کیا آپ اپنی کامیابیاں جانتے ہیں؟


اگر میں پوچھوں کہ آپ میں سے کتنوں کے والدین کے پاس آپ کے پہلے قدم اٹھانے کی تصویر ہے۔ یا پہلے دن اسکول کی تصویر ہے تو شاید بہت سوں کے گھر میں نکل آئے۔ لیکن کیا آپ کے والدین نے آپ کو یہ احساس دلایا کہ یہ آپ کی اہم کامیابی تھی؟ کیا آپ نے اپنی اولاد کو کبھی یہ احساس دلایا کہ پہلا قدم اٹھانا، پہلا لفظ بولنا، پہلا لفظ لکھنا اور پڑھنا، پہلے دن اسکول جانا یہ سب ایک کامیابیاں ہیں؟

آج ہم میں سے اکثریت اعتماد کی کمی کا شکار ہے۔ میں جب اپنے کسی کلائنٹ کو اپنی اچھی عادتیں یا اچیومنٹس کی فہرست بنانے کا کہتی ہوں تو اکثریت کا پہلا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہم میں ایسا کچھ خاص ہے ہی نہیں۔ ہم نے کوئی اچیومنٹ کبھی حاصل ہی نہیں کی۔ لیکن جب انہیں ذرا سی رہنمائی ملتی ہے تو وہی افراد ہفتے بھر میں درجن سے زیادہ اچیومنٹس نکال لاتے ہیں۔

ہمارا تربیت کا نظام انحصار کرتا ہے کہ بچہ کیا نہیں سیکھ سکا جس کی وجہ سے وہ کبھی نہیں جان پاتا کہ وہ کیا کچھ سیکھ رہا ہے اور حاصل کر رہا ہے۔ بہت سے افراد کامیابی اور نعمتیں آپس میں ملا دیتے ہیں۔ یعنی جب کوئی یہ شکایت کرے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے میں غیر اہم ہوں مجھ میں کوئی صلاحیت نہیں تو ہم سب سے بڑی غلطی یہ کرتے ہیں کہ مادی اشیاء گنوانا شروع کرتے ہیں اور کہتے ہیں دیکھو فلاں کے پاس یہ نہیں تمہارے پاس ہے۔ فلاں کے پاس وہ نہیں تمہارے پاس ہے۔ اللہ نے تمہیں کتنا نوازا ہے۔

اس طریقے سے ہوتا یہ ہے کہ اعتماد وہیں کا وہیں یعنی کم رہتا ہے بلکہ اعتماد کی کمی کا شکار بندہ مادی اعتبار سے دوسروں سے خود کا ممتاز دکھنے کی تگ و دو شروع کردیتا ہے۔ جتنی زیادہ اس کی احساس کمتری بڑھتی ہے اتنا زیادہ وہ کوشش کرتا ہے کہ دوسروں سے ممتاز نظر آئے۔

اپنی ذات کے متعلق چوں کہ وہ ابھی بھی اعتماد نہیں رکھتا اس لیے وہ اب بھی ذہنی دباؤ میں ہی رہتا ہے۔

بچوں کو بچپن سے غیر مادی اور ذاتی کامیابیوں کو دیکھنا اور یاد رکھنا سکھائیں، کوئی بچہ بلکہ دنیا کا کوئی انسان پہلی دفعہ غلطی سے مبرّا کام نہیں کرتا لیکن اس نے وہ کام کیا یہی سب سے اہم ہے۔ ایک ہی کام کو کرنے سے لے کر غلطی سے مبرّا کرنے تک کئی کامیابیاں ہیں جو کسی شخص نے حاصل کی ہوتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ کوئی مخصوص کام پرفیکشن تک کرنے میں کامیاب ہوجائے لیکن اس نے جتنا کیا وہ اس کی کامیابی ہے۔

کامیابی ہمیشہ ذاتی مقاصد کے آئینے میں پرکھی جانی چاہیے دوسروں کی نظر میں آپ کی کامیابی کامیابی نہیں تو یہ ان کا مسئلہ ہے آپ کا نہیں۔ آپ اپنی کامیابی انجوائے کیجیے اور مزید کے لیے پر تولے رکھیے۔

کچھ دن پہلے ایک انڈین اداکار سدھانت چترویدی کی ایک وڈیو بہت وائرل ہوئی تھی جس میں وہ بالی ووڈ میں اقرباء پروری کے حوالے سے اداکاروں کے رشتے داروں کے لیے کہتا ہے کہ جدوجہد وہ بھی کرتے ہیں ہم بھی کرتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ جہاں ہمارے خواب پورے ہوتے ہیں وہاں سے ان کی جدوجہد شروع ہوتی ہے۔ جو جتنے مشکل ماحول میں ہے اس کے لیے چھوٹی سے چھوٹی کامیابی بھی کسی کی بڑی سے بڑی کامیابی سے بڑی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی کامیابی کو صرف اپنے تناظر میں دیکھیں۔

میرے لیے میٹرک کرنا کوئی کامیابی نہیں تھی۔ لیکن میں آج جب سندھ کے دیہاتوں میں جاتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ یہاں لڑکیوں کے لیے اسکول جانا ہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور انہیں احساس ہونا چاہیے کہ انہوں نے کتنی بڑی کامیابی پائی ہے۔

کسی سخت تکلیف دینے والی بیماری میں مبتلا شخص کے لیے ایک اور دن اس بیماری سے لڑ کے گزار لینا اس کی کامیابی ہے جو شاید میں یا آپ ہوں تو نہ کرپائیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ اس پہ نظر رکھیں کہ آپ نے کیا کچھ اپنی جدوجہد سے پایا۔ اگر کسی کے پاس دیکھنے میں سو گنا بڑی کامیابی ہے لیکن وہ اس کی ذاتی جدوجہد نہیں تو وہ اسے کوئی اعتماد نہیں دے سکے گی۔ اور غلط سمت رہنمائی اس کی شخصیت کو اس کے اپنے لیے اور دوسروں کے لیے مزید تکلیف دہ بنا دے گی۔

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments