ایک ہیرو کی موت


ٹی وی چینلز پر ہم روزانہ کئی مناظر دیکھتے ہیں اخبارات میں خبروں کے ساتھ تصاویر بھی نظروں سے گزرتی ہیں اور ہم انہیں بھول جاتے ہیں۔ لیکن چند مناظر اور تصاویر ایسی ہوتی ہیں جو ذہن پر نقش ہوجاتی ہیں۔ ان کا اثر طویل عرصے تک رہتا ہے۔ ایسا ہی ایک منظر اور تصویر مجھے بھلائے نہیں بھولتی۔ شخصیت پرستی کے بت کیسے چکنا چور ہوتے ہیں، ہمارے ہیرو کیسے ہماری آنکھوں کے سامنے پستی میں گرسکتے ہیں یہ سب دی ہیگ عالمی عدالت انصاف کا یہ منظر واضح کر رہا تھا۔

ایک عورت مسکراہٹ سے عاری چہرے پر سنجیدگی اور تھکاوٹ کا بھاری بوجھ لیے بجھی بجھی سی اپنی فوج کا دفاع کرتی نظر آرہی تھیں۔ کیا المیہ ہے۔ میانمار کی مظلوم روہنگیا اقلیت کے قتل عام کا دفاع۔ وہ اس فوج کا دفاع کر رہی تھیں جس نے عوام کے حق حکمرانی کو کچل کر اقتدار پر قبضہ کیا۔ عوام کے حقوق غضب کیے۔ خود انہیں برسوں نظربند رکھا۔ وہ فوج جس کے کے خلاف شاندار عوامی جدوجہد کی انہوں نے قیادت کی تھی۔ آمریت مردہ باد، جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگانے والوں کی وہ رہنما تھیں۔ پوری دنیا کے جمہوریت پسند انہیں اپنا ہیرو تصور کرتے تھے۔ یہاں تک کہ عوامی حقوق کی جدوجہد پر انہیں نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا۔

لیکن اب یہ سب ماضی کا قصہ ہے۔ ہماری ہیرو آنگ سان سوچی اب میانمار کی فوجی جنتا کے انسانیت سوز مظالم کا دفاع کر رہی تھیں۔ میں سوچتا ہوں جو الفاظ وہ اپنے جنرلوں کے دفاع میں ادا کر رہی تھیں اس میں ان کا دل بھی شامل تھا۔ کیا ان کا دل بھی اس کی گواہی دے رہا تھا۔ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ انسان کی عظمت اور پستی کی شاید کوئی انتہا نہیں ہے۔

ایک عالمی نشریاتی ادارے نے عالمی عدالت انصاف میں اس سماعت کی منظرکشی کرتے ہوئے لکھا:وہ آسیب زدہ لگ رہی تھیں۔

شاید سچ ہی لکھا ہے۔ وہ ایک انتہائی طاقتور آسیب کے زیر اثر ہیں۔ ایک ایسا آسیب جس کے خلاف لڑتے لڑتے وہ خود اس کا شکار ہوگئیں۔ ان کی زندگی میں یہ دن بھی آئے گا یہ شاید آنگ سانگ سوچی نے خود بھی نہیں سوچا ہوگا۔

عالمی انسانی حقوق کی (سابق) روشن مثال کی شخصیت کے تضاد کا یہ عالم تھا کہ وہ ان 740000 روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں کی دل دہلادینے والی گواہیوں کے خلاف دلائل دے رہی تھیں جو اپنے ملک میانمار سے فرار پر مجبور ہوئے ہیں۔

عالمی عدالت انصاف میں جب مظالم کا شکار کچھ روہنگیا افراد نے اپنی داستان سنانے پہنچے۔ جب عدالت میں بچوں کو زندہ آگ میں جھونکنے، حاملہ خواتین کو مار مار کر قتل کرنے اور بڑے پئمانے پر ریپ جیسے رونگھٹے کھڑے کردینے والے مظالم کی تفصیلات سنائی جارہی تھیں تو عدالت میں موجود کئی لوگوں کی آنکھیں بھیگ گئیں، اور سسکیاں سنائی دینے لگیں۔ آنگ سانگ سوچی احساس سے عاری تاثر کے ساتھ یہ سب کچھ سن رہی تھیں۔ یہ سب ناقابل یقین حدتک لرزہ خیز مظالم جس حکومت کی نگرانی میں ہوئے وہ اس کا حصہ ہیں۔

آنگ سان سوچی جب دوہزار دس میں نظربندی کے بعد رہا ہوئی تھیں تو دنیا نے انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا تھا۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ فوجی آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کے حصول کی جہدوجہد میں گزارا تھا۔ لیکن اپنی غیرموجودگی میں نوبل انعام ملنے کے اٹھائیس برس بعد جب وہ دی ہیگ پہنچیں تو اس کی ان کی راہ میں کوئی سرخ قالین نہیں تھا۔ وہ مظلوم کے ساتھ نہیں تھیں۔ وہ ظالم کا دفاع کر رہی تھیں۔ دی ہیگ کی عالمی عدالت انصاف آنگ سان سوچی کے دلائل رد کرچکی ہے۔

میں سوچتا ہوں جب آنگ سان سوچی دی ہیگ کی شدید سردی میں روہنگیا مسلمانوں پر ہوئے مظالم کا دفاع کرنے کی کوشش کر رہی تھیں، دور میانمار کے معتدل موسم میں اپنے عالیشان اور آرام دہ گھروں میں بیٹھے جنرل کیا سوچ رہے ہوں گے۔ شاید انہوں نے سگار کے لمبے کش لگائے ہوں گے، ایک دوسرے کو دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرائے ہوں گے۔ اور پھر ایک زور دار قہقہہ گونجا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments