آئیے، ظفر اقبال مرزا سے ملیں


” ساٹھ کی دہائی میں میری ایک خاتون دوست تھی، اگر چہ وہ جغرافیہ میں ایم اے کر رہی تھی لیکن وہ بہت ہی شاندار مقرر تھی۔ اس نے یہ دوستی برقرار رکھنے کے لیے شرط عائد کر دی کہ میں اُس کے لیے تقریر لکھوں۔ موضوع تھا: بیسویں صدی کے اختتام پر آپ دُنیا کو کیسا دیکھتے ہیں۔ میں نے چالیس برس قبل لکھا کہ سوویت یونین کی کایا کلپ ہوگی اور وہ ایک حقیقی جمہوری ریاست بن جائے گا۔ اور میری دوست نے انعام جیت لیا۔ “

اُس زمانے میں ایسی پیش گوئی کو الہامی ہی کہا جا سکتا تھا لیکن اس سے بھی زیادہ دلچسپ امر یہ تھا کہ یہ بات کرنے والا تھا کون۔ ایک ایسا شخص یہ پیش گوئی کر رہا تھا جس کا اٹھنا بیٹھنا ہمیشہ سے بائیں بازو کے نمایاں لوگوں کے ساتھ تھا اور جس نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا بڑا حصہ ’ ویو پوائنٹ‘ جیسے جریدے میں گزارا تھا، ایسے شخص کے منہ سے آپ سوشلزم کے دفاع کے سوا کسی اور نقطہ نظر کی توقع نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ ہیں، عقلی و مدلل گفتگو کرنے والے ظفر اقبال مرزا– ان کے دوست انہیں زم ( ZIM) کہہ کر بلانا پسند کرتے ہیں اور قارئین انہیں لاہوری کے نام سے جانتے ہیں۔

’ڈان ‘ میں آپ اُن کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو اپنے ڈیسک پر نہایت آرام دہ لباس میں ملبوس وہ توجہ فوراً اپنی جانب مبذول کرا لیتے ہیں۔ بِنا رُکے سگریٹ کا دھواں چھوڑتے ہوئے، اس کام میں وقفہ صرف اُتنی دیر آتا ہے جتنی دیر میں زم اپنی میز کا دراز کھول کر اُس میں سے پان نکال کر منہ میں رکھتے ہیں اور اس کے بعد دوبارہ سگریٹ کا دھواں کمرے میں پھیلنے لگتا ہے۔ اب اگر وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ بوڑھے لگتے ہیں تو اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔ زم اس وقت عمر کی پانچویں دہائی کے وسط میں ہیں۔

میں کبھی بائیں بازو سے وابستہ نہیں رہا انہوں نے بتایا۔ جس زمانے میں وہ گورنمنٹ کالج میں تھے اُس وقت سوشلزم و مارکس ازم کی ہوا زوروں پر تھی اور بائیں بازو سے وابستہ ہونا فیشن ایبل ہونا خیال کیا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنے دوستوں کا انتخاب بائیں بازو سے ہی کیا کیوں کہ ان کے خیال میں یہ لوگ ذہین، ایماندار، محنتی اور بے غرض تھے جبکہ ان کے لیے جماعت اسلامی والی ذہنیت کے لوگوں سے بات کرنا مشکل تھا جو اپنے خول میں سختی سے بند تھے۔

سکینڈے نیویائی ملکوں کی جمہوریت انہیں سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے اورانہیں یقین ہے کہ تمام ممالک آخر کار سکینڈے نیویائی نظام کا نمونہ ہی اختیار کریں گے۔ زم کا کہنا ہے: ” ایسا ممکن نہیں کہ آپ لوگوں کو ممکنہ حد تک بہترین خوراک اور طرزِ زندگی دے کر ان سے مطالبہ کریں کہ وہ آواز نہ اٹھائیں۔ طاقت کے بل بوتے پر لوگوں کو اکٹھا نہیں رکھا جا سکتا، نیوکلئیر ہتھیاروں کے زور پر بھی نہیں۔ “

 وہ انقلاب کے نہیں، ارتقا کے حامی ہیں کیونکہ دُنیا بھی اسی عمل سے بنی ہے۔ اسی بنا پر انہیں یقین ہے کہ ہر آنے والی نسل پچھلی نسل سے بہتر ہوتی ہے۔

ان کی اس بات کا اختتام تو ایک پُرامید نکتے پر ہوا لیکن لوگ ان کے بارے میں اس کے الٹ کیوں سوچتے ہیں کہ وہ قنوطی ہیں۔ اس بات میں شک نہیں کہ زم فرسٹریٹیڈ آدمی ہیں۔ ان کے بقول ” کوئی شخص بھی ایسی صورت حال میں خوش نہیں رہ سکتا جہاں کچھ بھی آپ کے حسبِ آرزو نہ ہو رہا ہو۔ “ انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے تیزی سے عدم برداشت کے شکار ہوتے ہوئے سماج میں عقل و خرد کی جوت جگانے کی انتھک کوشش کی جو رائیگاں گئی۔ وہ کہتے ہیں” دوسرے ممالک میں اخبارات لوگوں کی رائے ڈھالنے کا کام کرتے ہیں لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔ یہاں لوگ صرف شہ سرخیوں پر نظر دوڑاتے ہیں یا بڑا معرکہ سر کیا تو کلاسیفائیڈ اشتہارات دیکھ لیے۔ لیکن اس کے باوجود بھی آپ کو اپنی کوشش جاری رکھنی چاہیے کہ یہی انسان اور حیوان کے مابین فرق ہے۔ “

اوائل عمری میں ہی حالات نے زم کو ایسے دبوچا کہ ان کے لیے ایک عادلانہ، سماجی و معاشی نظم کی جدوجہد میں زندگی بسر کرنا ممکن نہ ہو سکا، یا یوں کہیے کہ کم از کم یہ چیزیں ان کی پہلی ترجیح نہ بن سکیں۔ انہیں اپنے خاندان، یا بقول ان کے قریبی اعزا کی ذمہ داری اٹھانی پڑی۔ انہوں نے زندگی کا بڑا حصہ اپنی ماں کے لیے وقف کیے رکھا جو جوانی میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی کے لیے، جسے اہل خانہ کا بوجھ بھی اٹھانا ہو ،اس کے لیے ایک ایماندار اور سچے سماج کے خواب کی جدوجہد زندگی میں دوسری ترجیح ہی بن سکتی تھی۔

اگر انہیں انتخاب کا موقع ملتا تو شاید وہ ترجیحات کی اس ترتیب کو اُلٹ دیتے۔ اب بھی وہ خود کو اپنے ہی گھر میں پے اِنگ گیسٹ سمجھتے ہیں۔ جیسے ہی وہ واپس گھر پہنچتے ہیں وہ خود کو اپنے کمرے میں بند کر لیتے ہیں، کسی کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں۔ انہیں موت کا خوف صرف اس حد تک ہے کہ اس کی وجہ سے ان کی بیوی کے لیے بڑی مالی دُشواریاں پیدا ہو جائیں گی۔ پے اِنگ گیسٹ، جی بالکل! لیکن اگر آپ ان سے اس بابت پوچھ بیٹھیں تو وہ فوراً یہ کہتے ہوئے آپ کا الزام رد کر دیں گے کہ جمعہ کا دِن اہل خانہ کے لیے مقرر ہے اور یہ ہفتے کے وقت کا 12.5 % بنتا ہے۔ ان کا یہ حساب کتاب ہضم کرنا مشکل کام ہے، کسی اور چیز کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

 زم آج کی انحطاط پذیر صحافت سے شدید اکتاہٹ کا شکار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ” آپ کسی بھی اردو روزنامے کا فرنٹ پیج دیکھیں، آپ اس پر نظر تک نہیں جما سکتے یہ گندہ اور عامیانہ تر ہوتا جا رہا ہے۔ صرف نعرے بازی اور چیخم دھاڑ اور آپ چیختے اُسی وقت ہیں جب آپ کے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں۔“ وہ بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ اخبارات کے لیے ضابطہ اخلاق اور بہتان طرازی کے حوالے سے سخت قانون کی ضرورت ہے تاکہ اخبارات لوگوں کی ساکھ سے کھیلنے سے قبل دس بار سوچیں۔ ان کے خیال میں اخباری مالک کے مدیر بن جانے کے نئے رُحجان نے، جیسے نظامی اور میر ہیں، صحافت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ ذہانت اور بے عیب نثر لکھنے کا ہنر رکھنے کے باوجود زم کو اُس وقت حوصلہ افزائی نہیں ملی جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز ’ پاکستان ٹائمز‘ میں بطور لائیبریرین کیا، انہیں یقین ہے کہ اس نوکری نے آگے چل کر ان کی بڑی مدد کی۔ اپنی زندگی کے کافی سال انہیں ڈیسک پر بیٹھنا پڑا (نیوز روم کا کام)۔ اگر اے ٹی چودھری نہ ہوتے تو ان کی زندگی سب ایڈیٹر کے طور پر ہی گزر جاتی۔ چودھری نے ان کی حوصلہ افزائی کی، ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات اُستوار کیے اور بعد ازاں انہیں اپنا لیا۔ ان کے علاوہ وہ مظہر علی خان، آئی اے رحمان، طاہر مرزا، حسین نقی اور نثار عثمانی کو صحافی دوستوں میں شمارکرتے ہیں ۔ تشکیلی دورکے ابتدائی برسوں کے حالات نے انہیں بطور لائبریرین کیرئیر ترک کرنے پر مجبور کر دیا۔ اس میدان میں وہ میاں نظام دین کے بڑے قائل ہیں اور انہیں اپنا گرو قرار دیتے ہیں۔

ساری زندگی لاہور میں بسر کر کے اور لاہوری کا قلمی نام استعمال کر کے، زم ایک طرح شہر کے ساتھ اپنی شناخت جوڑتے ہیں۔ تاہم گزشتہ چالیس برسوں میں شہر میں آنے والی تبدیلیوں کا ذکر وہ طیش یا غصے میں آئے بغیر نہیں کرتے۔ ان کے بچپن کا صاف، اونگھتا و خوابیدہ لاہور بدترین طریقے سے بدل چکا ہے۔ انہوں نے اُس واقعے کو یاد کیا کہ جب ایک پرانے لاہوری کے ایل گابا برسوں بعد اپنا آبائی شہر دیکھنے کے لیے آئے اور اگلے ہی روز یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گئے: یہ میرا لاہور نہیں ہے۔

نوے فیصد شہر زم سے چھوٹا ہے، وہ جس شہر کو جانتے تھے اس کا خاتمہ مزنگ چونگی پر ہو جاتا تھا۔ اب جگہوں کا تقدس، مثلاً تعلیمی ادارے اور ہسپتال وغیرہ، پامال ہے۔ انہوں نے بتایاکہ’جب میں بچہ تھا تو فجر کی اذان اس قدر ہیجان انگیز تجربہ ہوتی تھی کہ اس سے آپ کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے۔ آپ کا جی چاہتا تھا کہ اُٹھیں اور اذان کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے نماز پڑھیں، میرے ساتھ تو کچھ ایسا ہی ہوتا تھا۔ لاﺅڈ سپیکروں کی ایجاد نے تو تقدس کو عامیانہ رنگ دے ڈالا ہے۔ اور اصل بات تو یہ ہے کہ پچھلے چالیس برس میں ہر شے پر عامیانہ رنگ چڑھ گیا ہے: مذہب، سیاست اور حتیٰ کہ ذاتی تعلقات بھی اس سے محفوظ نہیں۔ ‘

زم سیاست کے عامیانہ پن کا ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو کو سمجھتے ہیں۔ بھٹو سے پہلے سیاست ایک سنجیدہ کام سمجھا جاتا تھا اور سیاسی رہنماﺅں کی وہ نسل جس کی مثال قائد اعظم تھے وہ اپنا مقدمہ اپنے مخالفین کے متعلق ایک لفظ کہے بغیر پیش کیا کرتے تھے۔ تاہم وہ ایک پہلو سے بھٹو کے لیے گنجائش بھی پیدا کرتے ہیں اقتدار کے حصول کے لیے سرگرداں ہے۔ اس لیے زم کے خیال میں پڑھی لکھی تیسری قوت کی فوری ضرورت ہے، جو کہ یہ وہ زمانہ تھا جب پیرس سے لے کر کولمبیا تک انقلاب کی ہوا چل رہی تھی، جتنا بلند آہنگ آپ ہوتے، اُتنا ہی آپ کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے، لیکن بھٹوکی نظریاتی بددیانتی نے زم کا طلسم توڑ دیا۔ آج ہر سیاسی جماعت راتوں رات بھلے ہی آنے والے کچھ برسوں میں یا ایک نسل تک بھی انتخابی کامیابی حاصل نہ کر سکے تاہم وہ سیاست میں ہوشمندی کا عنصر ضرور پیدا کرے۔

جب اُن سے پوچھا گیا کہ کسی مصنف کے لیے پُر اثر نثر لکھنے کے لیے ضروری چیز کیا ہے تو انہیں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کی ابتدا کا ایک واقعہ سُنایا۔ مظہر علی خان نے ایک بار زم کو کچھ لکھنے کو کہا۔ انہیں کہیں جانا تھا تو انہوں نے جلدی جلدی میں کچھ لکھ ڈالا۔ بعد ازاں مظہر صاحب نے انہیں اپنے دفتر میں بلایا اور اپنے روایتی نرم انداز میں کہا: ’جناب عالی کچھ بھی اچھا لکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اچھا پڑھیں۔ آپ کے لکھے سے جہالت ٹپکتی ہے۔‘

میںنے اُن سے پوچھا کوئی پچھتاوا؟ ”کوئی خاص نہیں ماسوائے اس کے کہ صحافی ہونے کی وجہ سے میں اپنی ماں کے لیے اُتنا کچھ نہ کر پایا جتنا مجھے کرنا چاہیے تھا۔ یا یہ کہ میں باوجود کوشش کے سگریٹ نوشی ترک نہیں کر سکا۔ “

ساٹھ کی دہائی والی اُس خاتون دوست کے لیے بھی انہیں کوئی پچھتاوا نہیں جس نے ان کے صحافت میں آنے کے فیصلے سے ناخوش ہو کر کسی اور سے شادی کر لی؟

” نہیں، اس کے لیے بھی کوئی پچھتاوا نہیں۔ اور اب جب میں مُڑ کر دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اچھا ہوا، میں نے اُس سے شادی نہیں کی۔ “

(ظفر اقبال مرزا سے یہ انٹرویو فرح ضیاء نے کیا جو 17 اگست 1993ء کو ’ فرنٹئیر پوسٹ‘ میں شائع ہوا۔ انٹرویو کا اردو ترجمہ ثقلین شوکت نے کیا ہے)

اردشیر کاؤس جی کے ہمراہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments