احمد فراز نے کہا تھا :

گو آنکھ سے دور جا چکا تو روشن مگر چراغ سا تو

محروم لبوں کا حرف زندہ مظلوم دلوں کا ہمنوا تو

میں بھی ترا ہمسفر تھا لیکن میں آبلہ پا تھا برق پا تو

زنداں کے عذاب تک رہا میں اور منزل دار تک گیا تو

دشمن کے حصار میں اکیلا لشکر کے مقابلے پر تھا تو

کب قتل ہوئی ہے سچ کی آواز خوشبو کی طرح جا بجا تو

اے جان جہاں سرفروشاں لیلائے وطن کا دلربا تو

تھا تذکرہ مسیح و منصور بے ساختہ یاد آگیا تو

اے کشتہ شب فراز کو بھی مرنے کا ہنر سکھا گیا

مقبول بٹ کی زندگی کی داستان کچھ عجب ہے۔ آپ کے متعلق متضاد آراء پڑھنے کو ملتی ہیں، کوئی کہتا ہے کہ مقبول بٹ غدار تھا تو کوئی کہتا ہے ڈاکو و قاتل تھا۔ تو سوچنے کی بات ہے کہ ایک پڑھا لکھا شخص جو آرام سے کوئی بھی نوکری کرسکتا تھا۔ مگر پھر بھی اُسے پاکستان کے سارے بینک چھوڑ کر بھارت میں چوری کرنے جانا تھا۔ جہاں اس کو واضح موت نظر آرہی ہے۔ مقبول بٹ کے مخالفوں کو سوچنا چاہیے کہ مقبول بٹ آخر کس کا دشمن تھا؟ بھارت کا؟ پاکستان کا؟ نہیں، مقبول بٹ کی دشمنی فقط اُس سے تھی جو کشمیر کی آزادی کا انکاری تھا۔ دونوں دیس بھی عجب ہیں ایک کشمیر کو اٹوٹ انگ کہتا ہے تو دوسرا شہہ رگ یعنی کشمیر پر سب کا حق ہے، نہیں ہے تو بس کشمیریوں کا کوئی حق نہیں۔

مقبول بٹ کے طریقہ کار سے تو اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کی کشمیر سے بے لوث محبت پر شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ آج بھی جس کشمیری سے پوچھو وہ مقبول بٹ کو اپنا قائد بتاتا ہے۔ دراصل مقبول بٹ نے جو آزادی کی آذان دی تھی، اس پر سب کشمیریوں نے لبیک کہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج مقبول بٹ کے خاموش ہو جانے کے باوجود بھی اس کی آواز کی گونج وادی کشمیر میں موجود ہے۔ آج بھی کشمیری ہارے نہیں ان کو مقبول بٹ جیسے رہنماؤں نے حوصلہ دیا ہے۔ اور سب کچھ بندوق کے زور پر دبایا جاسکتا ہے مگر آزادی کی آواز کو دبانا اور سرفروشوں کے حوصلے کو ہرانا ممکن نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments