کہیں آپ کی بھی نہ گُزر جائے!


کامیابی اور ترقی بے شک اچھے اور سازگار حالات، ماحول، جدید اور بہترین تعلیم، ماں باپ، ذمہ دار اساتذہ اور مخلص دوستوں کے بعد ذا تی لگن اور نیک نیت جیسے عوامل پر مشتمل ہوتی ہے۔ لیکن مذکورہ نعمتوں میں سے ہر ایک کے لیے تمام کا بیک وقت حصول ممکن نہیں۔ کوئی اچھے اور موافق حالات نہ ہونے کے سبب اچھی تعلیم سے محروم رہا تو کسی بدنصیب کو وقت سے پہلے ہی والدین یا دونوں میں سے کسی ایک سے جدائی کا صدمہ مل گیا۔ کسی کو اساتذہ کی شفقت اور توجہ نہ مل سکی تو کوئی غلط اور بد کار حلقہ یاراں میں بیٹھ کر عمر کا ایک حصہ گنوابیٹھا۔ کسی کو اللہ رب العزت نے ان تمان نعمتوں سے نواز دیا تو اس کی اپنی کم عقلی اسے لے ڈوبی، جو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو کچھ بنا نہیں سکا اور مسلسل سستی اور کاہلی اپنا کر وقت کا قاتل ثابت ہوا اورآخروقت کے ہاتھوں برباد ہوا۔

لیکن ان تمام میں سے، نیت کے سوا، کچھ بھی انسان کے اختیار نہیں۔ دنیا میں بھیجے جانے سے قبل کسی سے نہیں پوچھا جاتا کہ کیسے گھر جانا پسند کرو گے۔ عموماً تعلیمی ادارے بھی ”علم برائے فروخت“ کا نعرہ بلند کیے تعلیمی مفاد کے بجائے مالی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں ان سب حالات میں کچھ لوگ اپنی تمام عمر الزام تراشی، نظام کی خرابی اور بد قسمتی کا رونا روتے گزار دیتے ہیں خود تو مایوسی میں مبتلا ہوتے ہی ہیں، گردو نواح میں بھی وہی فضا پیدا کرتے ہیں جو معاشرے کی اجتماعی ترقی کے لیے کسی طور بھی مفید نہیں، ان کے اس شکوہ کو کچھ وقت کے لیے مان بھی لیا جائے کہ انہیں ترقی کے مواقع نہیں ملے، تو یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ کبھی ملیں گے بھی نہیں۔

ان کے لیے یہ جان لینا بہت ضروری ہے کہ بچپن اور لڑکپن میں مواقع نہ ملنے پر کچھ نہ کیا جائے تو قابل قبول لیکن جونہی جوانی کے ابتدائی چند سال گزر جائیں تو ہم بہت کچھ سیکھ چکے ہوتے ہیں مشاہدہ اورقوّتِ مشاہدہ وسیع ہوجاتے ہیں۔ اس صورت حال میں حالات یا نظام کو الزام دے کرگزارہ نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جس میں خودا پنی راہ بنانی ہوتی ہے اپنی ناکامی کا ذمہ دار کسی کو ٹھہرانے کا وقت بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔

مان لیا اللہ کی ذات نے کسی کو زندگی کے ابتدائی ایّام میں کچھ آزمائشوں سے گزارا ہوگالیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان پر اب ترقی کے تمام دروازے بندہوگئے ہیں گزرتے وقت کومزیدگزارنے سے بہترہے کہ اس تیزرفتاردھار میں اپنا راستہ بنایاجائے۔

اگر کوئی ترقی یافتہ ترقی پذیر ماحول نہیں پاسکا، وہ ترقی پسند توبن سکتا ہے۔ سازگار ماحول میّسرناسہی، عقل، فہم و فراست تو باقی ہے۔ مال اسباب کی عطا میں قدرت نے کچھ فرق رکھا ہے لیکن اچھے برے کی تمیز، فائدے نقصان کے انتخاب کاشعور، تجسس اور خواہش کا مادہ ہر ذی روح میں یکساں رکھا ہے فرق انسان خود کرتا ہے، یا ان کا صحیح استعمال کر ے، سُستی، کاہلی اور شکوے شکایات پر قابو پاکر میدان عمل کُودجائے اوردل لگی سے کام کرے تویقیناً اللہ کی ذات مہربان ہوگی۔ اس کے برعکس خدا کی تقسیم پرشکوے اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی معجزے کا انتظارکرنے والوں کے لیے حالات کبھی سازگار نہیں ہوتے خوشحال گھرانے میں پیداہوناکسی صورت کوئی بڑی بات نہیں بلکہ تنگ دستی کے دن گزارکرحالات کارُخ اپنے حق میں موڑنا اصل کمال ہے۔

معجزہ اور موقع کی تاک میں بیٹھنے والوں کو کچھ مل بھی جائے تویہ یقیناً وہی کچھ ہوتا ہے جو محنت کرنے والوں سے بچ جاتا ہے۔

”الکا سب حبیب اللہ“ میں اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کے ساتھ عبد معبود کے علاوہ دوستی جیسے عظیم رشتے کا ہاتھ بھی بڑھایاہے شرط صرف محنت ہے۔ لہٰذہ دانشمندی اسی میں ہے کہ اگر کچھ ہیں نہیں تو کچھ بننے کی کم از کم کوشش ہی شروع کی جائے۔ اگر، مگر، ناممکن، کیسے؟ یہ خیالات صرف ہمارے ہیں اللہ کی ذات کے ہاں کچھ ممکن نہیں، ضرورت اس چیز کی ہے کہ بس قدم بڑھایاجائے۔ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایاہے، کائنات کی تسخیر کے قابل بنایاہے۔ اس منصب کا تقاضا یہی ہے کہ مشکلات پر غالب آئے، گھٹنے ٹیک دینا اس کے منصب انسانیت کے خلاف ہے۔

جو آج اچھامعیارِزندگی اور مواقع نہ ملنے پر قسمت کوکوُس رہے ہیں اور صبح شام کسی معجزہ کے منتظر، بے بس نظر آتے ہیں وہ ذرا لمحہ بھر کے لیے سوچیں کہ کہیں ایسا تو نہیں ان کے بڑوں نے بھی اپنا وقت ایسے ہی گزار دیا ہو جیسے وہ کر رہے ہیں، تماشائی بن کر وقت گزارنے کی بجائے وقت کے ہاتھوں گزر رہے ہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے، توخداراسوچ بدلیے۔ اُن کی تو چلو گزرگئی، کہیں آپ کی بھی نہ گُزرجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments