توہین رسالت اور ہماری ذمہ داریاں
دین اسلام پوری انسانیت کے لئے ایک جامع اور اکمل قانون لے کر آیا ہے۔ انسانی اعمال کا کوئی بھی مناقشہ ایسا نہیں کہ جس کے لئے اسلامی تعلیمات میں کوئی حکم یا اس بارے میں کوئی رہنمائی نہ ہو۔ خصوصا مسلمانوں کی اخلاقی زندگی ہو یا علمی، سیاسی ہو یا معاشرتی، دینی ہو یا دنیاوی، حاکمانہ ہو یا محکومانہ یہ دین اسلام ہی ہے جو زند گی کے ہر فرد کے لئے ایک اکمل اور جامع ترین قانون اپنے اندر رکھتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دین اسلام دنیا کا آخری اور عالمگیر مذہب نہ ہوسکتا۔
اسلام ہی نے ہم مسلمانوں کو جس طرح کی زندگی بسر کرنے کی تلقین کی ہے وہ محض اپنا اور اپنی بیوی بچوں کے پیٹ ہی کی زندگی نہیں ہے بلکہ وہ زندگی منزلی، خاندانی، معاشرتی، جماعتی، سیاسی، اخلاقی اور انسانی فرائض کی ایک آزمائش ہے اور جب تک ایک انسان اس آزمائش میں پورا نہیں اترتا اس وقت تک اس کو اسلامی زندگی کی لذت اور اس کی حلاوت نصیب نہیں ہوتی۔
بحیثیت مسلمان ہونے کے ہمارا عقیدہ اور ایمان بھی یہی ہے کہ اسلامی شریعت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں زندگی میں رونما ہونے والے ہر قسم کے حالات اور آزمائش ( خواہ اجتماعی شکل کے ہوں یا انفرادی حیثیت کے ) کے لئے رہنمائی اور نمونہ موجود ہے۔ خصوصا ایسے اجتماعی اور پیچیدہ مسائل کہ جن کا تعلق اسلامی ریاست میں بسنے والے تمام مذہب کے افراد خاص طور پر مسلمان اور ان کی امت، مسلمان اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق جیسے نازک اور اہم ترین مسائل سے ہوں ان میں ہمارا دینی اور ملی فرض بنتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی رہنمائی اور کیے گئے عملی نمونوں کے بغیر ایک قدم بھی نہ بڑھائیں۔ موجودہ زمانے میں اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس مبارک کی توہین کے پے درپے سانحات بھی اسی زمرہ کی چیزیں ہیں۔
مسلمان کے لئے اس کی زندگی کی سب سے قیمتی متاع دین کا احترام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ان کی ناموس مبارک کی حفاظت ہے۔ یہ بڑی قیمتی اور مبارک چیز ہے کہ ایک مسلمان اللہ کے رسول کی ناموس مبارک کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کو اپنے لئے بڑی سعادت کی بات سمجھتا ہے اسی جذبہ ایمانی سے اس کی زندگی میں رونق اور حسن ہے اور یہی اس کے ایمان کا محافظ اور یہی اس کے لئے ابدی سعادت اور جنت کے حصول کا ذریعہ ہے۔
تاریخ کے اوراق مسلمانوں کے اس مزاج عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شاہد ہیں کہ مسلمان ہر تکلیف اپنی جان پر برداشت کر سکتے ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو ایک کانٹا بھی چبھے یہ ان کے لئے ناقا ابل برداشت ہے۔ پھر کیسے ان سے یہ بے وقوفانہ اور مجرمانہ توقع کی جاسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس مبارک کی توہین کی جائے، ان کی تضحیک کی جائے، معاذ اللہ ان پر سنگین اور گھناؤنی تہمتیں لگائی جائیں اور مسلمانوں کو سخت برا نہ لگے۔
یقینا برا لگنا، بلکہ اس بارے میں شدید تکلیف و اذیت محسوس کرنا فطری ہے۔ ایسا نہ ہو تو ایمان میں کمی ہے۔ لیکن اس تکلیف اور اذیت کے عالم میں اس بارے میں کس کی کیا ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری کے تناظر میں میں کس کو کیا ردعمل ظاہر کرنا ہے یہ خود اسی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ سے سیکھنا اور اس کی سنت مطہرہ سے معلوم کرنا ہے۔
جس نے صاف صاف کہدیا تھا کہ مجھے ایسے ایمان والے مطلوب و مقصود ہیں جو اپنے دل کی ہر خواہش کو میری ہدایت اور احکام کے طابع کردیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اہانت اسلام کی حرکتیں بھی ہوئیں اور توہین رسالت کی لعنتیں بھی، معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں بھی دی گئیں یہاں تک کے آپ کی پاکیزہ زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر ملعون منافقوں نے بے بنیاد الزام بھی لگائے۔ تاہم ہمیں بحیثیت مسلمان ایک حاکم ومحکوم، ایک ریاست اور اس ریاست میں رہنے والے ا فراد کی حیثیت سے یہ دیکھنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات اور مختلف موقوں پر کیا طرز عمل اختیار فرمایا۔
مزید کچھ لکھنے سے پہلے میں اس تحریر کی وساطت سے ایک پیغام اس حوالے سے حکومت وقت کے تمام ارکان اور ریاست پاکستان کے تمام ذمہ داران کویہ دینا چاہتا ہوں کہ کسی بھی ریاست کی کامیابی کا دارومدار اس کی حکومت کی بہترین طرز حکومت پر منحصر ہے۔
یہی بہترین طرز حکمرانی ہی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد اور کامیابی کی اساس ہے۔ عوام کی بنیادی سہولتوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ آئین و قانون کی بالا دستی بھی اسی بہترین طرز حکمرانی کے زمرے میں آتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ اقوام عالم کے بڑے بڑے ممالک اپنی فلاح اور ترقی کا راز ہی آئین و قانون کی بالا دستی کو قرار دیتے ہیں۔ آئین و قانون توڑنے اور اصول وضوابط کا احترام نہ کرنے سے پھر ریاست میں افرا تفری پھیل جاتی ہے جس کی بنا پر نہ صرف افراد کا سکون تہہ وبالا ہوجاتا ہے بلکہ پورے معاشرے اور قوم کی زندگی متأثر ہوجاتی ہے۔
پوری دنیا میں کوئی بھی قانون بنایا ہی اسی لئے جاتا ہے کہ ملک میں ریاستی نظام کو امن و امان سے چلایا جا سکے اور کوئی بھی شخص اگر کوئی جرم کرے تو اس کو اس قانون کے تحت سزا دی جائے تاکہ آئندہ مجرم یا کوئی دوسرا فرد اس سزا سے نصیحت پکڑے اور جرم سے دور رہے۔ اور قانون پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزا صرف اور صرف عدالت دے سکتی ہے۔ عوام کسی جرم کی نشاندہی کر سکتی ہے اور جرم روکنے میں حکومت کی مدد کر سکتی ہے لیکن سزا دینے کا اختیار عام عوام کے پاس نہیں ہوتا اور جب ماورائے عدالت سزا عام شہری دینے لگتے ہیں۔ ایک تو یہ سیدھا سیدھا جرم کرتے ہیں اور دوسرا اس وجہ سے معاشرے میں شر پیدا ہوجاتا ہے اور سارا معاشرہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر کہیں ایسے حالات پیدا ہو جائیں جیسا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے تو اس صورت میں حکومت وقت کو خود بھی اور عام عوام کو بھی قانون پر سختی سے عمل کرنے اور کروانے کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ادارے اور حکمران نہ تو خود سو فیصد قانون پر عمل کرتے ہیں اور نہ ہی عوام سے کروا سکتے ہیں۔ اور جب کوئی توہین رسالت جیسا مسئلہ بنتا ہے تو اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لئے عجیب عجیب بیان داغ دیتے ہیں کبھی کہتے ہیں فلاں قانون ٹھیک نہیں، فلاں شق تبدیل کی جائے، یہ کیا جائے، وہ کیا جائے تو کبھی نام نہاد مفکرین ودانشوروں کا چوغہ پہن کر اس بارے میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اخلاق کا سہارا لے کر شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا کو معاف کرانے کے مفروضوں کو گھڑنے کی بچکانہ حرکتوں پر اتر آتے ہیں۔
موجودہ حکومت اور ریاست کے ذمہ داروں سے ہماری التجا اور درخواست ہے کہ چاہے بیرونی دنیا کے لوگ ہوں یا اپنے ملک کے اندر رہنے والے اس قانون سے خائف افراد اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ان سب پر واضح کردیا جائے کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اور تمام مسلمان اپنے آقا رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی ناموس، تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اور قرآن کریم کی عزت وحرمت کا ہر لحاظ سے تحفظ چاہتے ہیں، اس لیے اس قانون میں کسی قسم کی تبدیلی یا منسوخی ہم نہیں کرسکتے۔ اس لیے اس قانون کے متعلق ہم سے کسی قسم کی بات نہ کی جائے اور نہ ہی اس بارے میں ہماری مسلم قوم کو مزید کسی پریشانی میں مبتلا کیا جائے۔
- توہین رسالت اور ہماری ذمہ داریاں - 15/02/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).