احسان تیرا ہوگا مجھ پر


”احسان تیرا ہوگا مجھ پر۔ دل چاہتا ہے وہ کہنے دو۔ “

”اؤ بھولے خیر ہے! بڑی سُریں لگا رہے ہو“۔

”مان میرا احسان۔ ارے نادان کہ میں نے تجھ سے کیا ہے پیار۔ او میں نے۔ “

”ہش کے وئی ہش کے“

”احسان میرے دل پہ۔ تمہارا ہے دوستو۔ یہ دل تمہارے پیار کا مارا ہے دوستو! ۔ احسان۔ “

” اللہ خیر پھر احسان والا گانا! “

” یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران۔ اے قائدِ اعظم۔ تیرا احسان ہے احسان۔ تیرا احسان ہے۔ تیرا۔ “

”اؤ بریک پہ پیر رکھ بھولے، گانا سنا ا! تو نے تو احسان کا پہاڑہ سنانا شروع کر دیا ہے“

” سر جی! آج مجھے رج کے گانے دہں، احسان والے گیت۔ “

” جِنّا مرضی گا پر احسان والے گیت ہی کیوں! ۔ اچھا۔ تو یہ بات ہے۔ یعنی اپنا بھولا اتنا بھی بھولا نئیں۔ “

” تو فیر سنیں سر جی! ۔ احسان تیرا ہوگا مجھ پر۔ “

” او بھولے بادشاہ! گا جِنّا مرضی گا پر احسان نہ میرا ہے نہ تیرا، جن کا احسان تھا وہی اسے لائے تھے اور وہی اسے۔ آہو۔ تو اتنی ایفیشنسیاں نہ دکھا اور اپنے کم سے کم رکھ“

” کیوں سر جی! کیوں نہ دکھاؤں ایفیشنسیاں، کیا یہ ملخ میرا نئیں؟

” نئیں۔ اگر کسی نے مہربانی کر کے تجھے رہنے کے لیے تھاں دے دی ہے تو مالک نہ بن تو۔ میرے پیارے! ملک ان کے ہوتے ہیں جو اس کے فیصلے کریں یا کسی کو اس کے فیصلے کرنے کا حق دیں، اپنی مرضی کے ساتھ۔ “

” تو کیا ہم حق نئیں دیتے فیصلوں کا“

” فیر اوہی گل بھولے! چولیں نہ مار، تجھے سارا پتہ ہے“

”ہاں سر جی! پتہ تو سارا ای ہے پر فیر وی دیکھیں نا! اب بندہ بات وی نہ کرے، گیت وی نہ گائے! ۔ ہائے“

” رہن دے وڈّا گلوکار تے کلاکار۔ مجھے غصہ نہ دلا۔ جب تیجی جنگ کے بعد کمیشن بنا اور اس کی رپورٹ وریاں تک نئیں آئی، تو کوئی گیت گایا تونے؟ “

”نئیں“

” دو واری جب انہوں نے اپنے گوانڈی یعنی اپنے شمال اور شمال مغربی ملک میں بیگانی لڑائی لڑی، تو نے کوئی گیت گایا؟ “

”نئیں“

” دو ہزار سے ایک ورے پہلے بے ریاستی فنکاروں کا کہہ کے فیر بے فضول پر ہمیں لپٹنے کے لیے اک ہور جنگ لڑی اور فیر۔ آہو۔ تو نے کوئی گیت گایا؟ “

” نئیں“

” او بتا! بے ریاستی یا لا ریاستی اداکاروں کے خلاف کوئی ایک گیت گایا تو نے“

” نئیں سر جی! “۔

” دو واری کی حاکم اپنے ای دیس میں حلال ہو گئی۔ کوئی گیت؟ “

” اوں، ہوں“

”اؤ کی، اوں ہوں؟ “

” مطبل کہ نئیں سر جی! “

” احسان کے مالکان کا مہمان امریکی کافران اپنے ایدھروں ای برآمد کر گئے۔ کوئی گیت؟ نئیں نہ بچّو! “

” نئیں“

” فیر اوس پر کمیشن بنا۔ ابھی تیکر اس کی رپورٹ نئیں آئی۔ تے نہ ای کوئی گیت۔ انج ای ہے نہ؟ “

” جی سر جی“

” تو پھر اب کیوں تان سین بن رہا ہے“

”سر جی! ایوئیں کمپنی کی مشہوری کے لیے“

” اوئے جا۔ وہ کمپنی تو سنتالی سے لے کر آج تک نئیں چلی۔ اور نہ ای کسی نے اب تک چلنے کی اجازت دی۔ آہو۔ “

” ایوئیں باگا اڈ کے گاؤن نہ گا۔ اپنے آپ میں رہ۔ وڈا گلوکار۔ جا نس کے جا اور پتہ کرکے آ۔ آٹا سستا ہوا کہ نئیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments