چھچھوندر کے سر پہ نہ بھائے چنبیلی


جس ملک کے صاحبان علم و دانش، فنون لطیفہ کا مطلب لطیفوں کا فن اور طوائف الملوکی کو طوائفوں کی حکومت سے تعبیر کرتے ہوں وہاں ہر روز کسی لطیفہ کا سرزد ہونا کسی اچھنبے کی بات نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک سردار نے ڈاکٹر سے کہا۔ مجھے رات کو خواب میں گدھے فٹ بال کھیلتے نظر آتے ہیں، کیا کروں؟ ڈاکٹر نے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے کہا، تمہیں دوائی لکھ دیتا ہوں، کھا لینا، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ سردار نے لجاجت بھرے لہجے میں التجا کی، کل نہ کھالوں۔ ڈاکٹر نے حیرت سے پوچھا، کیوں؟ سردار نے مجبوری بیان کرتے ہوئے کہا۔ آ ج ان کا فائنل ہے۔ ہاہاہاہاہا۔

تو لیجیے صاحب، حکومت اور ق لیگ کے اتحاد کی ہانڈی میں اٹھنے والا ابال صرف ایک ہی با مقصد اور فائنل مذاکرات کے بعد بالآخر ٹھنڈا پڑگیا اور اس کے ساتھ ہی حکومت گرانے کے جھکڑ چلانے والوں کے ارمانوں پر ایسی اوس پڑی کہ اب انہیں کسی ڈاکٹر یا دوائی کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ شہتوت جلیبا، ٹھنڈا ٹھار اے۔

حکمران جماعت کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے روٹھی روٹھی سی اتحادی جماعت سے مذاکرات کرکے انہیں اپنے ساتھ چلنے پر رضا مند کر ہی لیا۔ ٹیم میں شامل وفاقی وزراء پرویز خٹک، اسد عمر، شفقت محمود، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے چوہدری برادران کی چوکھٹ پر حاضری دی اور بصد عجز و نیازتحفظات سنے۔ مدمقابل ٹیم میں سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ، وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ، پرویز الہیٰ کے صاحبزادے مونس الہیٰ، رہنما مسلم لیگ ق رافع چوہدری اور رکن اسمبلی کامل علی آغا بھی شامل تھے۔

حکومتی ٹیم نے ق لیگی قیادت کو تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرانے کے بعد ان کے تمام مسائل حل کرنے کا ٹاسک وزیر اعلیٰ اور گورنر پنجاب کو سونپ دیا۔ یقین دہانی پر ق لیگ نے رنجشیں بھلا کر ایک ساتھ چلنے کا عندیہ دے دیا۔ جس کے بعد چوہدری پرویز الہیٰ اور پرویز خٹک نے میڈیا کو تھوڑی سی گھاس ڈالتے ہوئے ایک ساتھ چلنے کے عزم کی نوید سنائی مگر دو ٹکے کے صحافیوں کے سوالات کا جواب دیے بغیر ہی چلے گئے۔ جہاں دیدہ اور زیرک ترین پرویز خٹک نے بس اتنا فرمایا کہ اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق، متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں تاہم گلے شکوے ہوتے رہتے ہیں جو دور کر دیے گئے۔

وزیراعظم بھی اتحادی جماعتوں کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہیں، ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ اتحاد پورے پانچ سال چلتا رہے گا۔ چوہدری پرویز الہیٰ نے دل پر ہاتھ رکھ کر اطمینان کے ساتھ ارشاد فرمایاکہ تحفظات دور ہوچکے اور گلے شکوؤں کے بعد ہم ایک بار پھر پہلے کی طرح ساتھ مل کر کام کریں گے تاہم حسب ضرورت خرابیوں کی نشاندہی بھی کرتے رہیں گے۔ سب سے اہم خوشخبری یہ کہ مہنگائی پر قابو پانے اور عوامی مسائل حل کرنے پر بھی اتفاق ہوگیا۔ البتہ حکومتی کمیٹی کی رخصتی کے بعد چوہدری صاحب نے انکشاف کیا کہ انہیں اس ملاقات میں بعض نئے معاملات کا علم ہوا اور جو طے کیا گیا، جلد عوام کے سامنے لائیں گے، اس میں بڑی خبریں ہیں۔ ایک پسندیدہ سوال کے جواب میں فرمایا، مولانا فضل الرحمن کی امانت ان کے پاس محفوظ ہے اور وہ وقت آنے پر واپس کریں گے۔

فائنل راؤنڈ میں اتحادی جماعت کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے، جس کے مطابق ق لیگی اراکین کے حلقوں میں خصوصی فنڈز کا فوری اجرا ہوگا۔ میچ فکسنگ کے تحت پنجاب کے متعلقہ اضلاع میں سرکاری افسران کی تقرری ق لیگی قیادت کی مشاورت سے ہوگی جبکہ جن افسران پر اعتراض اٹھایا گیا ہے، ان کو ہٹانے کے لیے حکومت مسلم لیگ ق سے مشاورت کرے گی۔ ایک شرط یہ بھی کہ اتحادی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزرا کو اپنے متعلقہ اداروں میں ردوبدل سے متعلق مکمل اختیار حاصل ہوگا، پنجاب کی بیوروکریسی میں ردوبدل اور اضلاع میں ترقیاتی کاموں سے متعلق بھی ق لیگ کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

مسلم لیگ ق وفاق میں دو وزارتوں کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی، ق لیگ اب مونس الہیٰ کے لیے وفاقی وزارت نہیں لینا چاہتی۔ منظور کیے گئے مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وفاق میں پرویز خٹک اور اسد عمر نگرانی کریں گے۔ اڑ پھس یہ ہے کہ مولانا چوہدریوں سے اپنی امانت کی واپسی کا مطالبہ کب اور کیسے کرتے ہیں۔ شالا نظر نہ تھیوے، جلنے والے کا منہ کالا۔

ایک اور دلچسپ کہانی یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت نے اشتہاری سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کی رہائش گاہ کو پناہ گاہ میں تبدیل تو کیا لیکن اس محل نما گھر میں 21 بے گھر افراد صرف دو راتیں ہی گزار سکے۔ اسحاق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحاق کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ حکومت پنجاب نے ان کے گھر کو غیر قانونی طور پر پناہ گاہ میں تبدیل کیا جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے رہائش گاہ کی نیلامی کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا اور گھر کی احتساب عدالت کے حکم پر نیلامی کا عمل بھی روکنے کا حکم دے دیا۔

درخواست کے مطابق اس رہائش گاہ پر پناہ گاہ بنانے کا عمل بھی پنجاب حکومت کی جانب سے خلاف آئین اور خلاف قانون اقدام ہے جبکہ پنجاب حکومت نے ہائی کورٹ کے حکم کی بھی خلاف ورزی کی۔ عدالت نے درخواست پر سماعت کے بعد اسحاق ڈار کے گھرکو پناہ گاہ میں تبدیل کرنے کے خلاف حکم امتناعی جاری کر دیا اور پنجاب حکومت سے دس روز میں جواب طلب کرلیا۔

سوشل میڈیائی سقراطوں جمع بقراطوں کو اللہ پوچھے جو سوال پر سوال اٹھائے چلے جارہے ہیں کہ اسحاق ڈار کے مکان کو پناہ گاہ بنانے کے بعد کیا حکومت سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے فارم ہاؤس کو بھی شیلٹر ہوم میں اسی طرح بدلنے کی ہمت رکھتی ہے۔ اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں پرویز مشرف کا وسیع و عریض فارم ہاؤس بھی ضبط شدہ جائیداد ہے یہاں پر بھی ایک عظیم الشان شیلٹر ہوم بن سکتا ہے۔ اسحق ڈار کے مکان کو پناہ گاہ میں تبدیل کرنے والے عمران خان ایک اور مفرور جنرل مشرف کے فارم ہاؤس کو یتیم خانہ بنائیں گے۔

اور تو اور مفرور اسحاق ڈار کے نڈر اور بہادر صاحبزادے علی ڈار کا کہنا تھا کہ جو ڈار صاحب کے ساتھ ہو رہا ہے وہ سیاسی انتقام کی بدترین مثال نہیں تو اور کیا ہے؟ اگر کسی مفرور کے گھر کو پناہ گاہ میں تبدیل کرنا معمول کا عمل ہے، تو موجودہ وزیر اعظم عمران خان صاحب خود بھی کئی سال مفرور رہے۔ پرویز مشرف بھی ایک طویل مدت سے مفرور ہیں، ان کے ساتھ یہ سلوک تو نہیں ہوا۔

اب بھلا ان اشتہاریوں اور مفروروں کے حمایتیوں کو کون سمجھائے کہ کہاں قومی خزانے کو اربوں کا ٹیکہ لگانے والے منشی ٹھگ اور کہاں وطن عزیز کے لئے جنگیں لڑنے والا قومی ہیرو اور دنیا کا بہادر ترین کمانڈو، کہاں بدنام زمانہ سسلین مافیا اور کہاں مصدقہ صادق اور امین۔ کچھ تو خدا کا خوف۔

چھچھوندر کے سر پہ نہ بھائے چنبیلی

کہاں راجہ بھوج، کہاں گنگو تیلی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments