کھیل بگاڑنے والے فسادی لوگ!


چودھری شجاعت حسین نے میاں نواز شریف کو پہلی بار وزیراعظم بننے پر اپنے اندر ”میں“ نہ لانے کا مشورہ دیا تھا اور آج کل وزیراعظم عمران خان کو فسادیوں سے بچنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ چوہدری برادران حکومت کو خبر دار کررہے ہیں کہ فسادی انہیں اتحادیوں سے دور کر رہے ہیں لیکن یہ واضح نہیں کررہے کہ فسادی لوگ کون ہیں، جبکہ مولانا فضل الرحمن، چوہدری برادران سے امانت بتانے کی بات کررہے ہیں۔ چودھری برادران کی باتیں اور سیاست سمجھنا عام بندے کا کام نہیں، یہ انہی کا خاصہ ہے کہ چند ارکانِ اسمبلی کے ساتھ پرویزمشرف کی سرپرستی میں مسلم لیگ (ق) بنا کر پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اور ملک کی وزارتِ عظمیٰ حاصل کر لیتے ہیں۔

شریف برادران کسی حدتک انہیں سمجھتے ہیں، ا سی لیے چکمہ دینے میں کا میاب ہو گئے تھے، مگر اس کے بعدسے چوہدری بردران بھی وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے لگے ہیں۔ وہ دوبارہ وزارتِ اعلیٰ اور وزارتِ عظمیٰ حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں، مگر عمران خان پرویز مشرف بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عمران خان خود ایک منتخب وزیراعظم ہیں، انہیں مجبوری میں اتحادیوں کی ضرورت ہے، مگر سیاسی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ حکومت کا کوئی اتحادی اتنا شوروغل نہیں کر رہا جتنا مسلم لیگ (ق) کر رہی ہے۔ حکومت کو وارننگ پر وارننگ دینے کے ساتھ بدعہدی کے الزامات لگا ئے جارہے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان ٹس سے مس نہیں ہو رہے، اُن کی جانب سے ایک گھڑا گھڑایا بیان آ جاتا ہے کہ اتحادی گھبرائیں نہیں، کمیٹی فعال کردی گئی، اپنا کھیل جاری رکھیں، وقت آنے پرانہیں مطمئن کردیاجائے گا۔

تحریک انصاف حکومت وقت گزرنے کے ساتھ اتحادی جماعتوں کی سیاست سمجھنے لگی ہے، اس لیے بلیک میل ہونے کی بجائے عہد وفا کے دلاسے دے رہی ہے جبکہ اتحادی حکومت کی سرد مہری کو فسادیوں کا کیا دہراقرار دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ق) کے نزدیک فسادی بنا بنایا کھیل بگاڑنے والے لوگ ہیں، حکومت کی جانب سے جہانگیر ترین کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی سے تمام معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو گئے تھے، مگر اس کی بجائے دوسری کمیٹی بنا دی گئی، چوہدری برادران کی نظر میں جہانگیر ترین کمیٹی ختم کرواکر وزیراعظم کو نئی کمیٹی بنانے کا مشورہ دینے والے فسادی ہیں۔

جہانگیر ترین کچھ دِنوں کے لئے بیرون ملک گئے تھے، اُن کی غیر موجودگی میں یہ ردوبدل کردیا گیا۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان بھی خلیج حائل ہو چکی تھی جو ملاقات کے بعد ختم ہو جائے گی، مگر شاید اس خلیج کا باعث بھی کچھ فسادی ہی تھے۔ یہ عمران خان کے لئے واقعی تشویش کی بات ہونی چاہیے کہ کچھ لوگ اتنے کاریگر ہو چکے ہیں کہ پُراعتماد دوستوں کو بھی ان سے دور کر رہے ہیں۔

اس وقت ملک میں ایک کے بعد ایک بحران کے پیچھے کچھ نہ کچھ عوامل ضرور ہیں، چودھری برادران اور عمران خان کا ایک دوسرے سے دور ہونا معمولی بات نہیں، یہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ فسادیوں نے کوئی کام دکھا دیا ہے بلکہ پس پردہ کچھ نہ کچھ ایسے محرکات ضرورہیں کہ جس نے حکومت اور اتحاد یوں کے درمیان اختلاف کے گل کھلائے ہیں۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں ہے کہ وزیر علیٰ پنجاب بننا بہت سے لوگوں کی خواہش تھی، مگرعثمان بزدار کے انتخاب کے بعد بہت سے لوگوں کی مایوسی مخالفت میں بدل گئی ہے۔  اس حوالے سے بہت سی سازشی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں۔ اگر ایسی سرگرمیاں پنجاب کے حوالے یا مرکز کے حوالے سے ہوں اوراُن کا کھراگھوم پھر چودھری برادران کی طرف جانے لگے توعمران خان کا رویہ نارمل نہیں رہے گا۔ چودھری برادران ایک طرف حکومت کے ساتھ آخری دم تک بے غرض رہنے کی یقین دھانیاں کرواتے نہیں تھکتے، جبکہ دوسری جانب سوتن، فسادیوں جیسی معنی خیز اصطلاحات استعمال کر کے پیغام بھی پہنچا رہے ہیں۔

چوہدری برادران کی سوچ اتحادسے پانسہ پلٹنے میں تبدیل ہونے لگی ہے، پنجاب کے سیٹ اَپ میں مسلم لیگ (ق) کی کلیدی اہمیت ہے، مگر اس کے باوجود اُن کے حق میں پانسہ نہیں پلٹ رہا ہے۔ پنجاب کے فیصلوں میں انہیں شامل نہیں کیا جا رہا، حتیٰ کہ پولیس اور انتظامیہ کو بھی اُن کی دسترس سے دور کر دیا گیا ہے، اس دوری کی وجہ مسلم لیگ ( ن) اور پیپلز پارٹی سے پس پردہ بڑھتی قربتیں ہیں۔ چودھری برادران کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ عمران خان دو بڑے برج پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو گرا کر اقتدار میں آئے ہیں، وہ پرویز مشرف کی طرح سیاسی حمایت سے محروم نہیں، بلکہ اس وقت بھی انہیں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔

اگر کوئی انہیں سازشی تھیوری کے زیراثر نمبر گیم سے متاثر کرنا چاہے گا تو شاید اُسے کامیابی نہیں ہو گی، کیونکہ عمران خان شراکت ِ اقتدار کا کوئی ایسا فارمولا بھی نہیں چاہتے، جس سے اُن کا سیاسی ایجنڈا متاثر ہو کر ختم ہو جائے، ویسے بھی سیاسی اور مقتدر قوتیں واقعی ایک پیج پر ہیں اور کوئی آسمانی اشارے بھی کہیں سے نہیں مل رہے ہیں، اس صورتِ حال میں پرویز الٰہی اپنا موازنہ ا عثمان بزدار کی بجائے شہبازشریف سے کرنے لگیں اور پنجاب میں گورننس کے معاملے پر سنگین نوعیت کے سوالات اٹھائیں تو اس کا کیا مطلب لیا جائے گا؟ یہ تو ایسا ہی ہے کہ جیسے اتحادی ہونے کا لبادہ اوڑھا کر اپوزیشن کی تحریکوں کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔

یہ امرواضح ہے کہ مسلم لیگ ( ق ) کا چند سیٹوں کے ساتھ مرکز اور پنجاب میں کوئی کردار نہیں تھا، تحریک انصاف حکومت کا اتحادی بننے سے چودھری پرویز الٰہی ایک بار پھر پنجاب کی سیاست میں اِن ہو گئے، اُن کی اہمیت بڑھ گئی، وہ سپیکر پنجاب اسمبلی بن کر ایک بڑا آئینی و سرکاری عہدہ پا گئے ہیں۔ عمران خان کے نقطہ ء نظر سے مسلم لیگ ( ق ) سیاسی استحقاق سے بڑھ کر نوازا گیا ہے، اس کے ساتھ انہیں صوبائی اور وفاقی وزارتیں بھی ملی ہیں، مگر پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ جب ایک بار کسی کے منہ کو لگ جائے تو پھر اس کا ذائقہ ساری عمر ستاتا ہے۔

اس پرسونے پہ سہاگہ کہ عمران خان نے ایک نئے غیر تجربہ کار سیاسی نوجوان کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا، اس پر ایوان پنجاب میں افواہیں پھلائی گئیں کہ پنجاب کو سنبھالنے کے لئے عمران خان پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے پر مجبور ہو جائیں گے، لیکن عمران خان اپنے کھلاڑی کے خلاف سازشوں کو بھانپ گئے تھے، انہوں نے سب پر واضح کردیا کہ تحریک انصاف حکومت کے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار ہی رہیں گے۔ اس کے ساتھ عمران خان نے بڑے پیمانے پر بیوروکریسی کے تبادلے کرکے سازشوں کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی ہے۔

تحریک انصاف حکومت کی خود اعتماد کو متزلزل کرنے کے لیے ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن متحرک ہونے لگے ہیں، وہ پہلے بھی کسی کے اشاروں پر متحرک ہو کر مقتدر قوتوں کی شفقت کے منتظرتھے، اس بار بھی اشاروں کے دست راست ہیں، مولانا ایک بار پھرپرانے کندھے پر حکومت کو گھر بھیجنے کا ناکام کھیل کھیلنے لگے ہیں، وہ چوہدری برادران کو امانت میں خیانت کا مشوراہ دے رہے ہیں، لیکن اس بکھری اپوزیشن کے کسی فساد ی کھیل سے حکومت کے کان پر جوں بھی نہیں رینگے گی، بلکہ حکومت سازشی فواہوں کی گردمیں گرنے کی بجائے مہنگائی کے بحران سے نکالنے میں ضرور کا میاب ہو جائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments