سیاست بے حسوں کا کھیل ہے


منزل اور مقصد کا تعین نا کیا جائے تو سفر کی مشقت بے معانی اور ناجائز۔

ممکن نہیں کہ مسافر تمھید سفر باندھنے سے پہلے سفر کا مقصد اور منزل کی اہمیت کو نا جانتا ہو۔

اس کے باوجود سفر کی مشقت جب پاوں کے چھالے اور بالوں کو گرد کے سواء کچھ نا دے تو کیا سمجھا جائے؟

یقینا مسافر نے نفسانی خواہشات کو کعبہ مان لیا اور مشکل منزل کی بجائے آسان ہدف کا تعاقب کیا۔ سفر رائیگاں صرف ان کے لئے جو میر کاررواں کے مقلد ٹھہرے۔

میر کاررواں خود دھوکہ نہیں کھایا کرتے۔ بوجوہ منزل سے بھٹک جایا کرتے ہیں۔ قافلے والے اسی کی آواز اور دید وری کو جہاں کل سمجھ پیروکاری کے آداب نبھاتے چلے جاتے ہیں۔

یہ سوچے بغیر کہ اس کے ایمان کا ضامن کون؟ کوئی بھی تو نہیں۔ جہاں ایک کرسی ان ایمان فروشوں کی قیمت ہو۔

ایسے میں راہبری کس سے اور کیونکر چاھئیے؟

جہاں اہل شعور کا ماننا ہے کہ نظریات دولت ہوا کرتے ہیں وہیں اہل علم کا کہنا کہ سیاست کے پہلو میں دل نہیں ہوتا۔

ہمارا ماننا کہ دل ہی نظریات کو پیدا کرتا ہے اور دل ہی ان کی نگہداشت۔

اس سب کے چلتے اور موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھنے کے بعد ہم بھی اہل علم سے متاثر ہوئے بغیر نا رہ سکے۔

آپ نے شاید کبھی غور کیا ہو سترہ سال بعد کیلنڈر دوبارہ قابل استعمال ہو جاتا ہے۔ تاریخ دن وہی ہو جاتے ہیں۔ جو سترہ سال پہلے تھے۔ جیسے آج گیارہ فروری اور منگل کا دن ہے اور کیلنڈر ائیر 2020 ہے۔ مگر 2037 میں بھی یہی کیلنڈر آپ کی دیوار کی رونق بن سکتا ہے۔

اب زمانہ ذرا تیزی سے ترقی فرما رہا ہے۔ یہی سمجھئیے کہ اب سترہ سال کی بجائے چھ سال بعد ہی کیلنڈر وہی تاریخیں وہی دن بتا رہا ہے۔

آج سے چھ سال پہلے 2014 میں لندن پلان پلان کے چرچے اور آج چھ سال بعد وہی لندن پلان وہی ارادے۔

ایسے میں مجھ جیسے کئی ناقص العقل پنجابی کہاوت ”کھوتی اور بوہڑ“ کی مثالیں پیش کرنے پر مجبور اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ”ووٹ کوعزت دو“ کے نعرے سے سفر شروع کرنے والے آج خود ہر لحظ ووٹ اور ووٹر کی عزت کو پامال کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ جن کی مہربانیوں سے عوام سلیکٹڈ سلیکٹڈ کی گردان کرتی نظر آئی آج وہی سلیکٹرز نئی ٹیم کی سلیکشن کے لئے میٹنگز فرما رہیں ہیں۔

کہنے کو ایک تبدیلی ہے۔ ہو بھی سکتا ہے کچھ بہتری کے آثار بھی ہوں مگر میرے نزدیک تو یہ تبدیلی محض چہروں کی تبدیلی ہو گی۔ نظام وہی خاکی۔ اور عوام اور حاکموں کے لئے وہی ”خاک“

وہ جو خواب دکھائے گئے تھے سب خاک ہوئے

عوام کو حق حاکمیت کے حسین سفنے دکھائے گئے خود ہی ان کو روند دیا گیا۔

سنا ہے اب دشمن دوست بن گئے اور رقیب ہمدرد ٹھہرائے جا چکے۔

بہر حال خوشی کی خبر یہ ہے کہ تبدیلی آنی ٹھہر چکی۔ معاملات طے ہو چکے۔

سدا کے جادوگر اب چھڑی گھمانے کے مناسب وقت کے منتظر۔ جب جادوگر کی چھڑی گھومے کی کئیوں کی کایا پلٹ جائے گی۔ نت نئے مباحثے ٹی وی اسکرینز کی رونق بنتے جائیں گے۔ سر شام سے ہی کئی تجزیہ نگار ان اسکرینوں پر الفاظ کے موتی بکھیرتے نظر آئیں گے۔

ان سب کے درمیان عوام اور عوامی ترجیحات شاید کہیں نظر نا آئیں۔ مگر اس ہجوم جسے ہم قوم کہتے ہیں ان سب کو ایک نیا موضوع دستیاب ہو گا۔ روز مقررین اپنے اپنے ناخداوں کے حق میں دلائل لائیں گے اور مخالفین پر الزام تراشیاں کریں گے۔

عین ممکن ہے کہ لوگ آپس میں دست وگریباں بھی ہوں۔ ہونے کو کیا نہیں ہو سکتا۔

اگر کچھ نہیں ہونا تو بس اتنا کہ اس عوام کو کوئی مسیحا دستیاب نا ہو گا۔

حکومتیں بھی بدلیں گی چہرے بھی تبدیل ہوں گے۔ اگر کچھ تبدیل نا ہو گا تو وہ ہے حاکم۔

ان مسیحاوں کی خاطر قربان گاہ میں خوشی خوشی جانے والے پھر دستیاب ہوں گے۔ اگر کوئی موجود نا ہو گا تو بس ان قربان ہونے والی کی عظمت کو تسلیم کرنے والا۔

مجھ جیسے کئی ایسے ہوں گے جو ان نام نہاد تبدیلیوں کا جشن بھی منائیں گے اور بیشتر ایسے بھی جو جانے والوں کا سوگ بھی کریں۔

اگر کوئی نا ہو گا تو وہ اس غریب کی آہ و زاری پہ کان دھرنے والا نا ہوگا۔

اگر کوئی نا ہو گا تو وہ اس بے بس عوام کے دکھ پر ماتم کرنے والا۔

 جو لٹکے نے سولی اوہ لتھنے نہیں

راج بدلن گے سورج چڑھن لین گے

کون جیتا کون ہارا، یہ کہانی پھر سہی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments